قومی سطح پر متحارب سیاسی نظریات کی حامل جماعتوں کے مابین بعض معاملات کا الجھانا اور الجھ الجھ کر سلجھنا کوئی نئی اور انہونی بات نہیں۔ ایسے حالات و واقعات وقت گزرتے میں قصہ¿ پارینہ بن جاتے ہیں حتیٰ کہ افرادِ قوم کو یہ تک بھی یاد نہیں رہتا کہ فلاں معاملے پر ارباب اختیار کی ہٹ دھرمی نے ملک بھر کے معاشی‘ تعلیمی‘ طبی اور سماجی شعبے کو بُری طرح متاثر کرکے قم کیلئے مسائل پیدا کر دیئے تھے۔ بلاشبہ قوم اپنی زندگی کے مختلف شعبوں کے ناقابل نقصانات کو برداشت کر لینے کا حوصلہ تو رکھتی ہے مگر جس معاملہ پر یہ سخت جان اور سادہ دل قوم کسی قسم کے سمجھوتے کے بارے میںسوچ نہیں سکتی‘ وہ قومی اور ملکی سلامتی کا معاملہ ہے۔ پاکستانی قوم اپنے وطن میں بھوکا‘ ننگا رہ کر لاعلاج‘ بیروزگار اور تعلیم سے بے بہرہ رہنا گوارہ کر سکتی ہے۔ زندگی کی تمام سہولتوں سے عاری جینا اسے منظور ہے مگر اسے یہ کسی صورت گوارا نہیں کہ اس کی آزادی اور خودمختاری کسی کے ہاتھ میں سبوتاژ ہو۔ ایسی باتیں وقت گزرنے کے باوجود افراد قوم کے دلوں سے محو ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ یہی وجہ ہے کہ کئی ہفتے گزرنے کے باوجود قومی سطح کے ایک انگریزی روزنامہ میں قومی سلامتی کے حوالے سے شائع شدہ خبر پر پوری قوم تلملا رہی ہے۔ خبر کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ قومی سلامتی کے ذمہ دار ادارے کے مقتدر جانبازوں نے بھی اس معاملے پر ارباب اقتدار سے بات کرنا ضروری سمجھا۔اس حوالے سے قابل ذکر حقیقت یہ ہے کہ جس خبر نے مضبوط و مستحکم حکومتی صفوں میں بھی ہلچل مچا دی اور اس صفت کے ایک نمایاں ”.... خوان“ کو بیک جنبش قلم صف اقتدار سے نکال باہر کرنا پڑا مگر قریباً ڈیڑھ ماہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی کار پردازانِ حکومت یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ جس خبر نے ان کی چولیں ہلا ڈالیں‘ وہ خبر ”لیک“‘ تھی یا من گھڑت یعنی ”پلانٹڈ سٹوری“ تھی۔ ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ یہ ابہام کسی ایرے غیرے کا پیدا کردہ نہیں‘ خود ایون اقتدار کے مکینوں کا ہے۔ وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے 14 اکتوبر کو نادرا ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد میں بڑے طمطراق کے ساتھ جو پریس کانفرنس کی تھی‘ اس میں انہوں نے پُراعتماد انداز میں یہ کہا تھا کہ متنازعہ خبر کے معاملہ پر وفاقی وزیرقانون و انصاف زاہد حامد کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی بن چکی ہے جو تحقیقات کرکے رپورٹ دے گی کہ اس خبر کی اشاعت کے حوالے سے کیس بنتا ہے یا نہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ تحقیقات آئندہ تین چار روز میں مکمل ہو جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ خبر دینے والے صحافی کا نام ای سی ایل میں اس لئے ڈالا گیا ہے کہ اگر یہ صحافی بیرون ملک چلا جاتا تو پھر حکومت پر الزام لگتا کہ حکومت نے خود خبر لگوا کر اس صحافی کو بیرون ملک فرار کرا دیا ہے۔ چودھری نثار علی خان نے اس موقع پر ایک اور قابل ذکر بات یہ بھی کہی کہ ان دو سے تین افراد کے بیانات بھی کمیٹی قلمبند کرے گی جن پر شکر کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے خبر لیک کی ہے۔ اگر یہ لوگ بھی بیرون ملک جانے کی کوشش کریں گے تو انہیں بیرون ملک نہیں جانے دیا جائے گا کیونکہ انکوائری کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ جس نے یہ خبر ”لیک“ کی ہے‘ اسے کٹہرے میں لایا جائے جس کیلئے صحافی کا تعاون بہت ضروری ہے۔ ایک سوال کے جواب میں چودھری نثار نے یہ بھی کہا تھا کہ وزیراعظم کی زیرصدارت ہونے والے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں وزیراعظم کے علاوہ صرف پانچ لوگ تھے جن میں دو وفاقی وزراءاور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف بھی شامل تھے۔چودھری نثار علی خان نے بڑے جاہ و جلال کے انداز میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ وفاقی وزیرقانون زاہد حامد کی قیادت میں جو کمیٹی بنائی گئی ہے‘ وہ ان دو تین افراد کے بیانات بھی قلمبند کرے گی جن پر خبر ”لیک“ کرنے کے بارے میں شک کیا جا رہا ہے۔ مگر افسوس صد افسوس کہ چودھری نثار علی خان نے متذکرہ پریس کانفرنس میں ایسے مشکوک افراد کے نام بتائے نہ ہی بعد میں انہیں ان مشکوک افراد کے نام ظاہر کرنے کی جرا¿ت ہو سکی۔ آخر وہ لوگ کون ہیں؟
لطف کی بات یہ ہے کہ 29 اکتوبر کو وفاقی کابینہ سے پرویزرشید کی علیحدگی کی خبر کا اعلامیہ وزیراعظم ہاﺅس سے جاری ہوا۔ اس میں بھی خبر کے ”لیک“ ہونے کی بات کی گئی۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ 6 اکتوبر کو نیشنل سکیورٹی کمیٹی اور نیشنل ایکشن پلان کے متعلق ہونے والی میٹنگ سے متعلق خبر شائع ہونے سے قومی سلامتی خطرے میں ڈال دی گئی۔ اسی روز وزیراعظم کے ترجمان مصدق ملک کی طرف سے ایک بیان جاری ہوا جس میں کہا گیا کہ خبر کی تحقیقات آخری مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ بہت جلد اسے قوم کے سامنے لایا جائے گا۔ وزیرداخلہ چودھری نثار کی سربراہی میں قائم تحقیقاتی کمیٹی تفتیش کر رہی ہے۔
اور پھر اگلے ہی روز 30 اکتوبر کو چودھری نثار علی خان نے پنجاب ہاﺅس اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں ایک نئی انکوائری کمیٹی کے قیام کا مژدہ سنایا۔ انہوں نے پہلی دفعہ اس پریس کانفرنس میں متنازعہ خبر کے حوالے سے ”لیک“ ہونے کا لفظ استعمال نہ کیا بلکہ واشگاف الفاط استعمال کرتے ہوئے کہاکہ ”گھڑی گئی“ خبر کے ذریعے ریاست کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ یہ خبر کس نے ”گھڑی“ سب بے نقاب ہونگے۔ اس پریس کانفرنس میں بہت درون پردہ راز طشت ازبام ہوئے۔ پتہ چلا کہ اس خبر کی تحقیق کے بارے میں عساکر پاکستان کے سپہ سالار کی طرف سے بھی استفسار کیا گیا تھا جس سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ اس کے بعد ہی ارباب حکومت اس معاملے میں تحقیقات پر سنجیدگی اختیار کرنے پر آمادہ ہوئے۔ اب تازہ ترین حقائق کچھ اس طرح ہیں کہ سابق جج کی سربراہی میں حکومت نے ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی ہے مگر ”سکیورٹی بریچ“ سے متعلق خبر کے حوالے سے کئی ایک سوالات پیدا ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان سے ہے۔ آخر وہ دو تین مشکوک لوگ کون ہیں جن کا ذکر چودھری نثار علی خان نے اپنی پہلی کانفرنس میں کیا تھا۔ اگر ایسے مشکوک لوگوں کا نام ظاہر نہ کرنے پر کونسی مصلحت کارفرما ہے؟ حکومتی حلقوں کی طرف سے خبر کے ”لیک“ ہونے کا ڈھنڈورا پیٹا گیا جبکہ کسی خبر کے ”لیک“ ہونے کا واضح مطلب یہ ہے کہ وقوعہ ہوا ہے جو کسی نہ کسی ذریعہ سے طشت ازبام ہو گیا۔ گویا خبر تو تھی مگر متعلقہ حکام اسے ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے مگر وہاں موجود کچھ ”عناصر“ نے اسے کسی بیرونی ہاتھ کے ذریعے افشا کر دیا۔ اسکے برعکس اگر سرے سے کوئی واقعہ رونما نہ ہوا ہو تو اس حوالے سے کوئی من گھڑت سٹوری خبر بنا دی جائے تو اسے ”لیک“ کا نام نہیں دیا جا سکتا ۔یہ خبر ”لیک“ ہوئی تھی یا کسی کے ذہن رسا کی پلانٹڈ اور من گھڑت تھی؟ ملک کے عسکری‘ سیاسی اور عوامی حلقے یہ حقیقت جاننے کے منتظر ہیں۔