بڑھتے جرائم اور ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی کا قیام

شائد ہی کوئی  ذی شعور اس بات سے انکار کر سکے کہ آج کے دور میں سوشل میڈیا زندگی کا ایک لازمی حصہ بن چکا ہے۔ ہر دن، لاکھوں لوگ فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام اور دیگر پلیٹ فارمز پر اپنے خیالات اور تجربات کا اشتراک کرتے ہیں۔ تاہم، اس ڈیجیٹل دنیا کی چمک دمک کے پیچھے ایک تاریک حقیقت بھی چھپی ہوئی ہے اور وہ ہے سوشل میڈیا پر جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح۔مبصرین کے مطابق جرائم کی یہ بڑھتی ہوئی لہر ہماری سوسائٹی کے مختلف پہلوؤں کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ طویل عرصے سے سوشل میڈیا پر ہراسانی، سائبر بلیئنگ، جھوٹی خبروں کا پھیلاؤ، آن لائن دھوکہ دہی اور حتی کہ دہشت گردی کی تشہیر جیسی سرگرمیاں عام ہوتی جا رہی ہیں اور ایسے میں ان جرائم کی روک تھام کیلئے ایک مضبوط اور مؤثر حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے۔ سماجی ماہرین کے مطابق اسی ضمن میں ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی کا قیام اسی حکمت عملی کا ایک مثبت حصہ ہو سکتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ اتھارٹی سوشل میڈیا کے استعمال سے جڑے جرائم کی نگرانی اور روک تھام کیلئے تشکیل دی جائے گی۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے قانونی فریم ورک مضبوطی اور پاکستان کی ڈیجیٹل خودمختاری کے لیے کوششیں ناگزیر ہیں۔ آنلائن پلیٹ فارمز پر خواتین کی فعال شرکت کو یقینی بنانے کے لیے ایک محفوظ آن لائن ماحول انتہائی ضروری ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر صارفین کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔یہ اتھارٹی آن لائن ہراسگی کی بیش بہا اقسام کے مسائل کا ازالہ کر سکتی ہے۔یہ اتھارڑی آن لائن حقوق کے موجودہ قوانین اور ضوابط کو نافذ کر سکتی ہے اور آن لائن سیکورٹی کو بڑھانے کے لیے نئی پالیسیوں کو بھی نافذ کر سکتی ہے اس کے قیام کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں اور اس موضوع پر ایک جامع بحث کی ضرورت ہے۔ سنجیدہ حلقوں نے اس صورتحال پر رائے دیتے ہوئے کہا ہے کہ توقع کی جانی چاہیے کہ تمام حکومتی اور ریاستی حلقے اس ضمن میں سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر اس ضمن میں اپنا فعال کردار ادا کرئیں گے۔اکثرلوگوں کا ماننا ہے کہ ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی کا قیام ناگزیر ہے۔ ان کے نزدیک یہ اتھارٹی سوشل میڈیا کے میدان میں موجود قوانین کے نفاذ کو یقینی بنائے گی اور جرائم کی روک تھام میں مؤثر ثابت ہوگی۔ اس کے ذریعے آن لائن ہراسانی اور دھوکہ دہی جیسے مسائل سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔تاہم دوسری جانب، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس اتھارٹی کا قیام شہری آزادیوں پر حملہ ہوگا۔ ان کے مطابق، حکومت کی طرف سے ایسی اتھارٹی کا قیام آن لائن آزادی اظہار رائے کو محدود کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔ سوشل میڈیا پر کڑی نگرانی کے ذریعے حکومت ممکنہ طور پر مخالفین کی آوازیں دبانے اور اپنی من پسند پالیسیوں کو آگے بڑھانے کی کوشش کرے گی۔آزاد مبصرین کے مطابق اگر ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی قائم کی جاتی ہے تو اس کے مثبت اور منفی دونوں اثرات ہو سکتے ہیں۔ مثبت پہلو یہ ہے کہ اس سے سوشل میڈیا پر جرائم کی شرح کم ہو سکتی ہے۔ اتھارٹی کے ذریعے قوانین کے سخت نفاذ کے باعث لوگوں کو اپنے آن لائن رویے میں محتاط ہونا پڑے گا۔ اس سے آن لائن ہراسانی، جھوٹی خبروں کی پھیلاؤ اور دیگر جرائم کی روک تھام ممکن ہو سکے گی۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ چیلنجز بھی سامنے آئیں گے۔ اتھارٹی کی جانب سے نگرانی کے دوران غلطیوں کا امکان بھی موجود ہے۔ غلط فہمیوں کی بنا پر بے گناہ لوگوں کو بھی سزا دی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، نگرانی کے نام پر شہریوں کی پرائیویسی میں مداخلت بھی ایک بڑا مسئلہ ہو سکتی ہے۔ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی کے قیام کے حوالے سے ہمیں ایک متوازن حل کی تلاش کرنی ہوگی۔ ایسے قوانین اور ضوابط تشکیل دینے کی ضرورت ہے جو جرائم کی روک تھام میں مؤثر ثابت ہوں اور ساتھ ہی شہری آزادیوں کو بھی محفوظ رکھیں۔ سوشل میڈیا کمپنیوں کو بھی اس حوالے سے اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہوگی اور وہ اپنے پلیٹ فارمز پر ایسے آلات اور نظام متعارف کرائیں جو جرائم کی روک تھام میں مددگار ثابت ہوں۔ماہرین کے بقول ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی کا قیام اگرچہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ ایک طرف، اس اتھارٹی کے ذریعے سوشل میڈیا پر جرائم کی روک تھام ممکن ہے، جبکہ دوسری طرف، شہری آزادیوں پر ممکنہ اثرات بھی ایک اہم پہلو ہیں۔ اس مسئلے کا حل نکالنے کیلئے ہمیں ایک متوازن حکمت عملی کی ضرورت ہے جو جرائم کی روک تھام اور آزادی اظہار رائے دونوں کو محفوظ رکھ سکے۔ یہ ایک چیلنجنگ لیکن ضروری قدم ہوگا تاکہ ہم ڈیجیٹل دور میں محفوظ اور آزادانہ ماحول فراہم کر سکیں۔اس تما م پس منظر کا جائزہ لیں تو غالبا تو یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ گزشتہ کچھ عرصے میں ایک خاص طبقے نے وطن عزیز کے اندر پاک مخالف جذبات کو دانستہ طور پر پروان چڑھایا ہے ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ساری صورتحال کو موثر ڈھنگ سے ڈیل کیا جائے تاکہ آزادی اظہار کے نام پر معاشرہ سیاسی اور معاشی انتشار کا شکار ہونے سے بچا رہے۔

ای پیپر دی نیشن