ڈاکٹروں نے رحمن ملک کے ساتھ بڑی کی اور اب انکی پیپلز پارٹی کے سنیٹروں بالخصوص رضا ربانی اور ڈاکٹر بابر اعوان نے بہت بری کی۔ ڈاکٹروں نے انہیں کم بولنے کی ہدایت کی جس کے بعد میں نے پچھلے کالم میں ذکر کیا تھا۔ دوستوں نے ایک شعر کیلئے بہت تعریف کی۔ اسکا مطلب ”مکرر“ یعنی پھر پڑھئے یعنی پھر لکھئے
پہلے بات کو تول اوئے ملکیا
پھر بھی نہ منہ سے بول اوئے ملکیا
رحمن ملک نے کراچی میں جب ”فرقہ ورانہ حکم“ دیا کہ پہلی محرم کو یوم عمرؓ پر کوئی موٹر سائیکل نہیں چلے گی، سندھ ہائیکورٹ نے یہ حکم معطل کردیا۔ یہ بہت بے عزتی ہے، رحمن ملک استعفیٰ دیتے مگر انہیں عزت بے عزتی کا فرق ہی معلوم نہیں۔ موٹر سائیکلیں چلتی رہیں اور دن گزر گیا۔ کچھ بھی نہ ہوا، حالانکہ خطرہ یہ تھا کہ رحمن ملک سندھ ہائیکورٹ کو سبق سکھانے کیلئے کوئی گڑبڑ کروائیں گے۔
ملک صاحب نے سینٹ میں کہا کہ ریاست ناکام ہوگئی ہے۔ اسکا مطلب ہے کہ اگر خدانخواستہ کچھ ہوجاتا تو پھر ریاست کامیاب تھی۔ پیپلز پارٹی کے سنیٹر رضا ربانی نے کہا کہ ریاست نہیں رحمن ملک ناکام ہوا ہے۔ حکمران ریاست اور حکومت بلکہ جمہوریت اور حکومت میں فرق نہیں کرتے۔ تو کیا حکومت اور جمہوریت ناکام ہوگئی ہے۔ رحمن ملک، مُلک کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں۔ اسکی خبر صدر زرداری کو بھی ہے۔ وہ کسی دن ملک صاحب کی خبر لیں گے مگر اندر سے وہ رحمن ملک سے ڈرتے ہیں، نجانے چکر کیا ہے۔ انہوں نے ملک صاحب کیلئے سپریم کورٹ کو بھی سبق سکھایا، حتیٰ کہ اپنے جگری یار ذوالفقار مرزا کی بھی پرواہ نہ کی، البتہ فہمیدہ مرزا کو اپنے ہاتھ میں رکھا۔ رحمن ملک اور صدر زرداری کی یاری بے نظیر ہے بلکہ بے نظیر بھٹو ہے۔
یہ بات رانا ثناءاللہ نے نہیں کہی، رضا ربانی اور ڈاکٹر بابر اعوان نے کہی ہے کہ موٹر سائیکل پر پابندی لوگوں کے بنیادی حقوق سلب کرنے کے مترادف ہے، یہ غیرآئینی ہے۔ وزیر داخلہ کی دہشت گردی کیلئے بے معنی قانون سازی سے دہشت گردوں کو لیگل کوّر (قانونی جواز) ملے گا۔ رضا ربانی اور ڈاکٹر بابر اعوان پیپلز پارٹی کیلئے اثاثہ ہیں۔ ان دونوں کو گیلانی صاحب، اعتزاز احسن اور رحمن ملک نے دور کردیا تاکہ کوئی اہل اور اچھا آدمی پارٹی میں نہ رہے۔ یہ بھی رحمن ملک نے کہا ہے کہ میں نے یہ فیصلہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی ہدایت پر کیا ہے۔ اس طرح ملک صاحب نے پھر ثابت کردیا ہے کہ وہ راجہ رینٹل ہی ہیں۔ انکی مبلغ ”قابلیت“ کا بھانڈا پھوٹ گیا ہے۔ اس سے پہلے نااہل وزیراعظم گیلانی کا بھی حشر نشر کرایا تھا۔ اس کیلئے اعتزاز احسن کی خدمات لی گئی تھیں اور اسے سنیٹر بھی بنوایا گیا تھا۔ اعتزاز صدر زرداری سے زیادہ ملک صاحب کا مشکور ہے۔ ملک صاحب نے بہت کوشش کی کہ راجہ صاحب کا وکیل بھی اعتزاز ہو کہ وہ بھی گھر جائے۔ رحمن ملک وزیراعظم بننا چاہتے ہوں گے مگر ان کی پرفارمنس وزیراعظم سے بھی زیادہ ہے۔ وزیراعظم ان کی ماتحتی میں کام کرتے ہیں۔
اپنی جماعت کے پارلیمنٹرین انہیں جھوٹا اور چھوٹا کہہ رہے ہیں۔ یہ بات سپریم کورٹ نے کہی تھی تو شرجیل میمن کو غصہ آگیا تھا۔ شرجیل مطمئن رہیں، انہیں کبھی سندھ کے وزیر داخلہ نہیں بنایا جائیگا۔ اب سندھ کا وزیر داخلہ بھی رحمن ملک ہیں۔ یہ وزارت قائم علی شاہ کی جھولی میں ڈالی گئی ہے اور انہوں نے رحمن ملک کے سامنے پھیلا رکھی ہے۔ قائم علی شاہ کو ناکام اور بدنام رکھنے کا سبب یہی ہے کہ رحمن ملک کا سکہ چلتا ہے، سکہ جو کھوٹا ہے۔ سینٹ میں ملک صاحب نے یہ بھی کہا کہ میں ”وفاق“ ہوں۔ وہ صدر زرداری کو وفاق کی علامت سمجھتے ہیں، وفاق خود بلکہ خودبخود ہی آپ بلکہ اپنے آپ ہیں۔ نااہل وزیراعظم گیلانی کو وہ نفاق سمجھتے تھے۔ انکو نفاق ہی نے ڈرایا، شاید منافقت نفاق سے نکلا ہے۔ ان کے گھر ملتان صدر زرداری گئے، انہیں مزا نہ آیا کہ رحمن ملک ساتھ نہ تھے۔ صدر زرداری کو معلوم ہے کہ لوگ رحمن ملک کی حرکتوں کی وجہ سے انکے خلاف ہیں۔ ویسے وہ خود بھی اس کام میں خودکفیل ہیں، لوگ پریشان ہیں مگر حیران بھی ہیں کہ صدر زرداری نے سب پر بھاری ہونا ثابت کردیا ہے۔ وہ ہیں تو بھاری بھرکم، مگر قافیئے کی مجبوری ہے۔ قافیئے کی وجہ سے یہ افواہ پھیلی ہوئی ہے، اگلی باری بھی ہماری، جیوے صدر زرداری۔
اصل میں رحمن ملک فرقہ واریت پھیلانے کے مشن پر لگے ہوئے ہیں۔ وہ شیعہ سنی اختلاف کو اعتراف بنانا چاہتے ہیں۔ محرم میں یوم عمرؓ بہت اچھی طرح گزر جاتا ہے، عاشورہ بھی بخیروخوبی گزر جاتا ہے۔ کئی سو سالوں سے شیعہ سنی ساتھ ساتھ رہتے چلے آرہے تھے۔ شیعہ سنی فسادات ایک سازش ہے۔ محرم کے مہینے اور کراچی میں یہ اقدامات ایک مخصوص منصوبہ بندی کا حصہ ہیں۔ عالمی دہشت گردوں نے اسے اسلامی دہشت گردی بنا رکھا ہے۔ رحمن ملک مذہبی تہواروں پر غیرضروری بلکہ مزاحیہ کارروائیاں کرکے اپنے آقاﺅں کو یہ یقین دلا رہے ہیں کہ دہشت گردی کے پیچھے ہم خود ہیں۔ بلوچستان اور گلگت بلتستان میں شیعہ سنی قتل و غارت بھی اسی سازش کا حصہ ہے، مارنے والے نہ شیعہ ہوتے ہیں نہ سنی۔
موٹر سائیکل پر پابندی غریب دشمنی ہے کیونکہ موٹر سائیکل صرف غریب چلاتے ہیں۔ ٹریفک پولیس چالان بھی صرف انہی کا کرتی ہے۔ رحمن ملک فطری طور پر ٹریفک پولیس کے کانسٹیبل ہیں۔ ملک صاحب بھی غریب تھے، اب اس بدقسمتی کا بدلہ غریبوں سے لے رہے ہیں۔ اس دور حکومت میں غریبوں پر بڑے بڑے عذاب نازل کئے گئے ہیں۔ دفتر اور فیکٹریاں کھلی ہیں، سکول کھلے ہیں۔ رحمن ملک نے چھٹی کا اعلان نہیں کیا۔ غریب خواتین و حضرات اور بچے جتنا ذلیل اس دن ہوئے، اس کیلئے رحمن ملک بہت خوش ہوئے۔ یہ وہی رحمن ملک ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ کراچی میں قتل و غارت گری گرل فرینڈز کی وجہ سے ہورہی ہے۔ دہشت گردوں کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی تو گرل فرینڈز کیخلاف کیوں ہوگی؟ دہشت گرد بوائے فرینڈز ہیں۔ موبائل فون پر پابندی کیلئے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے، عید مبارک کہنے کیلئے گرل فرینڈز کو کوئی پریشانی نہ ہوئی ہوگی۔ وہ تو جانتی ہیں کہ....ع
اس دن عید مبارک ہو سی جس دن فیر ملاں گے
دہشت گردی پھیلانے، شیعہ سنی فسادات کرانے یابھتہ خوری بڑھانے اور قتل و غارت کیلئے سب سے بڑا سبب رحمن ملک ہیں، نجانے انہیں کراچی سے کیا مطلب ہے۔ خدا کیلئے ذوالفقار مرزا کو سندھ کا مشیر داخلہ بنا دیں اور کچھ عرصہ کیلئے رحمن ملک کیلئے کراچی میں داخلے پر پابندی لگا دیں۔ یہ کام صدر زرداری کرسکتے ہیں، مگر لگتا ہے کہ رحمن ملک انکی کمزوری ہیں۔
....٭....٭....٭....
رحمن ملک صدر زرداری کی کمزوری ہیں؟
Nov 19, 2012