سب پانی دا بلبلا!!

May 19, 2024

سید محمد طیب ایڈووکیٹ

   چند روزہ زندگی کی حقیقت و اصلیت کو جانتے بُوجھتے ہوئے بھی لاعلم اور ناسمجھ بن کر اس کے پیچھے اندھا دُھند بھاگنے کا عمل حضرت ِانسان اَزل سے ہی کرتا چلا آ رہا ہے اس کو بارہا اور قدم بہ قدم بتایا اور سمجھایا گیا ہے کہ اے نادان !  یہ دُنیا اور زندگی محض چند دنوں کا کھیل تماشہ ہے اِسکی صبح شام کے ساتھ جُڑی ہوئی ہے اسکا آغاز اختتام کے ساتھ ہی نتھی ہے اور اسکی ابتدا انتہاء کے ساتھ ہی کھڑی ہے انسان اِس دُنیا کی اصلیت کو دیکھتا بھی ہے ، جانتا بھی ہے، سمجھتا بھی ہے اور تردید  یا انکار بھی نہیں کر سکتا مگر پھر بھی نہ جانے کیوں نا سمجھی اورنَادانی کا مظاہرہ کرتا ہے،  اِس دُنیا کی مثال اِس طرح ہے کہ جیسے کوئی مسافر کسی بس سٹاپ پر کھڑا اپنی گاڑی کا انتظار کرتا ہے تھوڑی ہی دیر میں اسکی گاڑی آ جاتی ہے اور وہ اپنی منزل کی جانب روانہ ہو جاتا ہے، کوئی بھی مسافر بس سٹاپ پر تھوڑی دیر کے انتظار کی گھڑیوں کیلئے لمبا چوڑا سامان ساتھ لے کر نہیں جاتاکیونکہ اِسکو پتہ ہوتا ہے کہ اُس نے سٹاپ پر کونسا قیام کرنا ہے بلکہ اُس نے تو صرف اپنی گاڑی کامحض انتظار ہی کرنا ہے اور اگر کوئی بس سٹاپ پر اپنے گھر سے ڈھیر سارا  سامان لا کر سجا کر بیٹھ جائے تو لوگ اُسے دیوانہ،ناسمجھ اور مجنون کہیں گے اور کوئی نہ کوئی اسکو پُوچھ بھی لے گا کہ ارے بھائی صاحب آپ بس سٹاپ پر گاڑی کا انتظار کرنے آئے ہیں یا آپ نے یہاں رات رہنی ہے،  بس بالکل یہی مثال اِس دُنیا کے شب و روز کی ہے جس سے لوگ نا سمجھی میں نہ جانے کیوں دل لگا کر بیٹھ گئے ہیں وہ یہ سمجھ چلے ہیں کہ شاید اُنہوں نے یہاں سدا رہنا ہے ،یہ پکے اور بلندوبالا مکانات ،بڑی بڑی عمارتیں، لمبی چوڑی گاڑیاں ، وسیع و عریض محلات ، کارخانے ، فیکٹریاں ، جائیدادیں، مال و اسباب اور نہ جانے کیا کچھ انسان نے جمع کرکے اپنے سینے سے لگا رکھا ہے اور اگر اس کا رہن سہن اور طور طریقے دیکھیں تو انواع و اقسام کے کھانے اورہر طرح کی راحت و آسائش کا سامان ، گھروں کے رنگ برنگے اور جدید ڈیزائن ، روشنیوں کیلئے دیدہ زیب قمقمے ، اعلیٰ کوالٹی کا ماربل ، نفیس قسم کی ٹائلیں ، قیمتی لکڑی کے دروازے ، بیش قیمتی باتھ روم کا سامان ، باغ باغیچے ، قیمتی پودے ، صوفے ، بیڈ اور نہ جانے کیا کچھ ایک چھت تلے حضرت انسان نے اکٹھا کر رکھا ہے یا وہ اِسی تگ و دُ و میں ہی لگا رہتا ہے، اِن مَادی اور عارضی چیزوں کے حصول کی دوڑ میں وہ رشتے ، ناطے ، اصُول ، ادب آداب، اخلاقیات اور حلال و حرام سب کچھ بھُول جاتا ہے اور ان چیزوں کے حصول کیلئے دن رات ایک کر دیتا ہے اِس عمل کے دوران نہ تو اسے کچھ سنائی دیتا ہے اور نہ ہی دکھائی دیتا ہے بس نفسا نفسی کے اِس کھیل میں وہ اپنی زندگی ہی پوری کر دیتا ہے اِس دُنیا میں کون ہے کہ جو ’’ٹِک‘‘ سکا  اور کون ہے کہ جو یہاں صدا بیٹھ سکا،  بس پچاس ، ساٹھ ، ستر ، اَسی سال اور آخر کاربس کُوچ ہی کرنا ہے، قدرت گاہے بگاہے ، وقتاً فوقتاً انسان کو اس دنیا کی حقیقت یاد دلانے کیلئے اشارے کنائے میں کچھ نہ کچھ بتلاتی رہتی ہے مگر تھوڑے ہی ہیں کہ جو سمجھ پاتے ہیں،  اَرے اے انسان ذرا آنکھیںکھول کر تو دیکھ کہ ماضی کے بڑے بڑے عالی شان محلات اب کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے ہیں،  بڑی بڑی عمارتوں کے مالک و مکین دُنیا سے رُخصت ہو چکے ہیں ، بڑے بڑے قلعے اور محلات اگر آج موجود ہیں بھی تو ان کے والی وارثوں کا نام و نشان مِٹ چکا ہے یہ وہ جائیداد اور روپیہ پیسہ ہے کہ جس کے پیچھے انسان بھاگتا رہتا ہے اور اپنی ساری زندگی روپے پیسے کے حصول کی کوشش میں ہی بسر کردیتا ہے، ساری زندگی کی پلاننگ ، حصولِ تعلیم کا مقصد، رشتوں ناطوں کو جوڑنے اور توڑنے کی وجوہات ،  دیگر ممالک کے سفر اور نقل مکانیاں سبھی کچھ کے پیچھے ایک ہی جذبہ کا ر فرما ہے کہ کسی نہ کسی طرح زیادہ سے زیادہ مال و دولت اکٹھا کیا جائے، بچوں کی خاطر جائیداد بنانے کا بیانیہ بھی بذات خو د ایک دھوکے کے سواء کچھ نہیں ہوتا، بچے بھی ایک وقت پر جائیداد کو تقسیم ہی کردیتے ہیں اگر دیکھا جائے تو اس جائیداد اور مال و دولت نے انسان کو ایک بھیانک اور خوفناک نظام میں جکڑ رکھا ہے یہ مال و دولت بے وفا ہے یہ کسی کا ساتھ نہیں دیتی،  کسی کے کام نہیں آتی،  اس نے انسان کی آنکھوں پر بھاری پردہ ڈال رکھا ہے یہ مال و متاع انسان سے تِگنی کا ناچ نچوا تا ہے،  یہ رشتے ناطے ختم کرادیتا ہے یہ روپیہ پیسہ ہوس، لالچ اور طمع کو پروان چڑھاتا ہے،  ہر وقت میرا مال ، میری جائیداد اور میری دولت کے راگ الاپنے والے انسان تو ذرادیکھ تو سہی کہ اس مال و دولت نے کبھی کسی کا ساتھ ہمیشہ نہیں دیا،  اے انسان تُوکیوں نہیں سمجھ رہاکہ تیری دولت، عزت، شہرت، منصب ، عہدہ ،طاقت اور جاہ و جلال کچھ بھی تیرے ساتھ نہیں جائے گا ،  یہ تو چند روزہ زندگی کا دھوکے کا سامان ہے،  جس مال و دولت کے پیچھے تو بھاگ رہا ہے وہ کبھی تیرے نہ تو ہاتھ آئے گی اور نہ ہی کام نہیں آئے گی، اس طمعِ مال نے گھروں کے گھر اُجاڑ رکھے ہیں اور سکون غارت کر رکھا ہے، مال و دولت کی حوس نے نہ صرف ذہنی سکون تباہ و برباد کر دیا ہے بلکہ بے شمار سماجی ، معاشرتی اور معاشی برائیوں کو بھی جنم دے رکھا ہے،  اے انسان حقیقت تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ یہیں رہ جائے گا،  بس صرف تیرے اعمال ہی تیرے ساتھ جائیں گے،اُ س کی فکر کر جس کا تُجھ سے حساب ہونا ہے ، حقیقتِ دنیا کے بارے میں  بُلھے شاہ نے کیا خوب کہا ہے
نہ کر بندیا  میری میری  
   نہ میری  نہ تیری
    چار دِناں  د ا  میلہ       
  دنیافیر مٹی دی ڈھیری
 

مزیدخبریں