دنیا بھر کے اخبارات اور ذرائع وابلاغ میں گذشتہ چند دنوں سے امریکن فوج کے ایک فورسٹار جنرل اور حال ہی میں امریکہ کی ٹاپ سکیورٹی ایجنسی کے سربراہ کے اپنے عہدہ سے استعفیٰ کے ساتھ ہی ان کی نجی زندگی کے بارے میں کئی انکشافات سامنے آئے۔ انسان کی تاریخ کے ہزاروں سال پرانے ارتقائی دور میں رومانس کے کئی پہلو ریکارڈ پر موجود ہیں جن میں مختلف ادوار میں بعض تاریخ ساز شخصیتوں کے ایسے رومانس لوحِ تاریخ پر محفوظ ہیں۔ جنہوں نے اپنی زندگیاں اور عظیم عہدے اپنے محبوب کی زلفوں کا اسیر ہوکر قربان کردیئے اور تخت وتاج تک کو ٹھکرادیا اکثر نے اپنے زمانے کے مذہبی اخلاقی اور سماجی قانون قاعدے اور معاشرہ کے رسم ورواج اور روحانی کتابوں کی انسانی رشتوں کے بارے میں قواعدوضوابط کو ٹھکراتے ہوئے ایسی روش اختیار کی جسے بقول شاعریوں بیان کیا گیا ہے....
جو راہِ عشق میں قدم رکھے
وہ نشیب وفراز کیا جانے
جیسا کہ قارئین کرام جانتے ہیں مشرق اور مغرب کی تہذیبوں میں ابتدائے آفرینش سے ہی انسانی اخلاق کی قدروں میں ٹکراﺅ چلاآتا ہے ہندو مذہب کی مقدس کتابوں یعنی ویدوں کے مطابق مندروں میں پروہتوں اور پنڈتوں کی سیوا یعنی خدمت کرنے والی دوشیزائیں جنہیں دیوداسیاں کہا جاتا تھا مندروں کے پروہتوں اور پجاریوں سے تعلقات کو خوش قسمتی تصور کرتی تھیں اور حکمران طبقے جن میں راجے مہاراجے ان کے وزیر دیگر عہدیدار اور فوج کے مختلف عہدے داروں کے خواتین کے ساتھ تعلقات میں کوئی قباحت نہیں سمجھی جاتی تھی۔
چھٹی ساتویں صدی عیسوی تک پوری دنیا میں انسانی معاشرے میں عورت دیگر املاک کی طرح مرد کی ایک ملکیت تصور ہوتی تھی۔ ظہور اسلام کے بعد چھٹی عیسوی کے آخر میں عورت کو انسانی معاشرہ میں ایک باعزت اور باوقار مقام اور مرتبہ کی ابتداءہوئی۔
گذشتہ چند صدیوں میں جہاں انسانی زندگی کے ارتقاءمیں ترقی کی کئی منزلیں تیزی سے آگے بڑھی اور جمہوری عمل کے فروغ کے ساتھ عورت نے مرد کے شانہ بشانہ ترقی کرتے ہوئے صدر مملکت اور وزیراعظم کے مرتبے حاصل کیے وہاںہر معاشرہ میں مرد اور عورت کے درمیان معاشرے کے حدود کی مذہبی اخلاقی اور سماجی حدود کو توڑتے ہوئے مغربی سوسائٹی میں معاشقے اور رومانس تیزی سے فروغ پاتا گیا اس حد تک آگے بڑھ چکا ہے کہ یورپ کے مختلف ممالک اور کینڈا اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ایک مردعورت کا نکاح اور شادی کی رسومات کے بغیر اکٹھے زندگی بسر کرنا اور گرل فرینڈ بنانا معیوب نہیں سمجھا جاتا کسی کا شعر ہے کہ....
گر تو بُرا نہ مانے
تو سکونِ دل کی خاطر
کوئی ڈھونڈ لوں سہارا
سکونِ دل کی تلاش کبھی ایسے عشق کی صورت اختیار کرلیتی ہے جس کے تحت برطانیہ کے کنگ ایڈورڈ ہشتم ایک شادی شدہ امریکن خاتون Mrs. Sampson کے عشق میں گرفتار ہوکر برطانیہ کے تخت وتاج سے ازخود دستبردار ہو گئے تھے۔ اسی سکون قلب کی تلاش میں موجود ملکہ برطانیہ کے ولی عہد شہزادہ کی بیوی شہزادی ڈیانا فرانس میں پیرس کے نزدیک اپنی کار کے المناک حادثہ میں اپنی زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھی تھی ۔ برطانیہ کی مشہور ملکہ الزبتھ اول کے دور میں برطانیہ کی عظیم بحریہ کا سربراہ شادہ شدہ لارڈ نلسن جس نے سپین کے بحری بیڑے کو ایک بڑی بحری جنگ میں شکست فاش دیکر برطانیہ کا سب سے بڑا اعزاز حاصل کیا تھا ایک شادی شدہ مشہور خاتون لیڈی ہملٹن جو لارڈ ہلمٹن کی بیوی تھی ان دونوں کے عشق کی داستان برطانیہ کی ایک مشہور رومانوں داستان ہے اسی طرح برطانوی شاہی خاندان کے ایک اور فرد لارڈ ماﺅنٹ بیٹن جو ہندوستان کے آخری وائسرائے تھے ان کی بیوی لیڈی ماﺅنٹ بیٹن کا بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو سے معاشقہ اب کوئی راز کی بات نہیں ہے امریکہ میں بھی صدر کے عہدے پر فائز سکون دل کی خاطر فرصت کے لمحوں میں چند منٹ کے لیے وائٹ ہاﺅس کے اندر سہارا ڈھونڈنے کی مثال بھی موجود ہے چنانچہ اس پس منظر میں امریکی معاشرہ میں جنرل ڈیوڈ پیٹریاس یا افغانستان میں تعینات ایک اور کمانڈر جنرل ایلن کا شادی شدہ ہونے کے باوجود دائیں بائیں عارضی سکون دل تلاش کرنا امریکی معاشرہ میں کوئی تعجب یا حیرت کی بات نہیں ہے اسی لیے صدر باراک اوباما نے جنرل پیٹریاس سے استعفی لینے پر اکتفاءکرتے ہوئے بحیثیت فوجی کمانڈر ڈیوڈ پیٹریاس کو امریکی افواج میں اعلیٰ درجہ کی پیشہ وارانہ قومی خدمات ادا کرنے پر خراجِ تحسین پیش کیا ہے اور ڈیوڈ پیٹریاس نے انفرادی سطح پر ایک شادی شدہ فرد کی حیثیت میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ اپنے فرائض احسن طریقہ سے ادا نہ کرنے پر اپنی معذرت اور شرمندگی کا اظہار کیا ہے اس کے ساتھ ہی ساتھ محکمانہ طور پر سی آئی اے اور دیگر خفیہ ایجنسیوں نے اپنے فرائض منصبی کا ریاست کی وفاداری کے فرائض پوری ایمانداری اور جرا¿ت کے ساتھ ادا کرنے کا حق ادا کیا ہے جس کی پاکستان کی انتظامیہ اور دیگر ایجنسیوں کے عہدیداروں کو تقلید کرنی چاہیے۔
ڈیوڈ پٹریاس کی رومانی زندگی کا ایک جائزہ
Nov 19, 2012