یہ محض ایک خیال یا تاثر نہیں بلکہ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میںقانون کی حکمرانی نہیں ہے۔ قانون صرف غریب اور بے بس غریب اور بے بس عوام کے لئے حرکت میں آتا ہے۔ حکمران طبقہ اور دیگر اہل ثروت قانون کو اپنے پاﺅں تلے روندتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک بھارتی سکھ کو جب بجلی کا بل زیادہ آیاد تو اس نے مودی کے خلاف نہ صرف واویلا کیا بلکہ اپنے گھر کے اوپر پاکستانی پرچم لہرا دیا تو بھارتی پولیس نے فوراً اسکے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کر کے گرفتار کرلیا۔ ہمارے ہاں قائدایم کیو ایم جو کہ ”غدار اعظم“ ہیں۔ آغاز سے ہی وہ انڈیا دوستی اور پاکستان دشمنی میں سب سے آگے ہیں۔ ”را“ کے ساتھ ان کے تعلقات کے واضح ثبوت ہیں۔ کراچی میں وہ خون کی ہولی عرصہ سے کھیل رہے ہیں۔ 22 اگست کو پاکستان کے خلاف کھلم کھلا نعرے لگوائے۔ وزیراداخلہ نے انکے خلاف معمولی کارروائی بھی کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ فاروق ستار کی ایم کیو ایم نے اپنے سابقہ قائد ”غداراعظم“ کے خلاف ”مذمتی“ قرار داد منظور کرائی مگر وزیرداخلہ جن کو فوراً الطاف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ درج کرنا چاہئے تھا یہ ایک قانونی تقاضا بھی تھا مگر ”با اصول“ اور قانون کی پاسداری کے ”دعویدار“ چودھری نثار نے چپ سادھ رکھی ہے۔ فاروق ستار نے کئی بار کہا ہے کہ وزیراعظم نے تو الطاف بھائی کو غدار بھی نہیں کہا ہے۔ برطانیہ اگر الطاف کے خلاف کارروائی نہیں کرنا چاہتا آپ کو تو یہ حق حاصل ہے مگر خاموشی چہ معنی دارد؟ مشرف کے خلاف موجودہ حکومت نے آرٹیکل 6 لگانے کے دعوے کئے۔ خصوصی عدالت بنائی۔ ججوں اور وکلاءکو خوب نوازا۔ مشرف کے خلاف دیگر بھی کئی مقدمات ہیں۔ انجام کیا ہو؟ خصوصی عدالت بھی ختم کردی گئی اور مشرف کا نام جو کہ E.C.L میں تھا۔ وزیرداخلہ جوکہ ”پریس کانفرنس“ کرنے میں مہارت رکھتے ہیں نے فرمایا کہ مشرف تین چار ہفتوں کے بعد واپس آجائیں گے اور آکر اپنے مقدمات کا سامنا کریں گے اب چودھری نثار قوم کو بتائیں کہ مشرف کو وہ کب واپس لا رہے ہیں تاکہ آرٹیکل 6پر بھی عملدرآمد ہوسکے۔ انسان بات وہ کرے جس پر پورا اتر سکے۔ ن لیگ کو مشرف کے خلاف یہ ”ڈرامہ بازی“ کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی آئین کے اندر فوج کی بھی حدود متعین ہیں۔ عوام تو فوج کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ مگر حکمران طبقہ اپنے ”کرتوتوں“ کی وجہ سے فوج سے خائف رہتا ہے۔ خبر لیکس کی وجہ سے پرویز رشید سے استعفیٰ لیا گیا۔ اب جس شخص سے استعفیٰ لیا گیا۔ تحقیق و تفتیش بھی اس سے کی جانی چاہئے مگر چودھری نثار نے کہا کہ کمیٹی بنے گی بس مگر پرویز رشید سے نہیں پوچھا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ نیشنل سکیورٹی کے حوالے سے جس نے بھی خبر لیک کی ہے۔ اس کے خلاف بھی غداری کا مقدمہ فوراً درج کر کے کٹہرے میں لانا چاہئے مگر ظاہر ہے کہ خبر لیک کرنے والا بھی کوئی حکومتی شخص ہوگا اور وزیر داخلہ چودھرنی نثار اسے ”بچانے“ میں اہم کردار ادا کریں گے۔ یہ کہاں کی حکمرانی اور قانون کی پاسداری ہے؟ نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملد آمد نہ ہونے کی وجہ سے پی پی پی بھی وزیر داخلہ سے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہی ہے۔ وزیرداخلہ صاحب ذرا وضاحت فرما دیں کہ لال مسجد والوں کے خلاف کارروائی کس قانون کے تحت نہیں کی گئی؟ یکم نومبر کے بعد ”پولیس دربار“ منعقد کیا گیا جس میں وزیرداخلہ نے پولیس کی حالہ کارکردگی کو سراہا کہ انہوں نے پی ٹی آئی کے نہتے کارکنوں کو خوب تشدد کا نشانہ بنایا نہ صرف یہ بلکہ انہیں شاباش کے علاوہ ان کی تنخواہیں بھی بڑھا دی گئیں۔ وزیرداخلہ شاید بھول گئے کہ اسی پولیس کی اندھا دھند شیلنگ سے دو معصوم شہری بھی فوت ہوگئے۔ وزیرداخلہ نے ان کا نام لینا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ وزیرداخلہ صرف ن لیگ کے نہیں بلکہ پوری قوم کے وزیرداخلہ ہیں۔ انہیں ان دو فوت ہونے ولوں کے گھر جاکر تعزیت اور معذرت کرنی چاہئے تھی۔ اگر وزیرداخلہ قانون کی حکمرانی کے دعویدار ہیں تو انہیں الطاف غدار کے خلاف فوراً آرٹیکل 6 کا مقدمہ درج کرنا چاہئے اور مشرف کو وعدے کے مطابق واپس لا کر کارروائی عمل میں لانی چاہئے۔ قانون کی حکمرانی صرف باتوں سے ہی نہیں بلکہ عملی طور پر نظر بھی آنی چاہئے۔ حیرت ہے کہ خبر لیکس کا معاملہ بھی وزیرداخلہ ”کمیٹی“ کی نذر کر رہے ہیں۔ اگر یہ خبر لیک پی ٹی آئی کے کسی رکن نے کی ہوتی تو غداری کا مقدمہ فوراً درج ہو جاتا!!