برادر مُلک جمہوریہ تُرکیہ کے صدر جناب رجب طیّب اردگان کا دَورہ پاکستان کامیاب رہا۔ 16 نومبر کو مہمان صدر جمہوریہ تُرکیہ کی خاتونِ اوّل محترمہ امینہ اردگان اور جمہوریہ تُرکیہ کی اہم شخصیات کو اپنے ساتھ لا کر اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر اُترے تو اُن کا پُرتپاک استقبال کِیا گیا۔ پاک فوج کے ایک چاق و چوبند دستے نے تُرک صدر کو گارڈ آف آنر پیش کِیا۔
دورہ¿ اسلام آباد ۔ لاہور!
مہمان صدر اور اُن کی ٹیم کا استقبال وزیراعظم میاں نواز شریف، خاتونِ اوّل بیگم کلثوم نواز، اُن کی بیٹی مریم نواز اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سمیت وفاقی کابینہ کے ارکان نے کِیا۔ پروٹوکول کا مسئلہ تھا وگرنہ شاید ہمارے ”صدرِ سُخن وَر“ جناب ممنون حسین بھی مہمان صدر کے لئے دیدہ¿ و دِل فرشِ راہ کئے ائیر پورٹ پر موجود ہوتے۔ مہمان صدر کے استقبال کے لئے وزیراعلیٰ پنجاب کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے وزرائے اعلیٰ ائیر پورٹ پر اِس لئے کھڑے نہیں ہُوئے کہ مہمان صدر کی مصروفیات صِرف اسلام آباد اور لاہور تک محدود تِھیں۔
صدرِ پاکستان سے مذاکرات
مہمان صدر نے ایوانِ صدرِ میں صدر ممنون حسین سے "One On One" مذاکرات کئے۔ دونوں صدور نے دونوں ملکوں میں دفاعی اور تجارتی تعاون اور انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں پر اتفاق کِیا اور اِس نُکتے پر بھی کہ ”مسئلہ کشمیر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کِیا جائے۔ مہمان صدر نے ایوانِ صدر میں استقبالیہ تقریب سے بھی خطاب کِیا اور کہا کہ ”سی پیک کا منصوبہ عالمی امن و استحکام کا ذریعہ بنے گا“۔
مرحوم صدر جنرل ضیاءاُلحق کا مزار
جب بھی کوئی غیر ملکی حکمران پاکستان کے دورے پر آتا ہے تو اُسے کراچی میں بانی¿ پاکستان حضرت قائداعظم کے مزار اور لاہور میں مصّور پاکستان علاّمہ اقبال کے مزار پر حاضری کے لئے لے جایا جاتا ہے۔ صدر جمہوریہ تُرکیہ کا کراچی جانے کا کوئی پروگرام نہیں تھا۔ وہ لاہور تشریف لے گئے لیکن اُنہیں علاّمہ اقبال کے مزار پر حاضری کے لئے نہیں لے جایا گیا۔ 17 اگست 1988ءکو صدر جنرل ضیاءاُلحق ہوائی حادثے میں جاں بحق ہُوئے اور اسلام آباد میں اُن کی تدفین کے موقع پر میاں نواز شریف نے اعلان کِیا تھا کہ ”مَیں صدر جنرل ضیاءاُلحق کے مِشن کو پورا کروں گا“۔ مرحوم صدر جنرل ضیاءاُلحق کا مزار اسلام آباد میں ہے۔ اگر وزیراعظم نواز شریف صدر رجب طیّب اردگان کو فاتحہ خوانی کے لئے وہاں لے جاتے تو کِتنا اچھا ہوتا؟
مہمان صدر پارلیمنٹ میں
18 مئی 2016ءکو چشمِ فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ قومی اسمبلی کے ارکان نے متفقہ طور پر اور بلند ترین آوازوں میں چند ہی منٹ میں ارکانِ پارلیمنٹ کی ”تن خواہ“ تین گُنا اور الاﺅنسز دس گُنا کر دیئے تھے۔ 17 نومبر کو صدر جناب رجب طیّب اردگان نے ہماری خوش نصیب پارلیمنٹ ارکان سے خطاب کِیا اور مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرنے پر زور دِیا۔ امتِ مسلمہ سے متحد ہونے کی اپیل کی اور یہ بھی کہا کہ ”القاعدہ اور داعش کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں“ اور یہ کہ ”فتح اللہ گولن کی تنظیم پاکستان کے لئے بھی خطرناک ہے“۔
” گولن کی تنظیم سے خطرہ؟“
16 جولائی 2016ءکو پوری دُنیا کے ناظرین نے الیکٹرانک میڈیا پر جمہوریہ تُرکیہ میں صدر رجب طیّب اردگان کے خلاف فوجی بغاوت کو ناکام بنانے کے مناظر دیکھے۔ صدر اردگان نے تو اپنے موبائل پر عوام سے خطاب کِیا تھا اور تُرک عوام باغی فوجیوں کے سامنے سینہ تان کر سڑکوں پر آگئے اور اُن کے ٹینکوں پر چڑھ گئے۔ ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے۔ صدر رجب طیّب اردگان اور اُن کی حکومت کا مو¿قف ہے کہ ”جولائی کی ناکام بغاوت کا ذمہ دار امریکہ میں پناہ گزین ترک مذہبی سکالر اور شاعر فتح اللہ گولن تھا“۔ پاکستان میں جرائم پیشہ اور ہتھیار بند مذہبی گروہوں کی قیادت کرنے والے کئی فتح اللہ گولن ناکام ہو چکے ہیں۔ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں پاک فوج کے آپریشن ”ضرب اُلعضب“ نے انہیں ناکام بنا دِیا ہے۔ یوں بھی پاکستان کی فوج میں "Counter Coup" کا رواج نہیں ہے۔
”تُرکیہ اور پاکستان کی جمہوریت؟“
صدر رجب طیّب اردگان اور وزیراعظم میاں نواز شریف کی ملاقات اور مذاکرات کے بعد دونوں قائدین کے مشترکہ اعلامیہ میں دونوں ملکوں کے تعلقات کی مضبوطی اور شراکت داری پر اطمینان کا اظہار کِیا اور ناکام فوجی بغاوت پر جمہوریہ تُرکیہ کے عوام کو سلام کِیا گیا ہے“۔ جمہوریہ تُرکیہ میں عوام نے فوجی بغاوت ناکام بنائی تو ہمارے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا تھا کہ ”پاکستان میں بھی جمہوریت کے مخالفین کو عِبرت حاصل کرنا چاہیے“۔ حالانکہ جمہوریہ تُرکیہ اور پاکستان کی جمہوریت میں بہت فرق ہے۔ جناب رجب طیّب اردگان 1994ءمیں استنبول کے میئر منتخب ہُوئے تھے اور میئر کی حیثیت سے اُنہوں نے استنبول کے عوام کے مسائل اِس محنت اور محبت سے حل کئے کہ وہ نہ صِرف استنبول بلکہ پورے ملک کے ہر دلعزیز لیڈر بن گئے۔ وہ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے بانی چیئرمین ہیں۔ مارچ 2003ءسے لے کر اگست 2014ءتک وزیراعظم رہے۔ پھر جمہوریہ تُرکیہ کے 12 ویں صدر منتخب ہُوئے۔ میاں نواز شریف کو گورنر پنجاب لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی نے سیاست میں متعارف اور پھر جنرل ضیاءاُلحق نے پروان چڑھایا۔ مسلم لیگ ن اور پاکستان میں جمہوریت نہیں ہے۔ ہماری تمام سیاسی جماعتوں نے کسی مغربی مفکر کے اِس قبول کو ایمان کا درجہ دے رکھا ہے کہ ”بدترین جمہوریت، بہترین آمریت سے اچھی ہوتی ہے“۔ پاکستان میں بہترین جمہوریت کا ظہور کب ہو گا؟ کوئی نہیں جانتا۔ جمہوریہ تُرکیہ کی پاکستان میں بہت عِزت ہے۔ پاکستانی عوام جمہویہ تُرکیہ کے بانی ”اتا تُرک“ (تُرکوںکے باپ) کی بہت عِزت کرتے ہیں۔ وہ اتاتُرک کا مرتبہ پہچانتے ہیں کہ اُنہوں نے اپنی جائیداد جمہوریہ تُرکیہ کے عوام کے لئے وقف کر دی تھی اور اُن کے بعد قائداعظم محمد علی جناح نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ یہ الگ بات کہ عُلمائے سُو نے اُمّتِ مسلمہ کے اِن دونوں لیڈروں کے خلاف کُفر کے فتوے دیئے اور وہ رُسوا بھی ہُوئے۔
صدر جمہوریہ تُرکیہ سے بھی ”ذاتی تعلقات؟“
جناب ذوالفقار علی بھٹو کے بہت سے غیر ملکی حکمرانوں سے ذاتی تعلقات تھے لیکن وہ اُنہیں پھانسی کے پھندے سے نہیں بچا سکے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے غیر ملکی حکمرانوں سے تعلقات کی بناءپر اپنے والد کی شہادت دو بار کیش کرائی اور وزیراعظم منتخب ہُوئیں۔ محترمہ کے قتل کے بعد اُن کے نان گریجوایٹ شوہر آصف علی زرداری صدرِ پاکستان منتخب ہونے میں کامیاب رہے لیکن اب پاکستان سے باہر ہیں اور آل پاکستان مسلم لیگ کے صدر جنرل (ر) جناب پرویز مشرف بھی۔ بہرحال میاں نواز شریف غیر ملکی حکمرانوں (خاص طور پر مسلم ممالک کے حکمرانوں) سے تعلقات کی بناءپر کامیاب رہے۔ اُن کے بچوں کی صفائی میں قطر کے شہزادہ حماد بن جاسم کا خط کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ صدر رجب طیّب اردگان نے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو ”بھائی“ کہہ کر پکارا اور مریم نواز کی کامیابی کی پیش گوئی کر دی لیکن میاں حمزہ شہباز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر پس منظر میں ہی رہے۔ میری دُعا ہے کہ آئندہ شریف خاندان کے کسی فرد کو اپنی صفائی میں کسی مسلمان ملک کے شہزادے کے خط کی ضرورت ہی نہ پڑے؟