وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ صنعتی ترقی اور برآمدات کے فروغ کیلئے صنعتوں کو کم لاگت پر بجلی اور گیس کی فراہمی یقینی بنائیں گے۔ صنعتوں کو سہولیات فراہم کرنا حکومت کی ترجیح ہے۔ بجلی اور گیس کی ٹیرف ریشنلائزیشن کیلئے صنعتکاروں سے مشاورت کی جائیگی۔ گزشتہ روز صنعتی شعبے کو سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے اپنی زیرصدارت منعقدہ اجلاس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے صنعتوں کیلئے ٹیرف ریشنلائزیشن کے حوالے سے حکمت عملی فی الفور تیار کرنے کی ہدایت بھی کی۔ وزیراعظم شہبازشریف سے گزشتہ روز چینی کمپنی ایم سی سی ٹونگسن ریسورسز کے چیئرمین وانگ جائی چینگ کی زیرقیادت چینی وفد نے بھی ملاقات کی۔ وفد سے گفتگو کے دوران وزیراعظم نے کہا کہ حکومت بیرونی سرمایہ کاری میں اضافے کیلئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات اٹھا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چین نے پاکستان کی ہر برے وقت میں مدد کی ہے جس پر پوری پاکستانی قوم چینی قیادت اور عوام کی شکر گزار ہے۔ وزیراعظم نے چینی کمپنی کو پاکستان میں معدنیات کے شعبے میں کان کنی سے لے کر برآمدی اشیاء کی تیاری تک کیلئے پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دی اور کہا کہ اس کیلئے حکومت پاکستان مکمل سہولیات فراہم کریگی۔ وزیراعظم شہبازشریف کے بقول حکومت کی کاروبار دوست پالیسیوں کے مثبت نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں۔ دریں اثناء مشروبات بنانے والی بین الاقوامی کمپنیوں کے وفد نے بھی گزشتہ روز وزیراعظم شہبازشریف سے ملاقات کی۔ کوکا کولا پاکستان و افغانستان کے نائب صدر وولکان اور سی ای او پیپسی کو پاکستان و افغانستان محمد کھوسہ اس وفد کی قیادت کر رہے تھے۔ وزیراعظم نے کہا کہ بین الاقوامی کمپنیاں کارپوریٹ سوشل ریسپانسبلٹی کے تحت اپنی سرگرمیوں سے مثبت کردار ادا کریں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہماری سرزمین سمیت اس خطہ ارضی میں بے شمار اور نادر قدرتی وسائل موجود ہیں جنہیں بروئے کار لا کر پاکستان اور اس پورے خطے کو جنت نظیر وادی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ قدرت نے یہاں زیرزمین قیمتی دھاتوں بشمول سونا‘ تانبا کی صورت میں اور پھر تیل‘ گیس کے قیمتی خزانوں کے ذریعے اپنے مظاہر آشکار کئے ہوئے ہیں۔ خطے کے جو ممالک قدرت کے ان خزانوں کو بروئے کار لا کر اپنی اقتصادی‘ صنعتی اور زرعی ترقی کیلئے ان سے استفادہ کر رہے ہیں۔ وہ اس وقت ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہیں جن میں برادر مسلم ممالک سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ قطر اور ایران بھی شامل ہیں تاہم ان میں سے کچھ برادر مسلم ممالک نے اپنے مفادات امریکہ کے ساتھ وابستہ کئے ہوئے ہیں جس نے ان ممالک کے ساتھ معاہدے کرکے بالخصوص تیل کے ذخائر پر اپنا تسلط جمایا ہوا ہے جس کے باعث قدرت کے یہ وسائل صرف اس خطے کی ترقی کیلئے بروئے کار لانا عملاً ناممکن ہو چکا ہے۔ ایران نے اس معاملہ میں امریکی تسلط قبول نہیں کیا چنانچہ امریکہ نے اسکی ایٹمی ٹیکنالوجی کے ’’جرم‘‘ میں اس پر عالمی اقتصادی پابندیاں عائد کراکے اسے اقوام عالم میں تنہاء کرنے کی کوشش کی اور اسکے ساتھ معاہدے کرنے والے ممالک کو بھی عالمی اقتصادی پابندیوں سے دوچار کرنے کی دھمکیاں دیکر انہیں ایران سے دور ہٹانے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔
یہ امر واقع ہے کہ زیر زمین قدرت کے خزانوں سے مالامال اس خطے کے تمام ممالک اپنے وسائل اس خطے کی ترقی کیلئے بروئے کار لانے کی ٹھان لیں تو خود ساختہ ترقی یافتہ ممالک کی ساری بلیک میلنگ اور دکانداریاں ختم ہو جائیں۔ ایران اسکی جانب یقیناً پیش رفت کر رہا ہے جس کے ساتھ پاکستان کا گیس پائپ لائن کا معاہدہ بھی اپریشنل ہونے کا منتظر ہے جبکہ چین اور بھارت بھی ایران کے ساتھ اقتصادی‘ تجارتی اور سرمایہ کاری کے معاہدوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ایران نے ایک معاہدے کے تحت اپنی چاہ بہار پورٹ کے انتظامی امور دس سال کیلئے بھارت کے حوالے کئے ہیں مگر امریکہ کی جانب سے اس معاہدے کی بنیاد پر بھارت کو عالمی اقتصادی پابندیوں کی زد میں لانے کی کوئی دھمکی نہیں دی گئی۔ چین بھی مکمل خودمختاری کا مظاہرہ کرکے ایران کے ساتھ بے دھڑک معاہدے کرتا ہے۔ اگر پاکستان بھی اس معاملے میں جرأت کا مظاہرہ کرے تو خطے کے ممالک کے مابین علاقائی تعاون کی بھی مثالی فضا استوار ہو سکتی ہے اور علاقائی و عالمی امن و استحکام کی بھی ضمانت مل سکتی ہے جو اس خطے کی اقتصادی ترقی اور خوشحالی کیلئے ضروری ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں سیاسی استحکام کی فضا بھی کبھی مثالی نہیں رہی جبکہ امریکی سرپرستی میں جاری بھارتی سازشوں کے نتیجہ میں دہشت گردی اور بدامنی نے بھی ہمیں مستقل طور پر اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ نتیجتاً تیل‘ گیس اور قیمتی دھاتوں کی صورت میں ہماری سرزمین پر قدرتی وسائل موجود ہونے کے باوجود یہاں مستقل بنیادوں پر اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری کی فضا سازگار نہیں ہو سکی۔ اس میں یقیناً انتشاری سیاست کا بھی عمل دخل ہے جو گزشتہ ایک دہائی سے ہماری سیاست میں درآئی ہے جس کے تحت پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے والے دشمن کے عزائم پروان چڑھتے ہیں اور ہماری معیشت کی حالت دگرگوں رہتی ہے۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری کی فضا سازگار نہ ہونے کے باعث ہمارے ملک میں غربت اور بے روزگاری کے مسائل بھی گھمبیر سے گھمبیر تر ہو رے ہیں اور بیرون ملک سے تیل گیس حتیٰ کہ گندم اور چینی تک درآمد کرنے کے نتیجہ میں ملک میں مہنگائی کا جن بھی بے قابو ہو چکا ہے جس کے باعث عوام میں اضطراب بڑھ رہا ہے اور وہ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق احتجاج کیلئے سڑکوں پر آنے پر مجبور ہو رہے ہیں جس کے نتیجہ میں گورننس کے بھی سنگین مسائل جنم لے رہے ہیں۔ یہ مسائل آئی ایم ایف کی عائد کردہ شرائط پر عملدرآمد سے مزید گھمبیر ہو جاتے ہیں۔ ملک میں آئے روز مہنگائی کے اٹھتے سونامیوں کا یہی پس منظر ہے جبکہ آئی ایم ایف کے ساتھ مستقل طور پر بندھے ہونے کے باعث اچھے مستقبل کیلئے عوام کو امید کی کوئی کرن بھی نظر نہیں آرہی۔
اس تناظر میں سب سے پہلے ملک کی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے اور آئی ایم ایف کے شکنجے سے مستقل خلاصی پانے کی کوئی عملی اور جامع منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے بصورت دیگر غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود ہمیں اقوام عالم میں سر اٹھا کر چلنے کا راستہ نہیں دکھا پائیں گے۔ ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے منصوبہ ساز آزمائش کے وقت نہ صرف ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں بلکہ عوام کو گیس‘ بجلی کی لوڈشیڈنگ اور آٹا چینی کے بحران کی صورت میں مسائل کے دلدل کی جانب دھکیلنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ ان مسائل کے حل کیلئے وزیراعظم شہبازشریف کی فعالیت اور حکومتی گورننس بھی ناکام بنانے کی کوشش کی جاتی ہے چنانچہ شہباز شریف کی سربراہی میں اتحادی حکومت کیلئے آج حکومتی اتھارٹی تسلیم کرانا اور مختلف مافیاز کی سرکوبی کرنا ہی سب سے بڑا چیلنج ہے۔