1960ء دیر باجوڑ میں دہشت گردوں نے گڑبڑ شروع کی۔ پاک آرمی کو وہاں امن بحال کرنے کا حکم ملا۔ راقم ان دنوں مارٹر بیٹری میں تھا۔ راستے میں مالا کنڈ آتا تھا۔ مالاکنڈ سے نیچے اترکردریائے سوات کی طرف جائیں اس کے سامنے ایک بیلی پُل بنا ہوا ہے۔ وہاں ایک پہاڑی پر چھوٹا سا پرانا قلعہ ہے۔ قلعہ کی دیوار پر بورڈ آویزاں ہے لکھا ہے ’’ونسٹن چرچل نے یہاں قبائلیوں سے جنگ کی تھی۔‘‘ اس وقت چرچل کی عمر 22 سال تھی اور لانسرز (سوار/ رسالہ) میں وہ شاید کیپٹن تھا۔ اس مقام پر توپچانہ بیٹری روک کر میں قلعہ کے اندر داخل ہُوا اس جگہ کی تلاش میں جہاں قبائلیوں نے چرچل پر اچانک حملہ کر دیا تھا۔ چرچل لڑائی میں گھوڑے سے گرا، اس کی تلوار دور جا گری وہ اُٹھا اور حملہ آور پر 5 فٹ سے پستول سے فائر کیا، اس کی یونٹ کے جوان بھی آ گئے۔ اس لڑائی میں دونوں اطراف کتنے مارے گئے اس کا علم نہ ہو سکا۔ چرچل کی قسمت میں آگے چل کر عالمی جنگ کا ہیرو، عظیم صحافی و دانشور، ممتاز سیاستدان اور مثالی ادیب و مقرر بننا تھا۔ امریکی مؤرخ سائیکالوجسٹ اور مصنف Dale Carnegi کتاب میں لکھتے ہیں ’’تاریخ عالم میں چرچل کے سوا کوئی ایسا شخص میری نظر سے نہیں گزرا جس کی زندگی اتنی ہیجان انگیز‘ مہم جو اور پُرخطر گزری ہو جس کی محدود زندگی میں غمی، خوشی، ناکامی اور کامیابیوں کے اتنے رنگ بھرے ہوں۔‘‘
چرچل لکھتا ہے ’’خطرہ دیکھ کر نہ بھاگو‘‘ اگر تم خطرہ دیکھ کر شُتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپا لو گے تو خطرہ دوگنا ہو جائے گا۔ اگر تم خطرے کا سامنا اور مقابلہ کرو گے تو خطرہ آدھا رہ جائے گا۔‘‘
خیال آیا کہ آج پاکستان کو سب سے بڑا خطرہ بھارت کی آبی جارحیت سے ہے۔ بھارت نے پاکستانی دریائوں کا پانی روک لیا ہے۔ بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث پاکستان ایتھوپیا بنتا جا رہا ہے ۔ بھارت پاکستان کو ریگستان بنانے پر تُلا ہے تاکہ ہم پھر کبھی کشمیر اور سیاچن کا نام نہ لیں اور سرکریک کو بھول جائیں۔ بھارت بگلیہار ڈیم کو مزید وسیع کر رہا ہے جس سے چناب کا پانی رکنے سے ملکی زراعت تباہ ہو سکتی ہے۔ وولر بیراج بھی اپریشنل ہو چکا ہے جس سے دریا جہلم ریگستان بن رہا ہے۔ بھارت دریا نیلم کا پانی سرنگ کے ذریعے ڈائیورٹ کر رہا ہے جس سے منگلا ڈیم خشک ہو سکتا ہے۔ اس بھارتی جارحیت کو دیکھتے ہوئے پاکستانی حکمرانوں نے رسماً احتجاج کیا۔ عالمی اداروں میں ایسے نمائندے بھیجے جن میں سے بعض وہاں جا کر عیاشیوں میں مصروف ہو گئے۔ سابق حکمرانوں نے تو بھارت کو بعض بیراجوں کے اپریشنل کرنے کی اجازت دے دی۔ بگلیہار ڈیم قابل ذکر ہے۔ اس طرح ہمارے حکمران طبقہ نے قومی سلامتی کو خطرات میں آتے دیکھ کر آنکھیں بند کر لیں اور شُتر مرغ کی طرح سر ریت میں چھپا لئے۔
نامور تجزیہ نگار مسز جمشید خاکوانی ٹھیک لکھتی ہیں کہ ’’مسئلہ پانی کی مقدار کا نہیں چناب اور جہلم پر کنٹرول کا ہے۔ پاکستان کو اپنی بقا کیلئے بھارت کے اس خواب کو ناکام کرنا ہو گا۔ جس دن بھارت کو ان دریائوں کے پانیوں پر مکمل کنٹرول مل گیا وہ دن اکھنڈ بھارت کا آغاز ہو گا۔‘‘ سندھ طاس معاہدہ پر نظرثانی کی حکومتی تجویز پر جرأت مندانہ اقدام وقت کی ضرورت ہے۔ عملدرآمد کیلئے بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہ کیا جائے۔ میزپر بیٹھ کر، ہاتھ جوڑ کر، بیک ڈور ڈپلومیسی سے لالہ جی دریائوں کا پانی بحال نہیں کریں گے۔ ریت میں سر چھپائے رکھا تو آئندہ سال بجلی سے بدتر سکیل پر پانی کی بھی لوڈشیڈنگ شروع ہو جائے گی۔ بعض مصدقہ اطلاعات کے مطابق بھارت کالا باغ ڈیم کو رکوانے کیلئے بعض پاکستانی سیاستدانوں میں اربوں روپے تقسیم کر چکا ہے۔ آج کسی حکمران یا قومی لیڈر میں اتنی جرأت دکھائی نہیں دیتی کہ اس ڈیم کی تعمیر کا حکم صادر فرما سکے جس ڈیم کی تعمیر سے ملکی سلامتی استوار ہے۔
چرچل کی دوسری نصیحت یہ ہے کہ جنگ کرنے سے پہلے یہ سوچ لینا چاہئے کہ -1 مدمقابل کی جنگی صلاحیتیں کیا ہیں؟ تاریخ کس کی پشت پر ہے -2 ہمارے فوجی صدر جنرل مشرف کو امریکی اعلیٰ افسر کا ٹیلی فون سُنتے یہ خیال نہ آیا کہ ماضی میں جس سپر پاور نے افغانوں سے جنگ چھیڑ لی وہاں سوائے تباہ و بربادی کے کچھ نہ ملا۔ اب تو صدر اوباما نے بھی مان لیا کہ افغانستان عالمی طاقتوں کا قبرستان بنتا جا رہا ہے۔ اس دفعہ آٹے کے ساتھ گھن بھی پس گیا۔ ہم نے تقریباً 8 ہزار فوجی، 50 ہزار سویلین اور 70 ارب ڈالر کا نقصان برداشت کیا۔ ملکی معیشت تباہ ہوئی۔ سونے پہ سہاگہ کہ کرپٹ حکمرانوں نے ادارے تباہ اور خزانہ خالی کر دیا۔ خبر ہے کہ سوئس بینکوں میں 40 پاکستانی سیاستدانوں کے 200 ارب ڈالر پڑے ہیں اور یہاں غریب لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں یا اپنے بچے بیچنے پر مجبور ہیں۔ امریکہ کیلئے اتنی قربانیوں کے باوجود وزیرستان میں ڈرون برسائے جا رہے ہیں جس سے ملک میں ایک خانہ جنگی کی سی کیفیت ہے ۔ ایسے حالات رہے تو کیا امریکی فوجیں امن و سلامتی کے ساتھ افغانستان سے نکل سکتی ہیں اور پاکستانی افواج کا مشرقی اور مغربی محاذوں کا دفاع کرنا آسان ہو گا؟ جس ملک میں خانہ جنگی شروع ہو جائے اور اسی ملک کے دوست نما دشمن خانہ جنگی کو ہَوا دیں وہ ملک اپنی آزادی اور خود مختاری کو کتنے دن قائم رکھ سکتا ہے۔
چرچل کی تیسری نصیحت ہے کہ ’’مقابلہ یا جنگ شروع کرنے سے پہلے سوچ لیا کرو کہ اپنے دشمن کے وسائل اور جنگی ہتھیاروں کا تناسب کیا ہے۔‘‘ امریکہ کے غلام (بقول جنرل مشرف) بن کر انکے ہر حکم پر سجدہ ریز ہو کر انہیں قبائلی علاقوں میں ڈرون برسانے کی اجازت دیکر اب ہمارے بعض لیڈر اعلان کر رہے ہیں کہ ’’ڈرون نہ رکے تو نیٹو سپلائی روک دی جائیگی۔‘‘ کیا سانحہ سلالہ چیک پوسٹ کے بعد سپلائی روکنے پر ڈرون رُکے۔ وائٹ ہائوس سے بار بار پیغام آ رہے ہیں کہ ’’ہم ڈرون حملے کسی صورت نہیں روکیں گے۔‘‘ یہ امریکی دفاعی پالیسی کا کارنر سٹون ہے۔ ہمارے لیڈر ڈرون حملوں کیخلاف احتجاج ضرور کریں بلکہ اس سنگین معاملہ کو سکیورٹی کونسل میں لے جائیں لیکن ایسی صورت حال نہ بنائیں کہ نیٹو فورسز سے ٹکرائو ہو جائے۔ ٹکرائو سے یہ ہو گا کہ آ پ اپنے اتحادیوں کو بھی حملہ آوری کی دعوت دینگے یعنی آپ نیٹو اور طالبان کے درمیان سینڈوچ ہو جائیں گے۔ امریکہ، نیٹو اور اپنے وسائل کو مدنظر رکھنا پڑے گا۔
فیلڈ مارشل منٹگمری فاتح یورپ اپنی کتاب ’’ہسٹری آف وار فیس‘‘ میں لکھتا ہے ’’جنگی ایام میں دشمن کی پسپائی کیلئے ایک راستہ کھلا چھوڑ دو جہاں سے وہ بھاگ سکے‘‘ اب جبکہ نیٹو فورسز 2014ء میں افغانستان سے پسا ہو رہی ہیں بہتر ہو گا کہ انہیں محفوظ طریقے سے واپس جانے دیا جائے۔ یہ نہ ہو کہ امریکی فوج ویت نام میں جنگ ہار کر جب نکلی تو پڑوسی ملک کمبوڈیا پر حملہ آور ہو گئی۔ اس ملک کو تباہ کر کے ٹکڑے کر دئیے۔ چرچل لکھتا ہے ’’افغانیوں کی یہ عادت ہے کہ جب بھی کوئی غیر ملکی فوج افغانستان میں اپنی مرضی سے امن و امان قائم کرنے کی کوشش کرتی ہے افغان اتنا ہی غصہ اور جارحیت سے اس کا جواب دیتے ہیں۔ افغانیوں پر فوج، توپوں، گولیوں، خونریزی، تشدد کا کوئی اثر نہیں ہوتا، ایسی جارحانہ کارروائیوں سے انکی نفرت اور دشمنی بڑھتی ہے۔ اسلئے مسئلہ کا حل اسی میں ہے کہ افغان سرزمین سے نکلا جائے اور قبائلی سسٹم کے ذریعے کام نکالا اور چلایا جائے اور خون خرابہ قبائلیوں پر چھوڑ دیا جائے۔‘‘ ملکی سلامتی کی خاطر ان 20 لاکھ افغانی پناہ گزینوں کو واپس افغانستان بھجوایا جائے جو سالہا سال سے پاکستان میں مقیم ہیں۔ اس سے بھی امن و امان قائم ہونے میں بہتری آئیگی۔
چرچل کی نصیحت اور ڈرون
Nov 19, 2013