کامیاب عورت کو طلاق دو

کامیاب عورت ازواجی زندگی میں ناکام کیوں ہوتی ہے۔ یا معاشی طور پر مستحکم عورت طلاق کا سامنا کیوں کرتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں اکثر لوگوں کے پاس تہمت کے علاوہ کوئی جواب نہیں ہوتا ہے۔ یہ بہت آسان اور گھٹیا حل ہے۔ جب کہ حقائق اس سے بہت مختلف ہیں۔ 
کامیاب اور معاشی طور پر مستحکم عورت کی اپنی رائے ہوتی ہے۔ وہ کسی ناجائز بات پر سر تسلیم خم نہیں کرتی۔ وہ اپنے حقوق سے آشنا ہوتی ہے۔ وہ اپنا دفاع کرنا جانتی ہے۔ اسے معلوم ہے کہ جس شخص کے ساتھ وہ رہ رہی ہے اگر وہ اسے عزت ، محبت اور تحفظ دیتا ہے تو وہ اس کے ساتھ چلے گی۔ اگر وہ اسے عزت نہیں دیتا اور دیگر رشتوں کی بری باتوں سے اور غلط رویوں سے اپنی بیوی کو نہیں بچاتا  تو خوامخواہ کڑھنے اور پریشانی میں مبتلا رہنے کی بجائے وہ اپنے لیے اچھا فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ اس لیے کہ وہ مالی طور پر مجبور نہیں۔ کتنی عورتیں ہیں جو شوہر کا ظلم و تشدد صرف اس لیے برداشت کرتی ہیں کہ اسے چھوڑ کر کہاں جائیں گی۔ صرف ایک چھت اور دو وقت کی روٹی کی خاطر وہ ساری عمر تذلیل برداشت کرتی ہیں۔ وہ اپنے حقوق سے نا آشنا ہوتی ہیں۔ اور اسے قسمت کا لکھا قبول کر لیتی ہیں۔ کامیاب عورت مرد کیناجائز تسلط کو برداشت نہیں کرتی۔ اس لیے مرد کامیاب اور مستحکم عورت سے ڈرتا ہے۔ اسے اس کے سامنے اپنا آپ چھوٹا لگتا ہے۔ حالانکہ ایک عورت کے معاشی طور پر مستحکم ہونے سے مرد کیسے چھوٹا پڑ سکتا ہے۔
اکثر مرد جب بیوی نوکری کرتی ہے اور اچھا کمانے لگتی ہے تو نوکری چھوڑ دیتے ہیں۔  یا اپنی بیوی پر شک کرنے لگتے ہیں۔ اکثر قریبی رشتہ داروں کی باتوں میں آکر بیوی سے جھگڑنے لگتے ہیں۔ وہ بیوی کے ساتھ کمپرومائز نہیں کرتے۔ 
اگر ایک عورت ملازمت کرتی ہے تو اس سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ گھر بھی سنبھالے۔  اور کسی قسم کی کمی کوتاہی پر درگزر نہیں کیا جاتا۔ سب کو کپڑے دھلے چاہیں۔ کھانا وقت پر چاہیے۔ بچوں کی ذمہ داریاں بھی وہ نبھائے اور نوکری بھی کرے۔اور عورتیں ایسا کرتی بھی ہیں۔  عورت کو اپنی شناخت کے لیے اور اپنی صلاحیتوں کو منوانے کے لیے آگ کے دریا کو پار کرنا ہوتا ہے۔ اور نتیجتاً مسائل بڑھتے بڑھتے بات طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔ اور ایسا دوسرے فریقین کی طرف سے کمپرومائز نہ کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ 
دوسری طرف بہت سی خواتین جب نوکری کرنے لگتی ہیں اور ان کے ہاتھ میں پیسہ آتا ہے تو وہ شوہر کو اور اس کے عزیزواقارب کو عزت نہیں دیتی ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ اب انھیں ضروریات کی محتاجی نہیں تو شوہر کی بھی ضرورت نہیں۔ وہ ہر بات میں اپنی دولت اور نوکری کی دھونس جماتی ہیں۔ ایسی خواتین بھی جلد ہی شوہر سے الگ ہو جاتی ہیں۔  اور بہت سی خواتین جو نوکری کرتی ہیں۔ معاشی طور پر مستحکم ہیں۔ وہ بہت اچھی ازواجی زندگی بھی گزار رہی ہیں۔ اس میں دونوں میاں بیوی کا کردار بہت اہم ہے۔ وہ باہمی جذبات کا احترام کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھی بنتے ہیں دشمن نہیں۔ جو اپنے لیے چاہتے ہیں وہی دوسرے کے لیے۔  اپر والی دونوں صورتیں جاہلانہ رویوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس لیے طلاق بھی ہوتی ہے۔ جب کہ باشعور اور سلجھے ہوئے مردوں کو معاشی طور پر مستحکم عورت سے کوئی خطرہ نہیں۔ اور دوسری طرف ایسی عورتیں جو اپنے مالی طور پر مستحکم ہونے کا رعب جماتی ہیں۔ ان سے مرد بھی دب کر نہیں رہنا چاہتا۔ اور ایک دوسرے کو دبا کر رکھنے کی سوچ انتہائی سطحی سوچ ہے۔ 
ایک دوسرے کے ساتھ قدم سے قدم ملا کرنا چلنا ہی اچھی اور مثبت سوچ ہے۔ اور ایسی مثبت سوچ رکھنے والے، ایک دوسرے کے مسائل سمجھنے والے۔ ایک دوسرے کو سپیس دینے والے جوڑے۔ بھلے نوکری کریں نہ کریں۔ معاشی طور پر مستحکم ہوں نا ہوں۔ ان کے درمیان طلاق کبھی نہیں ہوتی۔  دیکھا جائے تو طلاق کی شرح بہت زیادہ ہے۔ جس میں معاشی طور پر مستحکم عورتوں کی طلاق کی شرح آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ لیکن اس پہلو کو صرف اور صرف اس لیے اجاگر کیا جاتا ہے کہ عورت کے معاشی طور پر مستحکم ہونے کے معاملہ کو غلط رنگ دیا جائے۔ جب کہ معاشی طور پر مستحکم اور مضبوط عورت اس وقت ہمارے معاشرے کی اہم ضرورت ہے۔

ای پیپر دی نیشن