حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی کرشماتی شخصیت کا یہ اعجاز تھا کہ جو آپ سے ملا آپ ہی کا ہو کر رہ گیا ۔آپ کی محبت اور عقیدت ہی سرمایہ حیات بن گئی ۔ حضرت قائداعظم کی زندگی میں بڑے بڑے انگریز ہندو رہنما آپ کی اولوازمی اور بصیرت کے قائل تھے مگر حضرت قائد کی شخصیت کا اہم پہلو یہ ہے کہ آپ کی زندگی کے بعد بھی جس نے آپ کی حیات کے مطالعہ سے رہنمائی طلب کی تو وہ بھی بامراد ہوا ۔ اس کا دامن فکر وعمل کے موتیوں سے لبریز ہوتا چلا گیا ۔ پھر وہ طالب علم سے سپاہی بن جاتا ہے ۔ حضرت قائد کی میراث کی حفاظت میں جت جاتا ہے ۔ پاکستان اور پاکستان مسلم لیگ کی بقااور استحکام اس کی زندگی کامحور و مرکز رہ جاتا ہے ۔ اس عظیم مشن میں مست بے شمار دیوانے نظر آئیں گے ۔شہر اقبال سیالکوٹ میں قائد کا ایک فرزند جلّی آصف بھلی عشروں سے اس دھن میں چل رہا ہے جل رہا ہے۔ اس نے علم اور قلم سے روشنیوں کے وہ الاﺅ دہکائے ہوئے ہیں جو بھٹکے ہوئے قافلوں کو منزل کی نشاندہی کرتے ہےں ۔آصف بھلی قائد کا قلمی علمی جانباز ہے ۔ کم عمری ہی میں نظریاتی دولت سے مالا مال کر ہو کر برسرپیکار ہوا ۔ ایم ایس ایف کے دوبارہ احیاءمیں مرکزی کردار ادا کیا۔ پھر عملی زندگی میں اپنے قائد کا پیشہ اور تیشہ اپنا لیاپھر نوائے وقت جیسے کندن ساز ادارے سے بندھ کر سونے پہ سہاگے کی مثل نکھرتا چلا گیا ۔ آج آصف بھلی نظریاتی قلم کاروں میں بڑا ہی اہم اور محترم مقام رکھتے ہیں ۔آپ نے مختلف موضوعات پر بیشمار کتب تصنیف کیںجو جمہوریت سیاست شعرو ادب پر مبنی ہیں ۔
برادر مکرم آصف بھلی نے اپنی نئی تصنیف " میرے قائد کا نظریہ " بڑی محبت سے ارسال کی مگر مجھ جیسے کم علم او ر مختصر مطالعے کے حامل سے تبصرے کا حکم صرف عزت افزائی ہے جس کے لئے احسان مند ہوں ۔ مصنف نے کتاب میں ایسے موضوع پر قلم اٹھایا جو آج کل نشتر اغیار کی زد میں ہے ۔ ایسے حالات میں جب کہ ہر سمت سے حضرت قائداعظم کے بنائے پاکستان میں نظام حکومت پر قائد کے حوالے سے کذب تراشی ناکام کی بہتات ہے ۔ آصف بھلی اور ان کی یہ کتاب ان بیہودہ حملوں کے مقابل مضبوط سپر اور آئینی ڈھال کی حیثیت رکھتی ہے۔ مصنف کی 184صفحات پر مشتمل یہ کتاب حضرت قائد کے فرمودات کے ذریعے مخالفین کے اوچھے وار کے دفاع اورپرکھوں سے عہد کے ایفاسے عبارت ہے ۔مصنف محترم نے کتاب کی ابتداءمیں مجھ حقیر کارکن کو جن الفاظ سے نواز ا وہ میرے لئے دارا اور سکندر کی سلطنت سے زیادہ قیمتی اور پرشکویٰ ہے۔ میری نظر میں یہ سرمایہ حیات بھی ہے انشاءاللہ آخرت میں باعث نجات بھی ہوگا ۔کتاب حب الوطنی جذبہ ایمانی سے سرشار ایسی دستاویز ہے جو ہر دور میں پاکستانیوں کے دل و دماغ کو اپنے اعلیٰ اوصاف کے قائد کی شخصیت حیات اور فرمودات سے روشن تاباں رکھے گی۔ مصنف حضرت قائد اور پاکستان کے بارے میںصفحہ 30پر فرماتے ہیں" قیام پاکستان میں برصغیر کے تمام مسلمانوں نے اپنے اپنے انداز اور توفیق کے مطابق کردار ادا کیا لیکن قیام پاکستان کا اعزاز اگر کسی فرد واحد کو دیا جاسکتا ہے تو وہ حضرت قائداعظم ہیں " ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے بیان کہ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ کا نعرہ کبھی نہیں لگا اس کے جواب میں آصف بھلی صفحہ 39میں رقم طراز ہیں " مہاجرین سے تو پاکستان کا رشتہ ہی لا الہ الا اللہ کی وجہ سے ہے ۔ کسی ہندو سکھ نے بھی انڈیا چھوڑ کر پاکستان ہجرت کی ۔ مہاجرین کی ہجرت کی بنیاد لا الہ الاللہ ہے تو ان کا محبوب نعرہ بھی یہی ہونا چاہیے " مصنف صفحہ 41پر بڑے یقین کے ساتھ فرماتے ہیں " میرا ایمان ہے کہ جس طرح تحریک پاکستان انگریز ہندو اور کانگریسی علماءکی مخالفت کے باوجود کامیاب ہوئی اسی طرح پاکستان میں کارواں نظریہ پاکستان کامیاب ہو کر رہے گا سیکولر طبقہ نامراد رہے گا " آگے چل کر صفحہ 49پر کہتے ہیں " مجید نظامی وہی تعلیمات ہمارے سامنے دہرارہے ہیں جن کا اظہار حضرت قائد نے پاکستان بناتے وقت پوری دنیا کے سامنے کیا تھا۔(جاری)