فیض اور کلاسیکی غزل

Nov 19, 2014

شمس الرحمن فاروقی
فیض کی غزل کاتذکرہ کرتے وقت عام طور پر جو بات سب سے پہلے کہی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ فیض نے کلاسیکی علامات کو نئے معنی اور نئی معنویت عطا کی یہ بھی کہا گیا کہ فیض کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ ان کے طریق کار میں ہے جس کی رو سے ان کے پاﺅں کلاسکی زمین میں مضبوط جمے رہے، لیکن انہوں نے اس بنیاد پر جو عمارت قائم کی اس کی دیواریں نئے ذہن سے نئے مسائل سے مستفیض تھیں۔ میں فی الحال اس بات سے بحث نہ کروں گا کہ دارو رسن، قاتل، واعظ، کوئے یار وغیرہ قسم کے الفاظ علامت ہیں بھی کہ نہیں۔ ہماری کلاسیکی غزل علامت کے تصور سے ناآشنا تھی۔ اس لئے یہ بات قرین قیاس نہیں کہ جس چیز کا تصور بھی ہماری شعریات میں نہ رہا ہو، اس کا نہ صرف وجود ہو، بلکہ ہمارے شعرا اس سے واقف بھی ہوں۔ مغربی اصطلاحات و تصورات پر مبنی کچی پکی معلومات کی روشنی میں اردو ادب کی تفہیم و تحسین کی جو کوششیں ہمارے یہاں ہوئیں وہ اکثر نا مشکور ہی رہی ہیں۔ اردو غزل میں علامت کا وجود ثابت کرنے کی سعی انہیں ناکام کوششوں کی فہرست میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ خیر، اس مسئلے پرمزید گفتگو نہ کر کے میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جو ہماری کلاسیکی شاعری کا نمایاں وصف ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا فیض کی کلاسیکیت اور ان کا اجتہاد صرف اسی بات میں ہے کہ انہوں نے کوئے یار میں رقیب اور شیخ شہر سے نبرد آزمائی کو عارنہ جانا؟ اس سوال کی چھان بین صرف اس لئے ضروری نہیں ہے کہ فیض کی شاعری یوں بھی خاصے محدود دائرے اور محور کی شاعری ہے اور ان کے ماحول کا یہ اشارہ کہ فیض کی کلاسیکیت محض ان چند الفاظ و تلازمات کو نئے معنی دینے تک محدود ہے۔ تعریف کے پردے میں ان کی مذمت ہی ہے۔ اس سوال کی چھان بین اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس کے ذریعہ کلاسیکی غزل کے بعض بنیادی پہلوﺅں پر بھی روشنی پڑسکتی ہے اور ایک بات یہ بھی ہے کہ فیض کی موت کے بعد پاکستان میں بعض لوگوں نے فیض کو سچا مسلمان، عاشق رسول اور اہل صوفی بھی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ۔ لہٰذا عجب نہیں کہ کچھ دنوں میں فیض کو کلاسیکی صوفی شاعر بھی تسلیم کر لیا جائے اور اس طرح ان کا اصلی ادبی کارنامہ صرف دارورسن اور قیس و فرہاد کی صوفیانہ یاد تازہ رکھنے تک محدود قرار دیا جائے۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اگرکوئی شاعر قدیم الایام سے چلے آنے والے رسومیاتی الفاظ استعمال کرتا ہے لیکن وہ خود جدید زمانے کا شاعر ہے تو ہم کس بنا پر یہ فیصلہ کری
[ں گے کہ اس نے ان الفاظ کو نئے معنی دیئے ہیں؟ مثال کے طور پر دو شعر ہیں:
نہ سوال وصل نہ عرض غم نہ حکایتیں نہ شکایتیں
ترے عہد میں دل زار کے سبھی اختیار چلے گئے
قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا
پر ترے عہد کا آگے تو یہ دستور نہ تھا
پہلا شعر ظاہر ہے کہ فیض کا ہے اور دوسرا دردکا۔ آپ کس بنا پر فیصلہ کریں گے کہ پہلے شعر میں سیاسی جبر کی طرف اشارہ ہے اور دوسرے شعر میں معشوق کے جور کی طرف؟ اگر آپ یہ کہیں کہ دونوں اشعار میں سیاسی جبر کی طرف اشارہ ہے تو فیض کی انفرادیت پر ضرب پڑتی ہے، کیونکہ اس سے تو یہ معلوم ہوا کہ غزل کے رسومیاتی مضامین و الفاظ کو سیاسی معنی میں برتنا فیض کا کوئی اختصاص نہیں۔ اور اگر آپ یہ کہیں کہ فیض کے شعر میں سیاسی جبر کی طرف اشارہ اس لئے ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ وہ ترقی پسند تھے۔ انقلابی تھے، وغیرہ۔ تو اس کے معنی تو پھر یہ ہوئے کہ اس رسومیاتی الفاظ کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ان کے معنی شاعر کے لحاظ سے بدلتے رہتے ہیں اگر شاعر شیعہ ہے تو ان کے معنی شیعی ہیں۔ اگر شاعر سنی ہے لیکن اہل حدیث ہے تو ان کے معنی سنی اہل حدیثی ہیں وغیرہ۔ ظاہر ہے اس طرح فیض کی انفرادیت پھر خطرے میں پڑ جاتی ہے ممکن ہے اگر یہ کہا جائے کہ فیض چونکہ ترقی پسند تھے اس لئے جب وہ کسی کے عہد میں دل زار کے سبھی اختیارات کے چلے جانے کی بات کرتے ہیں تو اس میں وزن ہی اور ہوتا ہے۔ اس میں حسن ہی اور ہوتا ہے لیکن ان کے معنی تو یہ ہیں کہ ہر شعر کی خوبی خرابی کے بارے میں فیصلہ کرنے سے پہلے ہم شاعر کے سیاسی عقائد معلوم کریں۔ ظاہر ہے کہ شاعر کا نام بھی معلوم نہیں اور دوسری بات یہ کہ اگر شعر کاحسن یا معنی ان اطلاعات پر منحصر و مبنی ٹھہرائے جائیں جو شعر کے باہر ہیں تو پھر ہمیں یہ کہنا پڑے گاکہ خود شعر میں کوئی معنی نہیں ہوتے۔ ایسی صورت کو تسلیم کرنے کے بعد تنقید و تفہیم کے سب دروازے بند ہوجائے گے اور خود فیض کی تمام شاعری معرض خطر میں آجائے گی کیونکہ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ فیض کے کلام میں فی نفسہ کوئی خوبی نہیں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ چوں کہ وہ انقلابی اور ترقی پسند وغیرہ تھے اس لئے ان کے کلام کو سیاسی معنی پہنانے میں ایک طرح کا لطف ہے۔ ورنہ یہی شعر انہوںنے اگر درد کے زمانے میں غالب کے زمانے میں کہے ہوتے تو انہیں کوئی گھاس نہ ڈالتا۔
ایک بات یہ کہی جاسکتی ہے کہ فیض کا بڑا کارنامہ داراصل یہ ہے کہ انہوں نے کلاسیکی اصطلاحاتی الفاظ کو دوبارہ زندہ کیا اور انہیں غزل میں مقبول کیا ورنہ فیض کے زمانے میں یہ سب خوبصورت الفاظ یا ترک ہوچکے تھے، یا اپنے معنی کھوچکے تھے۔ اس جواب میں دو مشکلیں ہیں۔ یہ بیان مخدوش ہے کہ دارورسن قفس و نشیمن وغیرہ الفاظ کسی بھی وقت اپنے معنی کھوسکتے ہیں۔ یہ الفاظ دراصل ایک پورے رسومیاتی نظام کا حصہ ہیں اور ان پر غزل کی دنیا کے تمام مفروضوں کا دارومدار ہے جب تک وہ رسومیاتی نظام اور مفروضات باقی ہےں۔ یہ الفاظ اپنے معنی کھوسکتے۔ یہ ناممکن ہے کہ کوئی رسومیاتی لفظ مثلا جو روستم، میر کے شعر میں بامعنی ہو اور آج کے زمانے میں شعر میں بے معنی ہو۔ ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ”جو روستم“ قسم کے رسومیاتی الفاظ اپنی دل کشی اور تازگی کھوچکے تھے۔ فیض نے انہیں دوبارہ دل کشی اور تازگی عطا کی۔ پھر سوال اٹھے گا کہ فیض نے یہ کارنامہ کیوں کر انجام دیا؟ آپ جوب دیں گے کہ فیض نے انہیں سیاسی معنی عطا کئے لیکن وہی مشکل پھر آن کھڑی ہو گی کہ فیض کے شعر میں سیاسی معنی کی دریافت ان معلومات پر مبنی ہے کہ فیض سیاسی اور انقلابی شخص تھے۔ یعنی اگر ہم ’پر ترے عہدے کے آگے تو یہ دستور نہ تھا، والا شعر فیض کے کلیات میں پڑھتے تو اس میں سیاسی اور انقلابی معنی دریافت کرتے اور اگر اسے درد کے دویوان میں پڑھتے تو اسے محض عشقیہ شعر سمجھتے۔ لہٰذا کلاسیکی رنگ و آہنگ والے الفاظ میں جو دل کشی اور تازگی ہم فیض کے شعر میں دیکھتے ہیں وہ اس وجہ سے کہ ہم جانتے ہیں کہ کچھ سیاسی عقائد تھے یعنی فیض نے ان میں کوئی شاعرانہ خوبی نہیں پیدا کی۔ یہ تو محض ان کی سیاست کا کرشمہ تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ نتیجہ مجھے قبول نہیں۔ اس وجہ سے قبول نہیں کہ میں اسے غلط سمجھتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ کلاسیکی رنگ و آہنگ والے الفاظ ہمارے زمانے میں فیض کے علاوہ دوسرے بہت سے شاعروں نے استعمال کئے ہیں اور وہ فیض کے ہم خیال و ہم عقیدہ بھی تھے۔ لیکن ان کے یہاں ان الفاظ میں وہ حسن نظر نہیں آتا جو فیض کے یہاں ہے۔ لہٰذا فیض کی عظمت اس بنیاد پر نہیں قائم ہوسکتی کہ انہوں نے غزل کے کلاسیکی۔ عشقیہ رسوماتی الفاظ کو سیاسی معنی دئیے۔ یہ صفت تو مخدوم، مجروح، ساحر، غلام ربانی تاباں بہتوں کے یہاں ہے۔ ان میں سے کوئی بھی فیض کا مد مقابل نہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ نئے معنی کی دریابی کے اس عمل میں فیض کو اولیت حاصل ہے تو یہ بھی درست نہیں۔ ترقی پسندوں میں سب سے پہلے مخدوم نے غزل کو باقاعدہ طور پر اختیار کیا اور سیاسی موضوعات کو غزل میں برتنے کی رسم حسرت موہانی، محمد علی جوہر اور اقبال نے قائم کی۔ ”دست تہ سنگ“ کے دیباچے میں فیض نے حسرت موہانی کا ذکر کیا ہے۔ اس دیباچے میں انہوں نے لکھا ہے کہ ان کی شاعری کا آغاز 1947ءکے آس پاس ہوا۔ اس وقت محمد علی جوہر زندہ تھے اور ان کی سیاسی غزل ایون ادب میں گونج رہی تھی۔ حسرت کا دبدبہ بطور غزل گو پوری طرح قائم ہو چکا تھا اور اقبال تمام نئے شعر ابشمول جوش کے لئے آئیڈیل کی حیثیت رکھتے تھے۔ خود فیض نے اقبال کا جو مرثیہ لکھا ہے وہ ترقی پسند شعرا کی ممتاز نظموں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا فیض کے سامنے غزل کی ایسی مثالیں وافر تھیں جن میں سیاسی موضوعات کو برتا گیا تھا۔
اس تجزیے کی روشنی میں کہنا پڑتا ہے کہ فیض کی غزل میں کلاسیکی رنگ کی حسن و خوبی کا سراغ اس بات سے نہیں لگ سکتا کہ انہوں نے بعض رسوماتی الفاظ کو بڑی کثرت سے برتا اور ان میں سیاسی معنی داخل کئے تنقید کی دنیا میں یہ شکل اکثر پیش آتی ہے کہ ہم خوبی کا پتہ تو لگالیتے ہیں لیکن اس کی وجہ دریافت کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔
دو شعروں کی روشنی میں بعض نکات کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرتا ہوں، پہلا شعر حافظ کا ہے اور دوسرا ظاہر ہے کہ فیض کا
عقاب جو رکشا داست بال برہمہ شہر
کمان گوشہ نشینے و تیر آہے نیست
بیداد گروں کی بستی ہے یاں داد کہاں خیرات کہاں
سر پھوڑتی پھرتی ہے ناداں فریاد جو در در جاتی ہے
اس بات سے قطع نظر کہ حافظ کا شعر بہت اعلیٰ درجہ کا ہے اور فیض کا شعران کے اچھے اشعار میں نہیں پوچھنے کا سوال یہ ہے کہ ہم یہ فیصلہ کس طرح کرسکتے ہیں کہ حافظ کا شعر سیاسی نہیں ہے اور فیض کا شعر سیاسی ہے؟ پھر کیا ہم یہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ فیض کا شعر اگرچہ حافظ کے شعر سے بہت پست ہے لیکن اس لئے قابل تعریف ہے کہ اس میں سیاسی پہلو بھی ہے یعنی اور کسی پہلو کے علاوہ سیاسی پہلو بھی ہے۔ کیاسیاسی شاعری کے لئے ایسے اصول مقرر ہوسکتے ہیں جن کی روشنی میں ہم سیاسی کو غیر سیاسی شاعری سے الگ کرسکیں؟ یعنی کیا یہ ممکن ہے کہ ہم دکھا سکیںکہ غیر سیاسی شاعری پر مبنی رسومیات کی پابندی کرتے ہوئے بھی سیاسی شاعری ہوسکتی ہے، کیوں کہ وہ رسومیات ہے؟ یعنی کیا یہ ممکن ہے کہ کسی رسومیاتی نظام کو ہم پوری طرح برتیں، لیکن اس کے جو معنی نکلیں وہ غیر رسومیاتی ہوں؟
ان تمام سوالوں کے جواب مہیا کرنے کے لئے ایک دفتر چاہئے۔ میں اس وقت صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ حا فظ کا شعر سیاسی معنی کا متحمل ہوسکتا ہے لیکن ہم اس کو سیاسی نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس میں سے سیاسی معنی جو ہم برآمد کریں گے ان کا تعلق شعر کی Signification سے ہوگا، اس کے اصل معنی سے نہیں۔ اور یہ استعار کی خوبی ہے کہ وہ Signification کے لئے دروازے کھول دیتا ہے۔ ہمارے پاس کوئی ایسا پیمانہ نہیں جس کی رو سے ہم اس شعر کو غیر سیاسی قرار دیں لیکن ہمارے پاس پیمانہ نہیں جس کی رو سے ہم اس شعر کو غیر سیاسی قرار دیں لیکن ہمارے لئے ہمارے پاس ایسا پیمانہ بھی ہے جس کے اعتبار سے ہم اس کو محض سیاسی قرار دیں۔ شعر کی معنویت اس کے معنی کا حصہ ہوتی ہے لیکن اس کے معنی کا دائرہ اس کی معنویت سے چھوٹا بھی ہوسکتا ہے۔ فیض کاشعر حافظ کے شعر کے مقابلے میں کم کار گر ہے۔ اگرچہ اس میں بھی سیاسی معنویت ہے۔ کم کار گر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی معنویت جس معنی پر قائم ہے وہ حافظ کے شعر کے معنی سے کم ہے۔ معنی کے ہونے سے میری مراد یہ ہے کہ حافظ کے شعر میں چار استعارے اور چار پیکر ہیں۔ یعنی جو استعارے ہیںوہی پیکر بھی ہیں عقاب جور، بال کشادست برہمہ شعر، کمان گوشہ نشینے وتیرا ہے۔ پھر دو چیزوں کا ہونا (جو پہلے مصرعے میں بیان ہوئی ہیں) فیض کا شعران خوبیوں سے خالی ہے۔ فیض نے جہاں کلاسیکی اسلوب کو کامیابی سے برتا ہے وہاں کیفیت یا مضمون آفرینی کی کار فرمائی ہے۔ ورنہ سیاسی پہلویا عشقیہ پہلو کسی میں کوئی ایسی خوبی فی نفسہ نہیں جو شاعرانہ خوبی سے ضامن ہوسکے۔ بات فیض کی غزل کی ہور رہی تھی لیکن انہوں نے اکثر نظموں میں بھی غزل کا اسلوب اختیار کیا ہے۔ فیض کے یہاں رعایت تضاد موجود ہے لیکن مضمون کی پیش پا افتادگی نے فیض کے یہاں تمنکت کے بجائے Selfpity پیدا کرد ی ہے جہاں مضمون آفرینی ہوتی ہے وہاں Selfpity نہیں ہوتی جہاں کیفیت ہوتی ہے وہاں Selfpityکا خطرہ ہوتاہے فیض ہمارے ان جدید شعرا میں ہیں جنہیں ان کلاسیکی اصطلاحوں اور تصورات کی اہمیت کا احساس تھا۔ ان میں سے بعض پر انہوں نے ایک مضمون بھی لکھا ہے۔ ہم لوگوں نے مغربی تعلیم کے زیر اثران اصطلاحوں سے بے گانگی اختیار کرلی تھی جب ہمارے ذوق سلیم نے فیض کی غزل میں کلاسیکی رنگ محسوس کیا تو اس کی وجہ دریافت کرنے کی مہم میں ان اصطلاحوںا ور تصورات سے مدد نہ لے سکے۔ لہٰذا ہم صرف یہ کہہ کر رہ گئے کہ فیض نے شیخ، برہمن، واعظ، کوئے یار، رقیب، منزل، دارو رسن وغیرہ کلاسیکی رسومیاتی الفاظ کو نئے معنی میں استعمال کیا ہے۔ فیض کے بہت سے عمدہ اشعار میں رسومیاتی الفاظ نہیں ہیں پھر ان کی کامیابی کا راز کیا ہوسکتا ہے؟
فیض نے غزل میں کلاسیکی رنگ جس طرح زندہ کیا وہ ہماری شاعری کا ایک روشن باب ہے۔ ان کی غزل میں اردو غزل کی وہ تہذیب بول رہی ہے۔ جس میں مضمون آفرینی ا ور کیفیت کا عمل دخل تھا فیض کے یہاں کیفیت کا جادو نظموں میں بڑھ چڑھ کر بولتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ غزل کی تہذیب کے پس منظر میں فیض کا مطالعہ از سر نو کیا جائے۔

مزیدخبریں