غزہ پر میلی آنکھ۔۔۔۔

اتنا ظلم کہ خدا کی خدائی بھی کانپ اٹھی۔ بچے، بوڑھے اور خواتین بھی زیرعتاب آ گئے۔ ہر طرف بموں کی بارش نے انسانیت پر عرصہ حیات تنگ کر دیا مگر انسانی حقوق اور عالمی امن کے تمام ٹھیکیدار خاموش ہیں۔ میڈیا بھی وہ کردار ادا نہیں کر رہا جو مسلمان میڈیا کو کرنا چاہیے۔ اس قدر بے حسی ہے کہ ہرطرف خاموشی نے آج کے فرعون کو اپنی فرعونیت کا مظاہرہ کرنے میں آزاد کر دیا۔ غزہ پٹی میں اب تک اسرائیلی جارحیت جاری ہے۔ فضائی حملوں کے دوران 40 سے زائد افراد جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ہر طرف ایک شہید کی میت اٹھ رہی ہے اور اقوام متحدہ تو خاموش ہے ہی امریکہ نے بھی اسرائیل کو اپنے مکمل تعاون کا یقین دلا دیا ہے۔ امریکی صدر باراک اوبامہ جو کہتے نہیں تھکتے کہ دنیا میں دہشت گردی کا خاتمہ ان کی اولین ترجیح ہے وہ دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں۔ فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کوئی نئی بات نہیں۔ فلسطینیوں پر اسرائیلی ظلم و ستم کا ہی نتیجہ ہے کہ حماس معرض وجود میں آئی اور اگر آج حماس نہ ہوتی تو اسرائیلی جارحیت کے کیا خوفناک رنگ روپ ہوتے اس کا اندازہ بھی نہیںلگایا جا سکتا۔ غزہ کی پٹی میں اسرائیل کو کیا جواز حاصل ہے کہ وہ بے گناہوں پر بمباری کرے۔ بے گناہ اور نہتے شہریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جائیں اور پھر بچوں خواتین اور بوڑھوں تک کی تمیز نہ کی جائے۔ کیا اقوام متحدہ اس پر اپنی خاموشی توڑنے کی جرات نہیں کر سکتا اور اگر ایسا ہے توپھر تمام اسلامی ممالک کس خوش فہمی میں اور وہ اقوام متحدہ کے مصنوعی جال سے باہر کیوں نہیں نکلتے۔ اقوام متحدہ سے پہلے دوسری جنگ عظیم میں اقوام عالم ایسی ہی حرکات وسکنات کی بناءپرناکام ہوا اور پوری دنیا میں جنگ چھڑ گئی۔ عالمی امن تباہ ہو گیا۔ امریکہ یہودی صیہونی لابی کے اشاروںپر عراق میں موجود ہے۔ افغانستان کی طالبان حکومت کا تختہ الٹ کر افغانستان میں جنگ کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے اور غزہ میں اسرائیل کی حمایت کر رہا ہے۔ کیا یہ سب مسلمانوں کے خلاف وہ جنگ نہیں جس کا اشارہ سابق امریکی صدر جارج بش نے ایک مرتبہ جوش خطابت کے دوران کہہ دیا تھا کہ ہم صلیبی جنگ لڑنے جا رہے ہیں۔ جارج بش اول نے بھی دنیا کا امن تہہ و بالا کیا تھا اور صلیبی جنگ کے نام پر ان کی شہرت انسانیت کے لئے شرم کا باعث ہے۔ آج وہ امریکہ جس کی معیشت دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کی آڑ میں تباہ ہوتی چلی جا رہی ہے اور اس امریکہ کا کوئی اپنا سٹیٹ بینک نہیں اسے یہودی صیہونی لابی چلاتی ہے اس امریکہ نے اپنے آپ کو دنیا کا ٹھیکیدار بنانے کے لئے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے وہ پہاڑ توڑ رکھے ہیں کہ ہر طرف سے مسلمان آہ و فغاں میں مصروف ہیں مگر افسوس اسلامی ممالک کے حکمران بیدار ہونے کو تیار نہیں۔ آج اسرائیل جب غزہ پٹی پر اپنی بدترین جارحیت کا ایک مرتبہ پھر مظاہرہ کر رہا ہے اور اسرائیلی وزیراعظم نے تمام جمہوری تقاضوں کو پس پشت ڈال کر دھمکی دی ہے کہ وہ غزہ میں خوف پیدا کر دیں گے تو امریکی صدر باراک اوبامہ اسرائیل کی مکمل حمایت کا اعلان کر رہے ہیں۔ اسرائیل غزہ میں ڈرون طیاروںکو بھی استعمال کر رہا ہے۔ کیا یہ اقوام متحدہ کے قوانین کی صریحاً خلاف ورزی نہیں اور جن مہلک ہتھیاروں کو اسرائیل استعمال کر رہا ہے اس پر اقوام متحدہ اور اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے جیسے سلامتی کونسل اور سلامتی کونسل کے مستقل اراکین حرکت میں کیوں نہیں آتے۔ ان کو اسرائیل کے ساتھ کون سی ایسی ہمدردی ہے۔ امریکہ بھی سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے اور چاہتا ہے کہ چین کے مقابلے میں بھارت کو بھی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت دلوا دی جائے اور ظاہری سی بات ہے جو ملک سلامتی کونسل کا رکن ہو گا اسے ویٹو پاور بھی حاصل ہو جائے گی۔ چین نے ماضی قریب میں کئی مرتبہ ہمارا مقبوضہ کشمیرکے مسئلے پر امریکہ کی طرف سے بھارت کی حمایت پر اپنی ویٹوپاور استعمال کر کے ساتھ دیا ہے۔ ان دنوں مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی فوج کی جارحیت ایک مرتبہ پھر اپنے نکتہ عروج پر ہے۔ ہماری وزیرخارجہ حنا ربانی کھر نے بھی کہہ دیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر بھارتی مظالم اب بھی جاری ہیں۔ لہٰذا یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ امریکہ اور اسرائیل پوری دنیا میں ہر اس ملک کی حمایت کرتے ہیں جو مسلمانوں کے خلاف ہوں۔ غزہ کی پٹی میںاسرائیلی جارحیت قابل مذمت ہے۔ ترکی،لبنان اور مصر نے اس کے خلاف بھرپور مظاہرے جاری ہیں۔ پوری دنیا کے مسلمانوں میں تشویش کی لہر دوڑ اٹھی ہے۔ اسرائیل اور امریکہ کے خلاف عالم اسلام میں نفرت کی ایک نئی اور تازہ لہر نے جنم لیا ہے۔ اللہ کرے کہ یہی لہر مسلمان ممالک کے حکمرانوںکی صفوں میں بیدار ہو اور پھر او آئی سی کا پلیٹ فارم استعمال کیا جائے یا پھر کوئی بھی طریقہ کار یا حکمت عملی وضع کی جائے اسکے تحت اسرائیل کی جارحیت کے خلاف کا بھرپور مظاہرہ کیا جانا ضروری ہے۔ اگر اسرائیل کے خلاف ایران کے صدراحمدی نژاد ڈٹ سکتے ہیں اور امریکہ بھی اپنی تمام تر گیدڑ بھبھکیوں اور سازشوں کو عملی جامہ پہنانے کی خواہش کے باوجود کچھ نہیں کر سکتا توپھر دیگر اسلامی ممالک کیوں نہیں حرکت میں آ سکتے۔ پاکستان کا عالم اسلام میں بڑا اہم مقام ہے۔ اس وقت پاکستان واحد اسلامی مملکت ہے جسے ایٹمی مملکت خداداد ہونے کا شرف حاصل ہے یہ ملک اللہ تعالیٰ نے قائم کروایا تھا یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے تو فلسطین میں بچوں نے بھنگڑے ڈالے۔حماس میں خوشی کی لہر دوڑ اٹھی مگر آج اس پاکستان کے حکمران غزہ میں ہونے والے اسرائیلی حملوں پر خاموش کیوں ہیں۔ مسلمان کو ایک جسم کی مانند قرار دیا گیا ہے مگر کیا وجہ ہے کہ فلسطین میں اسرائیلی بے گناہ مسلمان بچوں عورتوں جوانوں اور بوڑھوں کا قتل عام کر رہا ہے مگر عالم اسلام کے حکمران بے حسی کی نیند سے بیدار ہونے کو تیار نہیں۔ ہمارے وزیرداخلہ رحمن ملک کہتے ہیںکہ پارلیمنٹ انسداد دہشت گردی قانون بنانے میں ناکام ہو گئی۔ کاش ہماری پارلیمنٹ عالمی دہشت گردی کے خلاف کوئی واضح لائحہ عمل یا پھر مذمتی قرارداد ہی منظورکر کے عالم اسلام کو کوئی پلیٹ فارم مہیا کرنے میں کامیاب ہو جاتی۔ بھٹوکے جانشین ماضی میںپاکستان میں منعقد کی جانے والی اسلامی سربراہی کانفرنس کی یاد تازہ کرنے کی جرات ایمانی کیوں نہیں کرتے۔ کیا آج ایوان صدر اور وزیراعظم ہا¶س میںاتنی آسائشیں ہیںکہ انہیں مسلمانوں کا بہتا ہوا لہو بھی نظر نہیں آتا۔ آخر ہم کب تک بے معنی دہشت گردی کی جنگ کی آڑ میں اپنے ملک کے اندر ہی فساد برپا رکھیں گے اور دشمنان اسلام دنیا بھرمیںمسلمانوں کا خون بہاتے رہیں گے۔ مصر کے صدر اسی ماہ ہمارے ملک کا دورہ کرنے آ رہے ہیں۔ 37سال بعدمصرکا کوئی حکمران ہمارے ملک آ رہا ہے۔ مصرکے صدرہماری پارلیمنٹ سے بھی خطاب کریں گے۔ پارلیمنٹ میں بیٹھے سیاست دانوں پر کڑی ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ وہ مصلحتی اور سیاسی بنیادوں سے بالا ترہو کر اپنی حقیقت کے عین مطابق اس دوران غزہ میں ہونے والی اسرائیلی جارحیت پر اپنا کردار ادا کریں۔ حکمران امریکی صدر کو دیکھتے ہیں توانہیں دیکھنے دیا جائے کہ ان کی آنکھ میلی ہے۔

ای پیپر دی نیشن