کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ جس ملک میں ہم رہ رہے ہیں وہاں پر غریب اور امیر کا فرق تقریبا زندگی کے ہر پلیٹ فارم پر الگ الگ ہے کہیں بھی قانون کا معیار ایک جیسا نہیں ہے جس کی وجہ سے بے بس غریب کی کوئی نہیں سنتا امیر جو کہ با اثر ہے کے ہاتھ اس قدر لمبے ہیں کہ اگر اسے اس کے معیار کے مطابق پروٹوکول نہیں ملتا تو یہ زبردستی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور جب تک اپنی منشا کے مطابق اپنے کام کو کروا نہیں لیتا اس وقت تک یہ چین سے نہیں بیٹھتا اور دوسری طرف بیچارہ غریب اس جنگل کے قانون کی چکی میں ہر طرف سے ہر لحاظ سے خوب پس رہا ہے اب اس غریب کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اب اسے پتہ چل چکا ہے کہ جب بھی کوئی چکی چلتی ہے وہ مہنگائی کی ہو ، بے انصافی کی ہو یا پھر ظلم و ستم کی ہو اس چکی کے دونوں پاٹوں میں آخر کار پسنا صرف غریب کا ہی مقدر ہے جو روز کا معمول بن چکا ہے اگر دیکھا جائے اور غور کیا جائے تو جس چکی میں ہر روز یہ غریب پیس رہا ہے اس چکی کو چلانے والا بھی امیر مافیا ہے جس نے غریبوں کا جینا مشکل کر رکھا ہے۔
صوبائی دارالحکومت لاہور میں قانون کے پاسدار سرے عام قانون کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ جو پولیس کی وردی میں اپنے آپ کو محافظ کہتے ہیں ایسے پولیس اہل کار سارا دن بغیر نمبر پلیٹ اور بغیر ہیلمٹ کے موٹر سائیکلوں پر سوار گھومتے رہتے ہیں ، مگر انہیں پوچھے کون۔۔؟ اگر کوئی میڈیا والا انہیں پوچھ لیتا ہے تو یہ ان سے بدتمیزی کرتے ہیں جبکہ ان کی یہ ویڈیوز بھی اکثر ٹی وی پر دکھائی جاتی ہیں باوجود اس کے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور صاحب کوئی نوٹس نہیں لیتے اس کی کیا وجہ ہے کہ ایسے پولیس جوانوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتے بہرحال اس کا جواب صحیح تو آئی جی صاحب خود ہی دے سکتے ہیں لاہور شہر میں اس وقت تقریبا سینکڑوں پولیس اہلکار بغیر نمبر پلیٹ اور ہیلمٹ کے بغیر بڑی دیدہ دلیری سے بلا خوف و خطر گھومتے ہیں جنہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اور دوسری طرف غریبوں کو بغیر ہیلمٹ کے دو ہزار روپے کا چالان کیا جاتا ہے جس کی ایک نمبر پلیٹ کا کچھ حصہ اگر خراب ہے تو اس کا بھی چالان کر دیا جاتا ہے جبکہ پولیس اہلکار کے پاس دونوں نمبر پلیٹ نہیں ہوتی میں پوچھتا ہوں کہ ان اہلکاروں کے پاس یہ گاڑیاں کہاں سے آتی ہیں کیا ان پولیس والوں کے پاس لائسنس ہے۔؟ کیا ایسے حالات میں یہ ہمارے محافظ ہو سکتے ہیں.؟ اس معاشرے کے اندر تقریبا جتنا بگاڑ اب تک پیدا ہو چکا ہے اس نقصان کے ذمہ داران ایسے پولیس جوان ہیں اگر ان کو درست کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ان بگڑے ہوئے پولیس جوانوں کو ٹھیک کیا جائے ان کا قبلہ درست کیا جائے جنہوں نے شرفاء کا جینا بھی حرام کر رکھا ہے نمبر پلیٹ اور بغیر ہیلمٹ کے بغیر لائسنس کے سفر کرنے والے پولیس اہلکاروں کا صرف چالان سے کام نہیں چلے گا ان کی ایف آئی آر دی جائے اور ان کے پاس یہ موٹر سائیکلیں کہاں سے آئی اس کی تحقیقات کروائی جائے تاکہ ان کو پتہ چلے کہ قانون کی دھجیاں کیسے بکھیری جاتی ہیں اور کوئی دوسرا پولیس اہلکار اس کی جرات نہ کرے پھر دیکھنا یہ نظام دنوں میں کیسے ٹھیک ہوتا ہے۔
اور دوسری طرف سی ٹی او لاہور عمارہ اطہر کا کہنا ہے کہ بغیر ہیلمٹ موٹر سائیکل سواروں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے اب تک بیچارے غریبوں کے خلاف جن کا کوئی والی وارث نہیں ہے ان کو رواں سال کے دوران ایک لاکھ 80 ہزار سے زائد موٹر سائیکل سواروں کے خلاف کارروائی کی گئی افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کارروائی میں ایک بھی پولیس اہلکار نہیں ہے جس کا چالان ہوا ہو یا اس کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج ہوئی ہو اور ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ 95 فیصد شہریوں کا ہیلمٹ پہننا خوش آئندہ مزید سختی کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ سختی پولیس اہلکاروں کے لیے بھی بنتی ہے ان پر بھی کی جائے تاکہ لوگوں پر آپ کا اچھا اثر پڑے افسران پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہیلمٹ کی پاسداری میں انہی کا فائدہ ہے اب یہاں پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ جو پولیس اہلکار بغیر نمبر پلیٹ اور بغیر ہیلمٹ کے سفر کر رہے ہیں کیا وہ انسان نہیں ہے افسران ان کا فائدہ نہیں سوچ رہے صرف غریبوں کا فائدہ سوچا جا رہا ہے یہ کیسا انصاف ہے۔؟ اس بات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ غریب اور امیر کا قانون الگ الگ ہے اب تو یہ ان افسران نے خود ہی ثابت کر دیا ہے۔ پولیس افسران کے غلط فیصلوں اور ان محافظوں کے خلاف نوٹس نہ لینے کی وجہ سے پورے ملک میں حالات ہر روز مزید خراب ہوتے جا رہے ہیں آئے دن عوام کے ہاتھوں پولیس کی مختلف شہروں میں پٹائی ہو رہی ہے آئی جی صاحب اب وقت آگیا ہے کہ پولیس کے بگڑے ہوئے قبلہ کو درست کر لیں ورنہ عوام اس کو درست کرنا جانتی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام محافظ بن جائیں اور یہ قانون کے محافظ صرف نام کے محافظ رہ جائیں اب تو شہریوں نے ٹریفک وارڈن کی بھی پٹائیاں شروع کر دیں ہیں جن کی ویڈیوز منظر عام پر آگئی ہیں جس میں عوام ایک وارڈن کی پٹائی کر رہی ہے اور اس وارڈن کو بھاگنے کے لیے راستہ نہیں مل رہا عوام زوردار آوازوں میں کہہ رہی ہے اسے بھاگنے نہ دیا جائے پکڑ لو اس کو چھوڑنا نہیں یہ ساری خرابی محکمہ پولیس کے بگڑے ہوئے قبلہ کی وجہ سے ہے لہذا اب وقت کا تقاضہ ہے کہ اس کے قبلہ کو درست کیا جائے۔