ٹیکس کی ایمنسٹی سکیم کامیاب آئیڈیا ہے

گذشتہ دنوں جب فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین وزیر اعظم کے ساتھ لاہور چیمبر میں آئے تو انہوں نے الگ نشست میں صنعت و تجارت کے نمائندوں کے مسائل سنے وہ کچھ فیصلے پہلے کر کے آئے ہوئے تھے۔ اس لئے ان کا اعلان بھی کر دیا۔ اس موقع پر چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے بتایا کہ تیس لاکھ ٹیکس دہندگان میں سے صرف 80فیصد ٹیکس ادا کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف پنتیس لاکھ افراد ایسے ہیں جو ٹیکس چوری کرتے ہیں۔ اس لئے حکومت نے ایک نئی سکیم متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت ان پینتیس ہزار ٹیکس ادا کرنے کی صلاحیت رکھنے والوں کو ریلیف دینے اور ٹیکس نیٹ میں لانے کے لئے ایک پیکج بنا دیا ہے جس کے تحت جو بھی چالیس ہزار روپیہ ادا کر کے ٹیکس نیٹ میں آ جائے گا اس سے کوئی باز پرس نہیں ہو گی اور نہ ہی اس کی تفصیلی سکروٹنی ہو گی جس کی وجہ سے حکومت کو ایک سو بیس ارب روپے کی آمدنی ہو گی۔
ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا اعلان ہوتے ہی پورے پاکستان میں اس کا خیرمقدم کیا گیا ہے۔ بہت سی اہم اور غیراہم شخصیات سے ملاقات ہوئی۔ سب نے اس سکیم کو بہت پسند کیا۔ ان کا موقف ایک ہی تھا کہ ہم تو ٹیکس ادا کرنا چاہتے ہیں لیکن صرف اس بات پر ٹیکس جمع کرانے سے گریزاں ہیں کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ملازمین نے روزانہ تحقیقات کے بہانے ”ڈو مور“ کا مطالبہ شروع کر دینا ہے۔ لیکن اب حکومت نے جس طرح سے سکیم کا اعلان کیا ہے اس نے پینتیس لاکھ افراد سے زیادہ استفادہ کریں گے۔ لیکن دوسری طرف حکومت کو بھی سوچنا چاہئے کہ ان ٹیکس گزاروں کو کم از بنیادی سہولتیں تو فراہم کی جائیں۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو اس سال شاید اپنے ٹارگٹ کے مطابق ٹیکس اکھٹے کرنے میں صرف اس وجہ سے ناکام ہو جائے گا کہ حکومت نے ایسے اقدام ہی نہیں اٹھائے ہیں کہ ٹیکس دینے والوں کی آمدنی میں اضافہ ہو سکے یا کم از کم جتنی آمدنی ان کی پہلے تھی اتنی ہی برقرار رہے۔ حکومت نے پیداوارکا سب سے اہم خام مال بھی اور گیس کو جان بوجھ کر مسلسل سپلائی ہونے سے روکا ہوا ہے۔ حیرت ہے کہ ایک طرف نیلم بجلی گھر پر صرف چینی کمپنیوں کو سات ارب روپے کی ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے کام رکا ہوا ہے جبکہ عوام اپنے بجلی کے بلوں میں ڈیم بننے سے پہلے ہی ماہانہ سرچارج ادا کر رہے ہیں۔ دوسری طرف متحدہ عرب امارات نے بھی اس مقصد کے لئے تیس کروڑ ڈالر کی امداد صرف حکومت کی نااہلی کی وجہ سے روک لی ہے کہ انقلاب کمپنی کے ساتھ وہ اپنے لین دین کے معاملات درست کرنے میں ناکام ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پراجیکٹ کی لاگت ڈبل سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ اگر حکومت کے پاس صرف نااہل اور سفارشی افسر ہیں تو کم از کم ایک اشتہار دے کر ماہرین کی خدمات تو حاصل کی جا سکتی ہیں۔ بے شمار اوورسیز پاکستانی ایسے ہیں جو اپنے زرخیز ذہن پاکستان کی معاشی اور سماجی ترقی کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے صرف اپنے چیلوں کو کھپانے کا پراجیکٹ شروع کر رکھا ہے جس کی وجہ سے کوئی بھی پاکستانی باہر سے نہ تو سرمایہ لا رہا ہے اور نہ ہی ٹیکنالوجی۔ وفاقی حکومت نے کچھ عرصہ پہلے بزنس اور انڈسٹریل پارکس کا بہت اچھا آئیڈیا دیا تھا لیکن اس آئیڈیے کی کامیابی کے ئے سٹیک ہولڈرز کو اپنے ساتھ نہیں ملایا گیا اور نہ ہی ان سے کوئی نشست رکھی گئی ہے۔ ڈی ایٹ جیسی ناکام کانفرنس کرنے سے تو بہتر ہے کہ پاکستان میں اوورسیز پاکستانیوں کی سرمایہ کاری لانے کے لئے ایک کانفرنس کی جائے اور ون ونڈو آپریشن کے ذریعے سے پاکستان میں سرمایہ کاری کو فروغ دیا جائے۔ ہر سال اوورسیز پاکستانی بارہ ارب ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ پاکستان بیچتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد بے شمار سرمایہ دار پاکستانی واپس آ کر اپنا بزنس شروع کرنا چاہتے ہیں لیکن جب انہیں معلوم ہوتا ہے کہ نہ تو بجلی ہے اور نہ ہی گیس ہے اور صنعتی پلاٹ اتنے مہنگے ہیں کہ وہ بینکوں میں پیسہ رکھ کر اس سے زیادہ منافع کما لیتے ہیں۔ حکومت اوورسیز پاکستانی سرمایہ کاروں کو اولین ترجیح دے۔ مفت صنعتی پلاٹ دے کیونکہ بے روزگاری ختم کرنے کا یہی ایک طریقہ اور ایک غیرملکی این جی او (ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل) کی کار سرکار میں مداخلت کا سنجیدگی سے نوٹس لے۔ وہ اپنے چارٹر سے ہٹ کر قومی معاملات میں مداخلت کر رہی ہے۔ پی آئی اے اور ٹیکس ایمنسٹی سکیم کی شاخیں کافی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...