گڈ گورننس کا طرحی مشاعرہ

آئی ایس پی آر نے اپنی غزل کا مطالع پیش کیا ’’گڈ گورننس بہت ضروری ہے‘‘ لیجئے! یاران فن کو صلائے عام مل گئی۔ سخن فہمی سے سخنوری تک کی باقاعدہ دوڑ شروع ہو گئی طرحی مشاعرے میں شرکاء کی بھیڑ لگ گئی کہنے والے زیادہ سننے والے کم۔ ہر کوئی اس کوشش میں کہ اپنا کلام پہلے سنا کر داد وصول کر لے۔ کچھ اہل فن تو گلی بازار محلے میں مجمع لگا کر ترنم سے شروع ہو گئے داد کے ساتھ امداد کے بھی متمنی بن کر ایک ایک مصرعہ دس بیس بار دہراتے ہیں اور ہر آنے جانیوالے کو متوجہ کرنے کیلئے باقاعدہ سر بھی لگاتے ہیں اہل اقتدار جو عقل مند تھے طرحی مصرعے کی رمز سمجھ گئے۔ واہ واہ سے کام لیا اللہ اللہ خیر ملا۔ مگر ایوان اقتدار کی سیڑھیوں اور برآمدوں میں بیٹھے داد گیر پھڑ اٹھے۔ شاہ سے زیادہ شاہ کے طرف دار! داد بے داد کے خدائی ٹھیکیدار! غوغا، بڑک، للکار، پھبتی مشاعرے کو کبڈی کا اکھاڑا بنانے پر تل گئے۔ کوئی سمجھے آڑ کہ بھئی گڈ گورننس کا تقاضا آپ سے تو ہوا ہی نہیں اور کوئی ہو سکتا ہے تو بس اتنا کہ چلیں اٹھیں ہاتھ منہ دھو لیں برش کر کے ناشتہ نوش جان کر لیں۔ کیونکہ گیلری میں بیٹھے تماش بینوں سے بس یہی تقاضا ممکن ہے۔ کیونکہ آپ تو ٹھہرے لاچارے بے چارے عاشقان جمہوریت! لیلئے اقتدار کے انتظار میں ھلقان مجنوں!بے چاروں کو خوف شاید اس بات کا ہے کہ پرانی فائلوں میں کہیں نہ کہیں بوالہوسی کا الزام موجود شاید یہ سارا قبیلہ گاجر خوروں کا ہے جونہی آئی ایس پی آر نے گاجر نما اسٹک (چھڑی) دکھائی ہے انجام کا عکس لپک گیا ہے صورت حال ’’مینوں پیندے ترے بھلیکے‘‘ والی ہو گئی ہے۔
ہمارا میڈیا بھی اپنے فن میں طاق و باکمال ہے ذرا سی بات کو فسانہ بنانا کوئی اس سے سیکھے۔ آئی ایس پی آر نے کیا انوکھی بات کہہ دی بھائی یہ بات تو ملک کے طول و عرض میں بچے بچے کی زبان پر ہے ہر سیاسی پھٹے پر روز کا معمول ہے۔ قیام پاکستان سے آج تک جس موضوع پر سب سے زیادہ اظہار خیال یا عوامی بحث ہوئی وہ یہی گڈ گورننس کا عنوان ہے۔ سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ گڈ گورننس ہے کس چڑیا کا نام؟ گڈ گورننس کا سلیس اور آسان ترجمہ ہے کرپشن کا خاتمہ! رشوت، اقربا پروری، میرٹ کیخلاف ورزی، جرائم کی سرپرستی اور انصاف میں تاخیر اور عدم فراہمی وغیرہ! اس کی سب سے جامع اور مکمل تشریخ اور تفسیر خود قائد اعظمؒ کے ابتدائی خطبے میں موجود ہے۔ ہر ہر فورم پر بڑے سے بڑا دانشور یہی تقاضا کرتا ہے کہ گڈ گورننس قائم کی جائے کیونکہ صرف اسی ایک نکتے سے ملک کے سارے مسائل کا حل جڑا ہوا ہے۔ اب آئی ایس پی آر نے اگر میرتقی میر کی پیروی کر لی…؎
میر انداز بیان بات بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
تو یار لوگوں کی طبع میں بھونچال کیوں آ گیا۔ معدے کی سب سے زیادہ گڑ بڑی گاجر گروپ کی صفوں میں دکھائی دے رہی ہے۔ چوہے کی تشویش والا لطیفہ برمحل لگتا ہے جو صرف اس لئے بدحواس بھاگا جا رہا تھا کہ ہاتھیوں کی پکڑ دھکڑ ہونے لگی تھی۔ بھاگتے ہوئے ساتھیوں کو کہتا تھا احتیاط حفظ ماتقدم گاجر کترنے کا الزام ہم پر بھی ہے! سوال یہ بھی ہے کہ جن سے گڈ گورننس کا تقاضا ہوا ہے انہوں نے برا منایا نہیں بلکہ چارپائی کے نیچے ڈانگ پھیرنی شروع کر دی ہے مگر فٹ پاتھئیے سیخ پا ہیں فرماتے ہیں اگر جمہوریت پر نازک وقت آیا تو سینہ سپر ہو کر ساتھ دینگے۔ اسے کہتے ہیں حج کا اعلان بعد از دعوت موشگان۔ دل میں تمنا یہ ہے کہ موعودہ کڑا وقت جو شاید پرسوں آنا ہے آج ہی آجائے تاکہ اپریشن ٹیبل پر پڑے مریض کی رسولیاں پیٹ سے باہر نہ آ سکیں، اور زلزلے کی چیخ و پکار میں ظالم مظلوم گھل مل جائیں۔ ماضی کا کھایا پیا ہضم۔ متوقع حشرگاہ کا منظر ملتوی ہو جائے۔ جمہوریت پر کڑے وقت کا نعرہ گاجر گروپ کے چیف اسلام آباد کے ہوٹل میں فلاپ کر چکے ہیں جہاں اینٹ سے اینٹ بجنے کی آواز نکالنے کے لئے انہیں طبلے کا سہارا لینا پڑا تھا۔
لیکن اب یہ بات کھل کر عیاں ہو چکی کہ جمہوریت کی ہمدردی در حقیقت اپنی ذاتی ضرورت ہے جمہوریت یعنی آزادی! آزادی کے اندر سارے امکانات پوشیدہ ہیں۔ ہیومن رائٹس، قبل از گرفتاری ضمانت ملک سے فرار کی سہولت، عدالتوں کی بھول بھلیاں، انصاف کا التوا، مقدمہ بازی کے اندر چھپی سودے بازی اور کیا ہے کیا ممکنہ بچائو کے طریقے اگر اس سفاک حسینہ کی جگہ حقیقی شمع انصاف روشن ہو تو شاید غول در غول کتنے پروانوں کے پرجل جائیں اب یہ مادر جمہوریت کا کمال ہے کہ جرم گلچھرے اڑا رہا ہے اور مظلوم آہیں بھر رہا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ جونہی کوئی پوچھنے والا سامنے آتا ہے گاجر گروپ پیٹ پکڑ کر ہائے جمہوریت ہائے جمہوریت پکارنے لگتا ہے۔
یہ جو تھوک کرپشن، جعلی الائنمنٹوں، ریاسی وسائل کی لوٹ مار، بیرون ملک ترسیل زر کے قصے کہانیاں چل رہے ہیں کہ ایک طوفانی گرد باد ہے راکھ اور مالک کا جس نے قوم کا چہرہ ہی مسخ کر کے رکھ دیا ہے کیا یہ منظر دھلنا سنورنا نہیں چاہیے؟ یہ دودھ کے نہائے اجلے چہرے جو عوام کے درد میں سہانے گیت گاتے ہیں ریاست ہو گی ماں کے جیسی۔ اب کھلا کہ حضور بھی قدرتی گیس کے الاٹی ہیں! کوئی پوچھے کسی خوشی ہیں؟ اس طرح کے سارے چہرے جن کے پیچھے مراعات کے نام پر ریاستی، عوامی و مسائل کے پٹھو بندھے ہیں۔ جونہی فضاء میں کروٹ بدلتی ہے اور نعرہ لگتا ہے حق بہ حقدار رسید ساڈا حق ایتھے رکھ! تو سیاسی میوزیم میں پڑے بڑے بڑے بت شدت کرب سے نعرہ زن ہو جاتے ہیں ہائے جمہوریت! ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ملک کا بڑے سے بڑا مجرم اسی نعرے کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر جمہوریت کے اصل معانی سے بیگانہ ہے۔ جمہوریت کا حقیقی مطلب ہے عوام کی حکومت عوام کے ذریعہ عوام کیلئے سرسر گڈ گورننس کا یہی مطلب ہے۔ مگر ہمارے ہاں تو یہ مطلب الٹ پلٹ چکا ہے۔ خواص کی حکومت، خواص کے ذریعہ خواص کیلئے! عوام کی جگہ خواص شاید یہی المیہ ہے ہماری جمہوریت کا!
پس تحریر! گاجر گروپ کے چیف نے اپنے ساتھیوں کو بیان بازی سے روک دیا ہے شاید اس لئے کہ اقتدار والوں کی غزل میں سے ایک شعر ایسا پھسل گیا ہے جس میں احتیاط کا دامن چھوڑ کر عاشق کو حدود میں رہنے کی تلقین موجود ہے۔ بھلا عاشق کو کوچہ حسن میں جانے سے کوئی روک سکا ہے؟ اسے کہتے ہیں شاعر کی بونگی!

ای پیپر دی نیشن