یہ قصہ ہے جب کا کہ آتش جواں تھا۔ جہانگیر بدر اور راقم پنجاب یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے۔ جہانگیر بدر 1968ء میں پنجاب یونیورسٹی ہیلی کالج آف کامرس کی سٹوڈنٹ یونین کے صدر منتخب ہوئے۔ ان کا شمار سٹوڈنٹ لیڈروں میں ہونے لگا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی کرشماتی شخصیت نے لوئر مڈ ل کلاس کے طلبہ اور محنت کش عوام کو متاثر کیا۔ جہانگیر بدر نے سٹوڈنٹ لیڈر راشد بٹ کے ہمراہ بھٹو صاحب سے ملاقات کی اور انکی محبت میں گرفتار ہوگئے۔ پنجاب یونیورسٹی اسلامی جمعیت طلبہ کا مضبوط گڑھ تھا جہانگیر بدر نے 1970ء کے عام انتخابات کے بعد حافظ محمد ادریس اور 1971ء میں حفیظ خان کے مقابلے میں پنجاب یونیورسٹی کا انتخاب لڑا۔ وہ پروگریسو طلبہ کے متحدہ محاذ کے اُمیدوار تھے مگر دونوںبار انتخاب ہار گئے البتہ پروگریسو سٹوڈنٹس گروپ کے لیڈر بن کر ابھرے۔ راقم 1970ء کے انتخابات میں پی پی پی نیو سمن آباد پرائمری یونٹ کا صدر تھا۔ پی پی پی پنجاب کے صدر بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید نے اسی انتخابی حلقے میں امیر جماعت اسلامی میاں محمد طفیل کے مقابلے میں قومی اسمبلی کا انتخاب واضح مارجن سے جیتا۔ راقم کا شیخ محمد رشید سے گہرا نظریاتی تعلق پیدا ہوگیا اور انکی سفارش پر بھٹو صاحب نے راقم کو 1972ء میں پی پی پی پنجاب کا سیکریٹری اطلاعات نامزد کردیا۔ جہانگیر بدر طلبہ اور پی پی پی کی سیاست میں متحرک رہے۔ لاہور اندرون شہر کے زون کے نائب صدر بن کر پارٹی تنظیم کا حصہ بن گئے۔ اس زون کے صدر مرزا اکرم بیگ تھے۔ بھٹو صاحب نے کارکنوں کی سیاسی و نظریاتی تربیت کیلئے سٹڈی سرکل تشکیل دیا جس میں ہم دونوں نے سرگرم کردار ادا کیا۔ لاہور کے صدر ڈاکٹر مبشر حسن سٹڈی سرکل کے انچارج تھے۔ راقم 1977ء کے انتخابات میں ایم پی اے منتخب ہوا۔ بھٹو صاحب جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے بعد نظر بندی ختم ہونے پر لاہور آئے تو عوام کے سمندر نے ان کا استقبال کیا۔ مولانا شاہ احمد نورانی اتفاقاََ جیالوں کے نرغے میں آگئے اور سیاسی انتقام کا نشانہ بنے۔ اس واقعہ کے بعد جہانگیر بدر اور اسلم گل کو فوجی عدالت نے ایک سال قید بامشقت کی سزا سنا کر کوٹ لکھپت جیل بھیج دیا۔
راقم نے پارٹی لائین کے مطابق باضابطہ اعلان کرکے داتا دربار سے گرفتاری پیش کی۔ سمری ملٹری کورٹ سے ایک سال قید بامشقت دس کوڑوں کی سزا پانے کے بعد کوٹ لکھپت جیل پہنچ گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو بھی کوٹ لکھپت جیل میں نظر بند تھے۔ جہانگیر بدر کی والدہ انکو بادشاہ کہہ کر پکارتی تھیں۔ وہ سپرنٹنڈنٹ جیل حمید اصغر عرف پستول سے ذاتی تعلق کی بناء پر جیل کے ’’بادشاہ‘‘ بن چکے تھے۔ انہوں نے جیل کے اندر اسیر کارکنوں سے پورا تعاون کیا۔ جہانگیر بدر، میاں منیر، ناظم حسین شاہ، حاجی محمد طارق، محمد جاوید اور راقم کوڑے کھانے والے کارکنوں کے اولین گروپ میں شامل تھے۔ جیل کی تلخ و شیریں یادیں کالم کے حجم میں نہیں سما سکتیں۔ پی پی پی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات مولانا کوثر نیازی کے جنرل ضیاء الحق سے خفیہ رابطوں کی خبروں کے بعد بھٹو صاحب نے مولانا کو فارغ کرکے راقم کو مرکزی سیکریٹری اطلاعات نامزد کردیا۔ میری درخواست پر جہانگیر بدر کو سیکریٹری اطلاعات پنجاب اور ناظم حسین شاہ کو سیکریٹری فنانس پنجاب نامزد کیا گیا۔ جہانگیر بدر سیکریٹری اطلاعات کے منصب کیلئے راضی نہ ہوئے اور کوٹ لکھپت جیل میں اسیر رہنما فاروق لغاری کی سفارش پر پی پی پی پنجاب کے ایڈیشنل سیکریٹری جنرل نامزد ہوگئے۔ جیل سے رہائی کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کی ہدایت پر ہم دونوں روپوش ہوکر مارشل لاء کیخلاف مزاحمتی جمہوری تحریک کو منظم کرنے لگے۔ روپوشی کی حالت میں ہم دونوں محترمہ بے نظیر بھٹو کے پارٹی اجلاسوں میں شرکت کیلئے سرگودھا، راولپنڈی اور پشاور پہنچے۔ جہانگیر بدر حاضر دماغ شخصیت اور بہترین ڈرائیور تھے۔ وہ پولیس کے ناکوں سے بچتے رہے جو ہماری گرفتاری کیلئے چوکس ہوچکی تھی۔ بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد جب پنجاب کے کارکن اور لیڈر اظہار تعزیت کیلئے 70کلفٹن کراچی جانے لگے تو محترمہ بے نظیر بھٹو نے راقم کو ہدایت کی کہ راقم یا جہانگیر بدر میں سے کوئی ایک انکی معاونت کیلئے کراچی پہنچے۔ راقم چوں کہ اپنے والد کے کاروبار ’’گلوب پبلشرز‘‘ سے منسلک تھا لہذا جہانگیر بدر کراچی پہنچ گئے اور محترمہ کی ٹیم کا حصہ بن گئے۔
1980-81ء میں شیخ محمد رشید سینئر وائس چیئرمین کی حیثیت میں روپوش رہ کر کے ایم آرڈی کی تحریک کو منظم کررہے تھے۔ راقم نے ایک سال روپوش رہتے ہوئے انکے ساتھ کام کیا۔ جنرل ضیاء الحق نے مجھے ٹارگٹ کرلیا اور میں بادلِ نخواستہ بیگم نصرت بھٹو کی اجازت سے جلاوطنی پر مجبور ہوا۔ جہانگیر بدر میدان میں ڈٹے رہے اور ایم آر ڈی کیلئے فعال اور سرگرم کام کرتے رہے۔ انہوں نے پی پی پی پنجاب کے صدر کی حیثیت سے 1986ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے بے مثال استقبال کیلئے مرکزی کردار ادا کیا۔ وہ جلسے جلوس اور ڈھول ڈھمکے کی عوامی سیاست کے ماہر تھے اور بلا کا حافظہ رکھتے تھے۔ جہانگیر بدر 1988ء میں ایم این اے منتخب ہو کر وفاقی وزیر برائے پٹرولیم گیس، سائنس و ٹیکنالوجی بن گئے۔ وہ عملیت پسند سیاست دان تھے ان کو تعلقات بنانے اور ان سے کام لینے کا فن خوب آتا تھا۔ محترمہ نے 1990ء کی انتخابی مہم کے دوران ریلوے سٹیڈیم میں خطاب کے دوران کہا کہ ’’اگر لاہور میں میاں نواز شریف کے بھائی ہیں تو میرے بھی لاہور میں قیوم نظام اور جہانگیر بدر دو بھائی ہیں‘‘۔ جہانگیر بدر پی پی پی کے واحد جیالے لیڈر ہیں جو دوبار پنجاب کے صدر مرکزی جنرل سیکریٹری، دو بار سینٹر، دو بار وفاقی وزیر اور بلاول بھٹو کے سیاسی مشیر نامزد ہوئے۔ انہوں نے ثابت قدمی کے ساتھ چار آمروں جنرل ایوب، جنرل یحییٰ ، جنرل ضیاء الحق ، جنرل مشرف کا مقابلہ کیا اور بھٹو شہید سے بلاول بھٹو تک وفاداری کیساتھ پی پی پی کے ساتھ جڑے رہے۔ جیالوں کو اپنے طبقے کے لیڈر سے جائز توقعات ہوتی ہیں اس سلسلے میں جیالوں کے جہانگیر بدر سے گلے شکوے چلتے رہے۔ بھٹو شہید کی کرشماتی شخصیت اور نظریاتی عوامی سیاست کا معجزہ تھا کہ لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں نوجوان سیاست اور حکومت کے اہم مناصب تک پہنچ گئے۔ جنرل ضیاء الحق نے ایک ظلم یہ بھی کیا کہ پاکستان کی سیاست کو ایک بار پھر تاجروں، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے گھر کی لونڈی بنادیا جن کی انتہا درجے کی مفاد پرستی نے پاکستان کو سنگین خطرات سے لاحق کردیا۔ اگر سیاست میں لوئر مڈل کلاس کا کردار موجود رہتا تو آج پاکستان بہتر حالت میں ہوتا۔ آصف زرداری نے جب پی پی پی کی عوامی نظریاتی سیاست کو ’’مفاداتی سیاست‘‘ میں تبدیل کردیا تو جہانگیر بدر سخت رنجیدہ رہتے۔وہ خاموش رہے اور کھل کر اختلاف نہ کرسکے۔
جہانگیر بدر نے جمہوریت اور سیاسی قیادت پر معیاری کتب تحریر کیں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے محترمہ بے نظیر بھٹو کے سیاسی فلسفے اور ویژن پر ڈاکٹریٹ (پی ایچ ڈی) کی ڈگری حاصل کی۔ گزشتہ دو سالوں سے وہ صحت کے مسائل کا شکار رہے۔ راقم کا ان سے آخری دم تک رابطہ رہا انکی خواہش تھی کہ لاہور میں معیاری تھنک ٹینک تشکیل دیا جائے اور کارکنوں کی سیاسی تربیت کیلئے سٹڈی سرکل کا آغاز کیا جائے۔ بلاشک جہانگیر بدر پی پی پی کا انسائیکلو پیڈیا تھے۔ وہ پی پی پی کی تاریخ بھی قلمبند کررہے تھے۔ انکی وفات سے پارٹی میں ناقابل تلافی خلا پیدا ہوا ہے وہ ہنس مکھ مرنجاں مرنج شخصیت تھے اور ہر ایک سے بازو کھول کر اور جھپی ڈال کر ملتے تھے۔ انکی سیاسی جدوجہد پر کتاب لکھی جانی چاہیئے۔ انکے جنازے میں پارٹی قائدین کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں پرانے جیالے اور تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما شریک ہوئے۔ پاکستان کے چاروں صوبوں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے پارٹی رہنمائوں نے جنازے اور رسم قل میں شرکت کی۔ جہانگیر بدر کی جدوجہد سے بھرپور کامیاب سیاسی زندگی میں انکی بیگم رخشندہ بدر نے قابل ستائش کردار ادا کیا اور آزمائشوں کے دوران حوصلہ نہ ہارا۔ بلاول بھٹو نے جہانگیر بدر کی وفات پر تین دن سوگ کا اعلان کرکے اور مرحوم کے گھر آکر خاندان سے تعزیت کی اور پی پی پی کے جیالوں کو حوصلہ افزاء پیغام بھیجا۔ جہانگیر بدر کیلئے لاہور میں معیاری تعزیتی ریفرنس منعقد کیا جانا چاہیئے۔ یہ ذمے داری جہانگیر بدر کے دست راست اسلم گل ہی پوری کرسکتے ہیں۔ جہانگیر بدر نے کامیاب، بھرپور اور متحرک زندگی گزاری۔ اللہ انکی کمزوریوں سے درگزر کرے اور انکے درجات بلند کرے انکی طویل سیاسی جدوجہد پر یہ شعر صادق آتا ہے۔
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مرجائوں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جائوں گا
سیاسی ہمسفر جہانگیر بدر
Nov 19, 2016