جاپانی طرز کا تدریسی نظام لانے کی  اشد ضرورت

یہ سچ ہے بچے کیلئے پہلی تربیت گاہ ماں کی آغوش اور پہلی منزل سکول ہوتی ہے مگر اب آغوش تربیت گاہ نہیں رہیں۔ ماں کے پاس بچے کی پرورش کرنے کا وقت نہیں دلچسپی نہیں اور سکول اب انڈسٹری کی شکل اختیار کر چکے ہیں جس کا نتیجہ اب ہمارے سامنے ہے۔ یہاں اور فارن میں بھی گل کھلا رہے ہیں۔ امریکہ میں ایک ایسی ہی فیملی بچوں کے ساتھ شفٹ ہے، وہاں بچوں کو بتایا جارہا  ہے کہ اگر کوئی پوچھنے آئے کہ اس گھر میں کون کون رہتا ہے تو انہیں بتانا کہ ہم اپنی ماں کے ساتھ اور ماں اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ یہی رہ رہی ہے۔یہ بوائے  فرنیڈ ان بچوں کا باپ  ہے مگر پیسے کی خاطر کاغذوں میں میاں بیوی کی طلاق ہوچکی  ہے۔ جس کی وجہ سے  بچوں اور ماں کو سرکاری فنڈ سے رقم ملتی ہے۔ یہ چند ٹکوں کی خاطر بچوں کو جھوٹ بولنا سکھا رہے ہیں۔ گناہ کی زندگی بسر کر کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لئے یہ کررہے ہیں کہ ان کی اپنی تربیت بچپن میں نہیں ہوئی ہوتی۔ بلکہ ان میں اچھائی برائی کی تمیز ختم ہو چکی  ہے۔ ان حالات سے بچنے کا وہ قومیں سوچتی ہیں جنھوں نے اپنے لوگوں کو اچھا شہری بنانا ہوتا ہے۔ ایسے ممالک میں جاپان سر فہرست ہے۔ جاپان میں پہلی سے پانچویں کلاس تک روز خصوصی پیرڈ ہوتا ہے جس میں بچے کو اخلاق اور دوسروں سے پیش آنے کا طریقہ بتایا جاتا ہے۔۔ پہلی کلاس سے آٹھویں تک کسی بچے کو فیل نہیں کیا جاتا۔ اس لیے کہ اس عمر میں تعلیم کا مقصد تربیت، معنی مفہوم سکھاتا اور تعمیر شخصیت ہوتا ہے۔ جاپان امیر ترین اقوام میں شامل ہیں۔ ان کے گھر میں کوئی خادم اور آیا نہیں ہوتی۔ باپ اور ماں اس گھر کی دیکھ بھال اور اولاد کی تربیت و تعلیم کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ جاپانی بچے اسکول میں روزآنہ اپنے اساتذہ کے ساتھ پندرہ منٹ تک اپنا مدرسہ صاف کرتے ہیں۔ سکول میں اساتذہ بچوں کا پہلے کھانا کھا کر چیک کرتے ہیں کہ لنچ ٹھیک ہے ؟  پھر بچوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔ کھانے کے بعد بچے ٹوتھ برش کرتے ہیں اس لیے کہ اساتذہ بچوں کو قوم کا مستقبل سمجھتے ہیں۔  بچوں کی صحت کی حفاظت ہمیشہ مقدم سمجھتے ہیں۔ ہر بچہ اپنی پسند کا کھیل روز سکول میں کھیلتا ہے۔ بچے کو سچ بولنا تمیز سے بات کرنا سکھاتے ہیں۔ روڈ کراس کرنا سکھاتے ہیں۔ ریل گاڑی،ٹیکسی بند کمروں ریسٹورنٹ میں سگریٹ پینا اور موبائل کا استعمال بلکل منع ہے۔خلاف فرضی کرنے والوں کو جیل میں ڈالا جاتا ہے۔کوئی چوری نہیں کرتا، کوئی قتل نہیں کرتا۔ سب قانون کا احترام کرتے ہیں یہ وہ چیزیں ہے جس سے جاپان دنیا میں سب سے آگے ہے۔ہمارے بارے یہ ایک  غیر ملکی جوڑے کی کھری باتیں  کی ہیں  جس نے  زندگی کے پچاس سال پاکستان میں گزارے۔ کہا جاتا ہے اسٹیوارٹ کا انتقال 103 سال کی عمر میں کیلیفورنیا میں ہوا' یہ اور ان کی بیگم دونوں پچاس سال راولپنڈی کالج میں پڑھاتے رہے۔ پروفیسر اسٹیوارٹ نے 1960میں اپنی الوداعی تقریر میں سچی کھری باتیں سنائی  ' اس کا کہنا تھا ''پاکستانی ایک ناکارہ اور مفلوج قوم ہے'' اس کا کہنا تھا '' اس قوم کو پہلے اس کی مائیں نکما بناتی ہیں' یہ اپنے بچوں کا ہر کام خود کرتی ہیں' ان کے کپڑے دھوتی ہیں' استری کرتی ہیں' بچوں کو جوتے پالش کر کے دیتی ہیں' لنچ باکس تیار کر کے بچوں کے بستوں میں رکھتی ہیں اور واپسی پر باکسز کو نکال کر دھو کر خشک بھی خود کرتی ہیں۔بچوں کی کتابیں اور بستے بھی مائیں صاف کرتی ہیں اور ان کے بستر بھی خود لگاتی ہیں چناں چہ بچے ناکارہ اور سست ہو جاتے ہیں اور یہ پانی کے گلاس کے لیے بھی اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو آواز دے کر لانے کو کہتے ہیں یا ماں کو اونچی آواز میں پانی دینے کو کہتے ہیں پاکستانی بچے اس کلچر کے ساتھ جوان ہوتے ہیں' اس کے بعد ان کی بیویاں آ جاتی ہیں' یہ انھیں اپنا مجازی خدا سمجھتی ہیں اور غلاموں کی طرح ان کی خدمت کرتی ہیں' یہ بھی ان کا کھانا بناتی ہیں' کپڑے دھو کر استری کرتی ہیں۔ان کے واش رومز تک صاف کرتی ہیں' ان کے بستر لگاتی ہیں اور پھر ان کی نفرت' حقارت اور غصہ بھی برداشت کرتی ہیں چناں چہ میں اگر یہ کہوں پاکستانیوں کی مائیں بچوں کی نرسیں' بیویاں ملازمین اور چھوٹے بہن بھائی غلام ہوتے ہیں تو یہ غلط نہیں ہو گا لہٰذا سوال یہ ہے جو لوگ اس ماحول میں پل بڑھ کر جوان ہوتے ہیں کیا وہ ناکارہ اور مفلوج نہیں ہوں گے؟'' پروفیسر اسٹیوارٹ کا کہنا تھا ''اگر تم لوگوں نے واقعی قوم بننا ہے تو پھر تمہیں اپنے بچوں کو شروع دن سے اپنا کام خود کرنے اور دوسروں بالخصوص والدین کی مدد کی عادت ڈالنا ہو گی تاکہ یہ بچے جوانی تک پہنچ کر خود مختار بھی ہو سکیں اور ذمے دار بھی' تم خود فیصلہ کرو جو بچہ خود اٹھ کر پانی کا گلاس نہیں لے سکتا وہ کل قوم کی ذمے داری کیسے اٹھائے گا۔اسٹیورٹ کی ان باتوں کے بعد کیا ضروری نہیں رہا کہ اب یہاں جاپانی طرز کا تدریسی نظام لایا جائے۔ اپنے اندر موجود خامیوں کو دور کرنا ضروری ہے جن کی نشان دہی پروفیسر صاحب کر چکے ہیں۔اگر اب بھی قبلہ درست نہ کیا تو  شرمندگی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ دو نمبر کاموں کے کرنے پر امریکہ جیسے ملک میں ہمارے ڈاکٹر جیلوں میں ہیں۔ اگر یہی حالت رہی تو لگتا یہی ہے فارن ممالک چن چن کر انہیں  ملک بدر کر دیں گے۔ داخلے پر پابندی لگا دیں گے۔ یہاں کے نوجوان ڈکیتیاں ، قتل کی وارداتوں میں ملوث  ہیں۔ خودکشیاں کر رہے ہیں۔ پڑھے لکھے شارٹ کٹ کی تلاش میں ہیں۔ لڑائی جھگڑے میں دیر نہیں کرتے۔ جھوٹ بولنا الزامات لگانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہ سب اس لیے کہ ان کی کسی نے تربیت نہیں کی۔ لہزا جاپان طرز کے سکول کھولنے اہم ضرورت ہے۔

ای پیپر دی نیشن