تاریخ جھانکیں تو ایسے بہت سے لوگ دکھائی دیں گے جنہوں نے ملک و ملت اور مذہب کی خاطر جدوجہد میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ان میں نامی گرامی مجاہدین بھی تھے اور نہایت زور آور اپنی اور دور بین سیاستدان بھی اور حالات حاضرہ سے آگاہ دانشور بھی یہ سب لوگ جدوجہد آزادی کے درخشندہ ستارے تھے جو بہت تاریک مایوسیوں اور ناامیدیوں کے گھٹا ٹوپ اندھیروں کو عزم اور جہد مسلسل سے روشنی کے میناروں میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ مجید نظامی کا شمار انہوں لوگوں میں ہوتا ہے دونوں نظریہ کی بنیاد پر بننے والے ملک کو علامہ اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح کے افکار کی روشنی میں پاکستان کی نظریاتی احساس کو اجاگر کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ مجید نظامی اور انکی قیادت میں نظریہ پاکستان ٹرسٹ اور ن کے ادارت کے ذریعہ وہ اور انکے ساتھی تحریک پاکستان کی صورت حال‘ مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے نئی اور پرانی نسل کو آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ مجید نظامی کے قلم اور زبان کی وجہ سے ہمارے حکمرانوں کا قبلہ درست رہتا ہے جس سے حکمران بھی کبھی کبھی نظریہ پاکستان کی بات کر لیتے ہیں مسئلہ کشمیر پر بات کرتے ہیں حالانکہ جو کام ہماری حکومتوں کا ہے وہ مجید نظامی اور انکے ساتھی کر رہے ہیں ملک و ملت کو درپیش اہم قومی کانفرنس اور تجاویز دیکر اور ذرائع ابلاغ کے ذریعہ نوجوانوں تک پہنچائی جاتی ہیں کشمیر کا مقدمہ جوکہ ہماری حکومتوں کو لڑنا چاہئے تھا وہ مجید نظامی بڑی دلیری سے لڑ رہے ہیں انکی یہ دلیری اور بے باکی بھارت کے حکمرانوں اور متعصب جماعتوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی انکی سب باتوں کو کشمیر کے سارے مسلمان قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ مجید نظامی کو پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے ڈاکٹر ڈگری محب الوطن پاکستانیوں اور کشمیری عوام کو بے حد خوشی ہے لیکن افسوس کہ ہماری حکومتیں بھارت سے کاروبار کرنے پر کمربستہ ہیں ہم نے ہر وہ حربہ کرکے دیکھ لیا جس سے ہمارا ہمسایہ بھارت خوش ہو پاکستان کے بعض حکمرانوں نے سلامتی کونسل کی قراردادوں سے ہٹ کر بھی بات کرنے کا اعلان کیا اس جواب نے بھارت ہمیں کیا دیا اٹوٹ انگ کا اعلان بعض لوگ امن کی آشا کی بات کرتے ہیں کمزور قوموں کو امن نہیں ملا کرتا بھارت نے ہر حربہ استعمال کرکے دیکھ لیا کشمیریوں کو شہید بھی کیا خواتین کی تذلیل بچوں کا قتل عام سے باز نہیں آرہا پھر کیسے توقع کی جاتی ہے۔ بھارت سے دوستی اور کاروبار کر لیا جائے وہ تمام ہیلے بہانوں سے آپکو محبت اور کاروبار کی مار دینا چاہتا ہے۔ یہی لالچ ہمیں لے ڈوبے گی بھارت کے طبقے کی رائے ہے کہ پاکستان کو فوجی طور پر دبانے کی بجائے اقتصادی و ثقافتی طور پر فتح کرنا بہتر ہے اور وہ تجارت و ثقافت اور آمدورفت کا ذریعہ ہے برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے بھی تجارت کے ذریعے بھارت پر قبضہ کیا تھا بھارت بھی تجارت کی آڑ میں ہماری معیشت کو تباہ کرنا چاہتا ہے بھارت اس خطے میں بالادستی کا خواب ترک نہیں کر سکتا سارک تنظیم کے چھوٹے ملک بھارت کے لئے خطرہ یا چیلنج نہیں صرف پاکستان اسے کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے نائن الیون کے بعد اور امریکہ کی آشیرباد نے بھی ان کے لے مزید آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔ بھارت افغانستان کے حالات اور ہمارے اندرون خلفشار سے بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے ہماری حکومتیں اور بڑی سیاسی جماعتیں 6 لاکھ کشمیریوں کے قاتل بھارت کو پسندیدہ ملک کا درجہ دیکر کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی کر رہے ہیں گلگت بلتستان کو صوبہ قرار دیکر اسے مکمل صوبہ کا درجہ دینے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں تحریک آزادی کشمیر کو تقویت پہنچانے والے ہر اقدام کو روکا جا رہا ہے اس وقت حکومت نے مسئلہ کشمیر کو بیورو کریسی کے حوالے کر رکھا ہے جنہیں پاکستان دو قومی نظریہ مسئلہ کشمیر کی اہمیت اور سنگینی کا اندازہ نہیں جس کی تازہ مثال سیکرٹری داخلہ کی سپریم کورٹ میں رپورٹ حیران کن بات ہے کہ بلوچستان کے معاملات میں مقبوضہ کشمیر کی رپورٹ کی کیا تُک بنتی ہے۔ یہ معاملہ معافی کا نہیں کشمیری مطالبہ کرتے ہیں کہ سیکرٹری داخلہ کی انکوائری کی جائے کہ اصل بات کیا ہے۔ 1947ءمیں جن سنگھیوں‘ شیوسینا‘ بجرنگ دل جنہوں نے پاکستان کی محبت میں ہجرت کرنے والے کشمیریوں کا قتل عام کیا ان سے تجارت ہو رہی ہے۔ وہ بھی خسارے کی انکو دعوتیں دی جاتی ہیں مسکرا مسکرا کر باتیں کی جاتی ہیں لیکن رزلٹ زیرو کشمیریوں کو جاگنے کی صدا لگانے والے خود خواب غفلت میں جا رہے ہیں کشمیری آزادی پسندوں کے جذبے کا شعوری یا غیر شعوری طور پر استحصال ہوا تو یہ بڑی ناانصافی ہو گی ایسے حالات میں دونوں طرف کی کشمیری قیادت آل پارٹی حریت کانفرنس کو اپنی اپنی ذمہ داری پوری کرنا ہو گا ورنہ لاکھوں شہریوں کے خون سے مذاق ہو گا۔