بنی کریم ﷺپر سب سے پہلی وحی نازل ہوئی ’’اقرائ‘‘پڑھ اپنے رب کے نام سے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا کے دیگر مذاہب کے مقابلے میں اسلام علم کے حصول پر سب سے زیادہ زور دیتا ہے اسلام میں تعلیم کے حصول کو ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض قرار دیا گیا ہے۔رب العزت نے یہ دنیا بھی انسانیت کے لیے اسی لیے بنائی ہیکہ انسان علم کے ذریعے اسکے پوشیدہ رازوں کو پہچان پائے گا اور علم ہی کی وجہ سے اسے فرشتوں پر فضیلت دی گئی ۔ اللہ تعالیٰ نے جب دنیا کی تمام مخلوقات سے زیادہ فضیلت و فوقیت انسان کو بخشی اور اسے محض اشرف المخلوقات کا درجہ اس وجہ سے دیا کیونکہ وہ علم کے لحاظ سے تمام مخلوقات پر فوقیت رکھتا ہے ۔ بنی کریم ﷺ نے ’’اُمی‘‘ہونے کے باوجود جسطرح سے اپنے صحابہ کرام ؓکی تعلیم و تربیت کی وہ تا قیامت ساری بنی نوع انسان کے لیے ایک مشعل ِراہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ تعلیم کا حصول انفرادی و اجتماعی طور پر سب ہی کے لیے اہمیت کا حامل ہے ۔تعلیم معاشرے کو بہترین شہری ذہین وباکردار طلباء اور جہاں اچھی قیادت فراہم کرتی ہے وہاں پر قوم کیمعاشی اور معاشرتی آسودگی کا باعث بھی بنتی ہے۔وفاقی دارالحکومت اسلام آبا د سے 40 کلو میٹر مغرب کی جانب جی ٹی روڑ پر پاکستان کے خاموش مجاہدین کی خوبصورت علمی و ادبی بستی واہ کینٹ ہے جس کا تعلیمی معیار پورے پاکستان میں نہ صرف قدرو منزلت سے دیکھا جاتا ہے بلکہ اس شہر کیشرح خواندگی کو99.9%فی صد بنانے میں فیڈرل گورنمنٹ، صوبائی حکومت کے تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ نجی شعبہ کا بھی بڑا عمل دخل ہے اس خوبصورت شہر میں جہاں پہ واہ میڈیکل کالج،یونیورسٹی آف واہ،واہ انجنئیرنگ کالج،کامسیٹس،نشیمن جیسے ادارے اور متعدد وفاقی اور صوبائی حکومت کے زیر انتظام چلنے والے تعلیمی ادارے نہ صرف ا ہلیان واہ چھاونی بلکہ قرب و جوار کی آبادیوں کے طلباء و طالبات کی تعلیمی ضروریات کی تکمیل میں مصروف عمل ہیں وہاں پہ نجی شعبہ کا کردار بھی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔مارگلہ گرائمر سکول ہو یا بیس گروپ آف کالجز،شاہین کیڈٹ سازادارہ ہو یا سینٹ پال سکولزہویا واہ کالج آف مینجمنٹ سائنسز، سر سید کالج ہو یا سکالرز گروپ آف کالجز ہو ں یا کوالٹی سکول ہو یا واہ اسلامک سکول آف ایکسلینس(وائز)ہو۔ ہر ادارہ نہایت ہی مستعدی و ایمانداری کے ساتھ اپنے محدود و سائل میں رہتے ہوئے اہلیان واہ کے طلباء کے قلوب و دماغ کو علم کے خزینوں سے معطر کیے ہوئے ہیں واہ چھاونی سے باہر کی مضافاتی آبادیاں جہاں پر نسبتاً کم سہولیات اور معاشی طور پر نچلے درجے کے لوگ مقیم ہیں اُن کی تعلیمی ضروریات کی تکمیل کرنے میں بھی پرائیویٹ سیکٹر اپنی مدد آپ کے تحت اپنا کردار ادا کیے ہوئے ہے اور ان ہی اداروں میں ایک نام طارق آئیڈیل پبلک سکول جی ٹی روڈ لالہ رخ واہ کینٹ کا بھی ہے گزشتہ دنوں اُن کے تعلیمی ادارہ کی شاندار تعلیمی اور غیر نصابی سر گرمیوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فیڈرل بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سکینڈری ایجوکیشن اسلام آباد نے الحاق کا باضابطہ نو ٹیفیکیشن جاری کر دیااس سلسلہ میں ڈائریکٹر راجہ طارق محمود نے مقامی ہوٹل میں اظہار تشکر کے طور پر ایک خوبصورت تقریب کا اہتمام کیا۔اس تقریب میں ملک اکبر دین چٹان کے خانوادے سے تعلق رکھنے والے ممتاز نوجوان ممبر پنجاب اسمبلی ملک تیمورمسعود اکبرنے بحیثیت مہمانِ خصوصی اور پروفیسر ابرار احمد خان ڈویثرنل صدر آل پاکستان پرائیویٹ سکولز مینجمنٹ ایسوسی ایشن راولپنڈی ڈویثرن نے بطور صدر ِ تقریب شمولیت کی دیگر مہمانِ مقررین میں پروفیسر عبد الخالق ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر ٹیکسلا،ڈاکٹر محمدانورعلاقائی ڈائریکٹر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی،پیر سعید احمد نقشبندی،باوامحمد اکرم خان اور راقم شامل تھے ۔مہمانِ خصوصی اور صدر مجلس اور مہمانِ مقررین کے جاندار خطابات نے اس بات کی اہمیت و افادیت سے حاضرین کو بخوبی آگاہ کر دیا کہ واہ چھاونی جہاں پہ ہنر مندوں کا مسکن ہے اور فورسز کیپیچھے ایک فورس کی صورت میں یہاںکے باسی خاموش مجاہدین کی حیثیت سے ملکی دفاع میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں وہاں پہ اس شہر کو ایجوکیشن سٹی بنانے والے نیک دردِ دل رکھنے والی شخصیات جن میں مرحوم محمد لطیف گیلانی،ایف ڈی چودھری مرحوم ،ڈاکٹر ایس اے علوی مرحوم،این اے بیگ مرحوم ، صابر انور منہاس مرحوم،مسز محمودہ رزاق، مسز انیس زیدی ، مسز ریاض ،مسز سراج،مسز اسلم جیسی نیک اور دردِ دل رکھنے والی علم دوست شخصیات کے کردار کو اہل واہ ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے اور ان مرحومین کی طرف سے جلائی گئی شمعوں کی آبیاری کے لیے راجہ طارق محمود جیسے نوجوان علم دوست احباب اپنے شہر کی تعلیمی ترقی اور وقار وبقاء کے لیے آج کے اس مادیت پرستی کے دور میں بھی ہمہ تن مشنری جذبہ سے مصروفہیں۔مہمان ِخصوصی ملک تیمورمسعوداکبر نے کہا کہ کتنے افسوس کامقام ہے کہ آج ہمارے ملک کے کم و بیش اڑھائی کروڑ بچوں نے ابھی تک درسگاہ کا منہ بھی نہیں دیکھا۔ پروفیسر ابرار احمد خان ڈویثرنل صدر آل پاکستان پرائیویٹ سکولز مینجمنٹ ایسوسی ایشن راولپنڈی ڈویثرن نے کہا کہ حکومت پنجاب نجی تعلیمی اداروں کے مسائل کاتدارک کرے نجی تعلیمی اداروں کے متعلق پالیسی بنانے کے عمل میں مالکان سے مشاورت کی جائے ، پنجاب ریگولیٹری اتھارٹی بل آنے سے اقرباء پروری،پسند و نا پسند اور سیاسی وابستگیوں کو ضرور مدِ نظر رکھا جائیگا۔حکومت وقت نے کبھی بھی نجی شعبہ کی خدمات کو کسی بھی سطح پر نہیں سراہا اور نہ ہی نجی تعلیمی شعبہ کی شاندار خدمات کے پیش ِنظر سہولیات فراہم کی ہیں۔اگر حکومت پڑھا لکھا پنجاب و پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر کرنا چاہتی ہے تو خلوص نیت کے ساتھ سرکاری تعلیمی اداروں کی طرح نجی شعبہ کو ساتھ لیکر چلے وگرنہ پڑھے لکھے پنجاب کا نعرہ صرف اخبارات اور تشہیر ی عمل تک ہی محدود رہے گا۔
بلا شبہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مردو زن پر نہ صرف فرض ہے بلکہ ہر انسان کا بنیادی حق بھی ہے ۔"نبی کریمﷺ نے فرمایا جو شخص طلب ِعلم کے لیے کسی راستے پر چلا اللہ تعالیٰ نے اسکے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیا "۔اسلامی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ مسلمانوں نے تعلیم و تربیت میں معراج پا کر نہ صرف دین و دنیا کی سر بلندی اور ترقی حا صل کی بلکہ ساری دنیا پہ اپنی جاہ وجلال کے جھنڈے گاڑھے اور پھر جب وہ تعلیم سے دور ہوئے تو بحیثیت قوم اپنی شناخت ہی گنوا بیٹھے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری حکومت اور ارباب اختیار کو چاہیے کہ وہ تمام طبقات کے لیے یکساں نظام تعلیم کا نفاذ عمل میں لائے اور ایسا نصاب مرتب کرے جو افکار قائد ؒو اقبال ؒ اور نظریہ پاکستان کی اساس کے عین مطابق ہو اور تعلیم کے فروغ کے لیے موجودہ و فاقی اور صوبائی حکومتوں کو نجی شعبہ کو ساتھ لیکر چلنا ہو گا تبھی تعلیم یافتہ اور روشن پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا طبقاتی نظام تعلیم لارڈ میکالے کے مادہ پرستانہ اور سیکولر نظام تعلیم کی بجائے پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہمیں اپنی زبان اردو میں ایسا نظام ِ تعلیم وضع کرنا چاہیے جو ہمارے افراد اور معاشرے کے درمیان پل کا کام انجام دے سکے۔تبھی ہم اس نتیجہ پر پہنچ پائیں گے کہ ہم نے اس ملک اور قوم کی خدمت کی ہے ہمارے حکمرانوں اور پالیسی ساز بیوروکریٹس کے بچے بیرون ملک تعلیم حاصل کر رہے ہیں یا پھر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں اُنھیں کیا پتہ؟کہ غریب کا بچہ کس طرح سے زیور تعلیم سے آراستہ ہو رھا ہے اگر وہ خوش قسمتی سے تعلیم یافتہ ہو بھی جائے تو اسکے لیے نوکری کا دروازہ بند ہے کیونکہ پالیسی سازوں نے ایسا گورکھ نظام بنایا ہوا ہے جس میں ایک مخصوص طبقہ کے لوگوں ہی نے اس ملک کے ۰۲ کروڑ عوام کو مقید کر رکھا ہے تمام سہولیات اُن ہی کا حق ہے غریب کے بچے تو صرف محکومی کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔آج کے موجودہ دور میں ہر درددل رکھنے والے پاکستانی کی یہ دُعا ہے کہ ہماری درسگاہوں میں وہ دن آجائے جب ہمارے اساتذہ قرآن و حدیث کی روشنی میں پاکستانی طلباء کی تعلیم و تربیت کر سکے وہ کون سا روز سعید ہو گا ؟ جب ہمارے دانش ور رشدو ہدایت کی روشنی میں صراط ِ مستقیم کو ڈھونڈ نکالیں گے وہ حیا بار زمانہ کب آئے گا؟ جب انصاف کی مسند پر فائز قرآنی نسخہ کیمیاء کی روشنی میں فیصلے صادر کریں گے ۔کاش کاش ہمارے پالیسی سازمقتدر شخصیات ہوش کے ناخن لیتے ہوئے پاکستان کے بیس 20کروڑ عوام کیلئے حقیقی فلاحی تعلیمی ریاست بنانے کی جانب ٹھوس اور مثبت اقدامات بروئے کار لاتے ہوئے دنیا میں پاکستانی قوم کو باوقار اقوام میں متعارف کرا سکیں۔ اس دُعا کے ساتھ ملک کے تمام گوشے واہ چھاؤنی کی طرح علم و ادب کا گہوارہ بن جائیں۔ آمین