صدر باراک حسین اوباما کی دوسری بار کامیابی پر امریکی عوام تا ہنوز جشن منا رہے ہیں۔ جبکہ شکست سے دوچار ہونے والے ریپبلکن امیدوار ”میٹ رومنی“ نے اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دیتے ہوئے نہ صرف اپنی شکست کو خندہ پیشانی سے تسلیم کیا بلکہ صدر اوباما کو انکی کامیابی پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد بھی پیش کی ہے۔
سیاست میں کس وقت کیا ہو جائے کچھ کہا نہیں جا سکتا گورنر ”میٹ رومنی“ کو قوی یقین تھا کہ کم از کم اس بار وہ اپنے گھریلو حلقے NEW Hampshire سے ضرور کامیاب ہوں گے مگر افسوس! وہ اپنے گھر سے ہی ہار گئے....؟؟ اسی طرح انکے نائب صدارتی امیدوار جن کی گھریلو ریاست و سکانس تھی وہ شکست کھا گئے.... اور یوں اوباما کامیابی سے ہمکنار ہو کر دوبارہ امریکی صدر منتخب ہو چکے ہیں۔
امریکہ کے سیاسی اور سماجی حلقے اوباما کی اس کامیابی پر گرمجوشی کا اظہار کر رہے ہیں تاہم امریکی THINK TANK کا خیال ہے کہ معیشت کی خرابی اور اقتصادی مسائل کی وجہ سے اوباما کو شاید مزید چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے بعض حلقے یہ بھی پشین گوئی کر رہے ہیں کہ گذشتہ 4 برس کے مقابلے میں اوباما انتظامیہ کو اب زیادہ عوامی احتجاج سے دوچار ہونا پڑے گا....؟؟؟ اپنے انتخابی جلسوں کے دوران ”اوباما“ اور ”رومنی“ اس بات پر متفق رہے کہ پاکستان میں ڈرون حملوں کا سلسلہ اس وقت تک جاری رکھا جائے جب تک دہشت گردوں کو چن چن کر ہلاک یا گرفتار نہیں کر لیا جاتا؟ انتخابات کے دوران زیادہ تر پاکستانیوں کی انتخابی ہمدردیاں چونکہ اوباما کے ساتھ رہیں اس لئے اندازہ یہ کیا جا رہا تھا کہ ان ہمدردیوں کی بنا پر شاید اوباما ”ڈرون حملوں“ کے بارے میں کوئی مثبت فیصلہ دیں.... مگر! اوباما نے واضح کر دیا کہ امریکہ اپنی سلامتی اور قومی پالیسیو¶ں پر کبھی سودے بازی نہیں کرے گا؟ انہوں نے اپنی انتخابی تقریروں میں بھی یہ کھل کر کہہ دیا کہ امیر‘ غریب‘ ایشیائی‘ کالے‘ گورے سب اپنی جگہ مگر امریکہ کے استحکام کے لئے ہمیں صرف اور صرف امریکی مفادات کا تحفظ کرنا ہو گا۔ اوباما جب ”امریکی مفادات“ کے تحفظ کی بات کر رہے تھے تو میں اس سوچ میں گم تھا کہ ہمارے حکمرانوں کی سوچ کو آخر کیا ہو گیا ہے.... جنہیں امریکی صدر کے قومی تناظر میں کہے الفاظ سمجھنے کی فرصت ہی میسر نہیں ہو رہی.... میں اس سوچ میںگم تھا کہ ”ڈرون حملوں“ کو فوری طور پر روکنے کے لئے کئے گئے ”پاکستانی احتجاج“ پر آخر اوباما کیوں عمل نہیں کر رہے کیا پاکستان اتنا بے اعتماد اتحادی ہو چکا ہے کہ اسکی سرزمین میں امریکی جب چاہے ”دہشت گردی“ کے نام پر بم برساتا رہے....؟؟ اور حکمران خاموشی سے جائزہ لیتے رہیں....؟؟؟
اوباما سچ ہی تو کہہ رہے تھے کہ ”ملکی سلامتی“ اور ”قومی وقار“ ہی وہ اوصاف ہوتے ہیں جن سے قومیں دنیا میں پہچانی جاتی ہیں.... ہمارے حکمرانوں کو بھی اگر ”قومی وقار“ کا خیال ہوتا تو وہ ڈرون حملوں کی مبینہ اجازت دینے سے قبل قوم سے مشورہ ضرور کرتے.... تاکہ اوباما انتظامیہ کو پاکستانی قوم کے جذبات کا احساس ہوتا....؟؟ مگر ایسا ہوا نہیں اسے اب دوسری بڑی قومی بدقسمتی کہہ لیں کہ جس روز اوباما کی کامیابی کے امریکہ کی باون ریاستوں میں کامیابی کے جشن منائے جا رہے تھے اسی ہفتے امریکی عدالت نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی 86 سالہ قید کی سزا کے خلاف کی گئی اپیل مسترد کرتے ہوئے واضح کر دیا کہ عافیہ کی سزا ہر حال میں برقرار رہے گی....؟؟
امریکہ کے بعض سینیٹرز اور اعلیٰ سیاسی شخصیات کو یہ یقین تھا کہ اپیل کی صورت میں نیو یارک کی عدالت میں چلنے والے اس کیس میں سزا میں کمی ہو سکے گی.... مگر عدالت نے فیصلہ جوں کا توں رکھا اور یوں 86 برس کی طویل ترین سزا برقرار رکنے کا حکم دے دیا۔ عافیہ کے وکلاءکی جانب سے عافیہ کے ذہنی مرض بگڑنے کی درخواست کو بھی عدالت نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور زور دے کر کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے دہشت گردی کے عنصر کو خارج نہیں کیا جا سکتا؟
امریکی عدالت تو اب اپنا فیصلہ دے چکی ہے.... دیکھنا اب یہ ہے کہ حکومت پاکستان اس غیر انسانی سزا کے بارے میں کیا موقف اختیار کرتی ہے؟؟؟ ”ریمنڈ ڈیوس“ قاتل ہونے کے باوجود اگر وی آئی پی STATUS سے امریکہ بھجوایا جا سکتا تھا.... نیٹو سپلائی کی بحالی اگر ہو سکتی تھی.... تو امریکی عدالت کی جانب سے عافیہ کو سنائی سزا پر ڈپلومیسی مذاکرات کیوں ممکن نہیں ہو پائے؟؟؟
کسی بھی مجرم کو ہر حال میں سزا ملنی چاہئے۔ مگر مجرم کو صفائی کا موقع فراہم کرنے سے قبل اس پر لگے الزامات پر قانون کے مطابق نظرثانی بھی ناگزیر ہے.... اوباما کو انکی کامیابی پر مبارکباد کے پیغامات بھجوانا پروٹوکول کا حصہ ہے مگر انکی جانب سے یہ واضح اعلان کرنا کہ ”ڈرون حملوں“ کا اس وقت تک سلسلہ جاری رہے گا جب تک دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ نہیں کر دیا جاتا۔ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ”ڈرون حملوں“ کو بند کروانے میں حکومت پاکستان کی کسی بھی درخواست کو وہ اہمیت نہیں دے رہے ایک اور بڑا ثبوت خود ہمارے وزیر دفاع نوید قمر نے اگلے روز سینٹ کو دیا ہے۔
نوید قمر کا ارشاد تھا کہ ڈرون حملوں کے خاتمے کی کسی بھی حتمی تاریخ کا کوئی علم نہیں.... البتہ ڈرون حملوں سے پاکستان میں امریکہ کے خلاف منفی رائے ضرور قائم ہو چکی ہے۔