پیر ‘ 4 محرم الحرام ‘ 1434ھ 19 نومبر2012 ئ


عالمی برادری میانمار میں مسلمانوں کی نسل کشی رکوانے کے اقدامات کرے : او آئی سی ۔او آئی سی نے انگرائی لی ہے تو اب اس ”مُردے“ میں جان بھی ڈال دیں۔ چارسُو مسلمانوں کی لاشیں گر رہی ہیں انہیں مولی گاجر کی طرح کاٹا جا رہا ہے، میانمار میں نسل کشی کی جا رہی ہے لیکن او آئی سی نے آنکھوں پر خود ساختہ پردہ ڈال رکھاہے۔ اسرائیل نے محرم الحرام شروع ہوتے ہی یزیدیت کا روپ دھار لیا ہے جبکہ حسینیت کے نام لیوا فلسطین کے کربلا میں خون کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ 52 اسلامی ممالک کی نمائندہ او آئی سی اگر مسلم اُمہ کی گرتی لاشوں کو تھام نہیں سکتی تو پھر وہ کس مرض کی دوا ہے۔ فلسطین میں 50 افراد شہید کر دئیے گئے۔ اگر لیبیا، عراق اور افغانستان میں بہتے لہو کے سامنے بند باندھا ہوتا تو آج فلسطین کے شیر خوار بچوں کے جسموں سے اسرائیلی راکٹ پار نہ ہو رہے ہوتے۔ آج مکین گنبدِ خضرا اپنی اُمت پر ڈھائے جانے والے مظالم پر افسردہ ہوں گے۔ کاش عرب لیگ خوابِ غفلت سے جاگ اُٹھتی تو آج مشرق سے مغرب تک اسلام کا پرچم ہی لہرا رہا ہوتا....
اے خاصہ¿ خاصانِ رُسُل وقت دعا ہے
اُمت پر تیری آ کے کڑ ا وقت پڑا ہے
٭....٭....٭....٭....٭
زرداری صاحب میں ٹھیک ہوں‘ آپ کی موجودگی میں قوم فکر مند ہے: شاہ محمود قریشی۔حضور والا جب وزیر خارجہ تھے‘ تب تو صدر زرداری میں آپکو کوئی عیب نظر نہیں آیا‘ اسلام آباد دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں‘ موصوف کو تب کرپشن نظر آئی‘ نہ کسی قسم کی فکر لاحق ہوئی ہر کوئی سیاستدان قوم کو سبز باغ دکھا کر اقتدار تک پہنچتا ہے اور اتنی رقم اکٹھی کر لیتا ہے کہ عالم نزع تک وہ کامل یکسوئی سے اسے کھا سکے ‘ آج کل تو پیپلز پارٹی خود اتحادیوں کے ”وینٹی لیٹر“ پر گزارہ کر رہی ہے۔ کل تک جو ناخوب تھے بتدریج وہی خوب بن چکے ہیں‘ اس لئے قریشی کی اب ضرورت نہیں رہی ویسے جب مسافر اپنے قافلے سے بچھڑ کر بہت دور اکیلا نکل جاتا ہے اور شام کا جھٹپٹا سا ہونے لگتا ہے‘ تو یکبارگی اسے احساس ہوتا ہے کہ منزل تو وہی تھی‘ جہاں سے اس نے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ اتنے میں سورج ڈوب جاتا ہے‘ زرداری اور قریشی کا آمنا سامنا بہت دیر بعد ہوا ہے اب اقتدار کا سورج بھی آدھے سے زیادہ ڈوب چکا ہے‘ اگر سورج کے سوا نیزے پر ہوتے ہوئے دیدار ہو جاتا‘ تو شاید اقتدار کا ”ہما“ موسیٰ پاک کے مجاور سے اڑ کر شیخ بہا¶ الدین زکریا ”کے گدی نشین پر بیٹھ سکتا تھا‘ لیکن اب پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے‘ قریشی نے وزارت سے علیحدہ ہونے کے بعد بہت انتظار کیا‘ کہ شاید زرداری گیلانی کی طرح انہیں بھی ”کس آف ڈیتھ“ کرنے آجائیں‘ لیکن جگ بیت گئے۔ چاندنی راتیں آئیں اور اپنی چاندی لٹا کے گزر گئیں‘ ساون آئے اور نین کٹوروں کو چھلکا کر چلے گئے پر وہ نہ آئے۔ نہ نیند نیناں‘ نہ انگ چینا‘ نہ آپ آویں‘ نہ بھیجیں پتیاں‘ بالآخر قریشی نے اڈاری ماری اور جاتی عمرہ سے گزرتے ہوئے انصاف خان سے ہاتھ پر جا بیٹھے بہرحال ہم یہی کہہ سکتے ہیںکہ....
”حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مر جھا گئے“
٭....٭....٭....٭....٭
 چین کی مقبول گلوکارہ خاتون او ل بن گئیں، پنگ لو یوآن، جب نغمہ سرائی کرتی ہیں تو چینی عوام جھوم اٹھتے ہیں۔ بارات سے پہلے ہی ڈھول باجے بج چکے ہیں،پنگ لی، جن پنگ سے تو نمبر لے گئیں۔ چائنہ جو راتوں رات سوئی بھی ایجاد کرلیتا ہے اور دھاگہ بھی، ایسے ہی پنگ لی کا بھی اچانک ظہور ہوگیا ،اب طبلا بجے گا اور سُرنگی بھی، چینی عوام ایک ٹکٹ میں دو دو مزلے لیں گے، ویسے جس قوم کو سر کھجانے کی فرصت نہ ہو وہ خوش گلوئی والی نزاکتوں سے کیا حِظ اٹھائے گی چاہے ان نزاکتوں کی رونمائی چن کی خاتونِ اول ہی کیوں نہ کررہی ہو،چینی جفا کش تو اپنے بابائے قوم مازوئے تنگ کے یوم وفات پر اضافی کام کرتے ہیں، بہر حال چینی عوام کو دوہری مبارک ایک نئی قیادت کی اور دوسری گلوکارہ خاتون اول کی۔ اب دس سال تک پنگ لی نہ صرف خاتون اول رہیں گی بلکہ شوبز میں بھی انکا ڈنکا بجتا رہے گا،قائداعظمؒ نے کہا تھا محنت کرو، کام کرو، دیانت اور خلوص کے دامن کو مضبوطی سے تھام لو،آج چینی قوم ہمارے اکابرین کے اقوال پر عمل کرکے چاند تک پہنچ چکی ہے اور ہم 64 سال سے ایک جگہ پر کھڑے ہیں۔
٭....٭....٭....٭....٭
ہندو انتہا پسند تنظیم شیوسینا کے سربراہ بال ٹھاکرے آنجہانی ہو گئے۔ 86 سال کی عمر میں بال ٹھاکرے آنجہانی ہوجانے کے بعد ان کے پیچھے تاریخ میں اُن کا کردار ایک مثالی شخصیت کا ہے۔ ان کی زندگی اور فلسفے میں زہریلا تعصب کثرت سے پایا جاتا تھا اور ایک ہی انسان نے باقی تمام انسانیت کے لئے مثال قائم کر دی کہ زندگی کیسے نہ جی جائے۔ اُن کی اپنے مذہب کے علاوہ باقیوں کے لئے حقارت اور نفرت، مذاہب کے درمیان نفرت کی سیاست کو فروغ دینا، بھارتی اقلیتوں کو ملک بدر کرنے اور اُن کی عبادت گاہیں جلانے میں مرکزی کردار اور انپڑھ عوام کے جذبات سے کھیل کر اپنے سیاسی مقاصد پورے کرنا ان کی Legacy کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔ ہٹلر کی تعریف سے لے کر، بابری مسجد کی شہادت تک، اقلیتوں کو ”کینسر“ قرار دینا اور بار بار یہ عزم دہرانا کہ ان کو ہندوستان میں ”گھٹنے ٹیکنے پر مجبور“ کر کے ہی وہ دم لیں گے، ان کے تمام اقوال اور اُن کی نگرانی میں شیوسینا کی مصروفیات تمام انسانیت کےلئے فرعونیت کا سبق پیش کرتی ہیں۔ آخری ایام میں عجیب اتفاق سے بال ٹھاکرے کی 6 ڈاکٹروں کی ٹیم میں 2 مسلمان بھی شامل تھے۔ یقینا یہی حُسن سلوک اسلام کی پہچان ہے جو کہ بال ٹھاکرے مرتے دم تک ختم نہ کر سکے۔ اُن کے پیچھے جہاں شیوسینا لاوارث معلوم ہوتی ہے وہیں افسوس ہے کہ دنیا میں نفرتیں پنپتی نظر آتی ہیں۔ بال ٹھاکرے کی اصل جیت مرنے کے بعد بھی مذاہب کے درمیان نفرتوں کی فضا قائم رہنے کی صورت میں ہو گی۔ ہندوستان اُن کی Legacy کو قائم رکھے یا ہمیشہ کےلئے نذر آتش کرے، پاکستان اُن کی کینہ پروری کو ہمیشہ یاد رکھے گا، تاکہ اُن کے پاپ ہماری سرزمین پر کبھی نہ دہرائے جائیں۔

ای پیپر دی نیشن