ابھی دو روز قبل ہی لاہور پریس کلب نے میرے ساتھ ایک بھرپور اور خوشگوار نشست میں صحافی برادری سے متعلق معاملات کی یادیں تازہ کیں۔ جب ضیاءالحق کی جرنیلی آمریت کے دوران لاہور پریس کلب کو ضیاءآمریت کے مہروں کے تسلط سے آزاد کرانے کے لئے صحافی برادری کی چیدہ چیدہ شخصیات کی جانب سے شروع کی گئی دستخطی مہم کا تذکرہ ہوا تو اس میں ہمارے دیرینہ رفیق و دوست اور باوقار فوٹو جرنلسٹ اظہر جعفری کا بار بار تذکرہ آیا۔ پریس کلب کے صدر میاں شہباز‘ سیکرٹری شاداب ریاض، نائب صدر عبدالمجید ساجد کے علاوہ اس ”تقریبِ اعزاز“ میں شریک سینئر صحافیوں خاور نعیم ہاشمی، سید انور قدوائی، خواجہ فرخ سعید، تاثیر مصطفی، جلیل الرحمان اور دوسرے احباب نے بھی اظہر جعفری کے لئے نیک کلمات کا اظہار کیا۔ سوشل میڈیا پر ان کی علالت کی خبریں دو اڑھائی ہفتے سے زیر گردش تھیں اور میں نے اس تقریب میں ہی ارادہ باندھ لیا تھا کہ اپنی پہلی ہی فرصت میں اپنے اس دیرینہ دوست کی عیادت کو جاﺅں گا اور لاہور پریس کلب کے 80 کی دہائی میں احیاءکے حوالے سے ان سے وابستہ یادیں ان کے ساتھ شیئر کروں گا۔ مگر آہ‘ یہ فرصت ملنے سے پہلے ہی دستِ قضا نے ہمارے پیارے دوست کو ہم سے چھین لیا۔ آج اظہر جعفری کی وفات کی خبر سنتے ہی شعیب بن عزیز کا یہ شعر بے اختیار زبان پر آ گیا
کوئی دستِ اجل کو بڑھ کے روکے
ہمارے لوگ مرتے جا رہے ہیں
پچھلے ہفتے عزیز دوست جہانگیر بدر سے ہونے والی ابدی جُدائی سے بھی دل رنجور تھا اور کیفیت ایسی بنی ہوئی تھی کہ
درد ایسا ہے کہ جی چاہے ہے، زندہ رہئے
زندگی ایسی کہ مر جانے کو جی چاہے ہے
بے شک موت اٹل اور برحق ہے۔ سب نے موت کی وادی میں جانا ہے، ہر ایک نے موت کا مزہ چکھنا ہے کہ
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج تمہاری کل ہماری باری ہے
اور پھر غالب بھی تو یہی کہتے دستِ اجل کے قابو آ گئے تھے کہ
لائی حیات آئے، قضا لے چلی، چلے
اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے
مگر دیرینہ ہمدموں کا اچانک آنکھیں موند لینا اور ازلی روٹھ جانا دل پر جو گھاﺅ لگاتا ہے وہ حیاتِ فانی کے آخری لمحات تک مندمل ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ اظہر جعفری بھی ہمارا ایسا یار دلدار تھا کہ جہاں پر بھی ہوتا رونقِ محفل بنا نظر آتا۔ اس نے ہم سے منہ موڑا ہے تو میرا اپنا ایک پنجابی شعر ہی مجھے کچوکے لگانے لگا ہے
گھر دی محفل تیرے نال ای سجدی سی
اپنے گھر وِچ وسّن نُوں ہن جی نہیں کردا
میری اظہر کے ساتھ دوستی کا آغاز بھی 1983ءمیں لاہور پریس کلب کے احیاءکے لئے شروع ہونے والی تحریک سے ہوا تھا۔ اس سے پہلے اظہر کے ساتھ رسمی علیک سلیک ضرور تھی مگر اس نے مال روڈ والے ڈان کے بیورو آفس سے پریس کلب کے احیاءکے لئے محمود زمان، صادق جعفری اور انجم رشید کو ساتھ ملا کر بیڑہ اٹھایا تو اس کے تحرک نے مجھے بھی اس تحریک کا حصہ بنا دیا۔ میں اس سے قبل ضیاءآمریت کا جبر بھگت چکا تھا کہ 1979ءمیں ریڈیو پروڈیوسر کی اسامی کے لئے مجھے کال لیٹر بھجوانے کے باوجود یہ کہہ کر کمرہ امتحان کے گیٹ پر ہی روک لیا گیا تھا کہ ہمیں آپ کے بارے میں ”اوپر“ سے حکم ملا ہے ہم آپ کو کمرہ امتحان میں بیٹھنے کی ہرگز اجازت نہیں دے سکتے۔ بعد ازاں میں نے اس جبر پر ذات باری تعالیٰ کا شکر ہی ادا کیا کہ میں سرکاری نوکری کرنے سے بچ گیا مگر ضیاءجبر کا یہ بھی ایک انداز تھا جس کا آج ضیاءآمریت کے شکنجے سے لاہور پریس کلب کو نکالنے کی تحریک کے حوالے سے تذکرہ ہو گیا ہے۔ اس کیلئے صحافی برادری میں دستخطی مہم شروع کرنے والی چار رکنی کمیٹی میں اظہر جعفری پیش پیش تھے جو مختلف اخبارات سے وابستہ دو سو کے قریب صحافیوں کی رضا مندی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور پھر اس فہرست کو ہی لاہور پریس کلب کی ووٹرز لسٹ میں تبدیل کرکے جولائی 1983ءمیں اس فہرست کی بنیاد پر رشید صدیقی کے ہتھے چڑھے پریس کلب کے متوازی لاہور پریس کلب کی گورننگ باڈی تشکیل دے دی گئی۔ یہ گورننگ باڈی باقاعدہ انتخابات کے ذریعے چھ ماہ کیلئے تشکیل پائی کیونکہ پریس کلب کے آئین کے تحت ہر سال دسمبر میں کلب کے انتخابات ہونا طے پائے تھے۔ اس طرح پہلی گورننگ باڈی جولائی سے دسمبر 1983ءتک کی تشکیل پائی اور پھر بہترین صحافتی اقدار کی اس طرح بنیاد رکھی گئی کہ پریس کلب کے احیاءکی مہم چلانے والی چار رکنی کمیٹی نے خود انتخابات میں حصہ نہ لیا۔ اس طرح پہلی باڈی میں امتیاز راشد صدر اور چودھری قدرت اللہ سیکرٹری منتخب ہو گئے۔ پھر 1984ءکی گورننگ باڈی کیلئے دسمبر 83ءمیں انتخابات کا شیڈول جاری ہوا تو سینئرز کے احترام کی قابل قدر روایت ڈالتے ہوئے صدر کیلئے ضیاءآمریت کے عتاب کا نشانہ بننے والے ”مشرق“ کے ایڈیٹر عزیز مظہر کو متفقہ طور پر لاہور پریس کلب کا صدر منتخب کر لیا گیا۔ چنانچہ انتخابات سیکرٹری اور گورننگ باڈی کی چار نشستوں پر ہوئے۔ ان انتخابات میں سیکرٹری کیلئے اس وقت کے بھی معروف صحافی خاور نعیم ہاشمی کے مقابل میرا انتخاب عمل میں آیا۔ میں نے پریس کلب کے پلیٹ فارم پر ضیاءآمریت کے مخالف قومی سیاسی قائدین کو ”تجزیہ“ پروگرام کے تحت مدعو کرنے کا سلسلہ شروع کیا تو اظہر جعفری میرے ہمقدم رہے۔ ہمارا باہمی اعتماد کا یہ تعلق صحافی برادری میں ایک دوسرے کے مخالف دھڑوں میں شامل ہونے کے باوجود نہ صرف قائم رہا بلکہ مستحکم بھی ہوا۔ 1986ءمیں بھی مجھے پریس کلب کے انتخابات میں سیکرٹری کیلئے منتخب ہونے کا اعزاز ملا تو اظہر جعفری دوسرے دوستوں کی طرح میرے ہمقدم ہی رہے۔ اسی گورننگ باڈی نے لاہور کے صحافیوں کے متفقہ پریس کلب کی داغ بیل ڈالی تھی۔ اس کے مراحل طے ہونے کی ایک طویل داستان ہے جو میں نے تھوڑی بہت لاہور پریس کلب کی دو روز قبل کی نشست میں بیان کی ہے اور اس تذکرے کے دوران ہی اظہر جعفری کی یاد بھی تازہ ہوئی تھی۔ محترم حسین نقی اس گورننگ باڈی میں بلامقابلہ صدر منتخب ہوئے تھے جنہوں نے پریس کلب کو چلانے کیلئے وسائل نہ ہونے کے باعث رشید صدیقی گروپ والے پریس کلب کے ساتھ انضمام کی انہی کی جانب سے آئی تجویز بخوشی قبول کر لی تھی جس کی ہم نے گورننگ باڈی کے اجلاس میں منظوری لے کر دیال سنگھ بلڈنگ والے پریس کلب کے ساتھ انضمام کر لیا۔ پھر پریس کلب کی مشترکہ ووٹرز لسٹ کی تیاری کیلئے دو رکنی کمیٹی تشکیل پائی جس میں دونوں پریس کلبوں کا ایک ایک نمائندہ شامل تھا۔ مجھے اس کمیٹی کا رکن بننے کا بھی شرف حاصل ہوا۔ دوسرے رکن رشید صدیقی گروپ والے پریس کلب کے صدر ظفیر ندوی تھے۔ مشترکہ پریس کلب کے انتظامات بھی اس دو رکنی کمیٹی نے سنبھال لئے مگر یہ اتفاق رائے زیادہ عرصے تک قائم نہ رہ سکا اور رشید صدیقی گروپ معاہدے سے منحرف ہو کر مشترکہ ووٹرز لسٹ پر انتخابات سے انکاری ہو گیا چنانچہ معاملہ سول کورٹ تک آیا تو اس کیس کی پیروی کیلئے میرے ساتھ اظہر جعفری ہی سب سے زیادہ سرگرم رہے ہم نے یہ کیس جیت کر اسی مشترکہ ووٹرز لسٹ پر موجودہ پریس کلب کی پہلی گورننگ باڈی کے انتخابات کرانے کا اعزاز حاصل کیا۔ اظہر جعفری اس پریس کلب کے آغاز سے اپنے آخری سانس تک اس کے خیر خواہ اور اس کا حصہ بنے رہے۔ ان کی بطور فوٹو جرنلسٹ مہارت اپنی جگہ شاہکار ہے مگر صحافی برادری کے اتحاد کیلئے بھی انہوں نے خود کو وقف کر رکھا تھا۔ غالباً ثقلین امام کی صدارت کے دور میں پریس کلب کی ووٹرز لسٹ کی جانچ پڑتال کیلئے میری سربراہی میں سکرونٹی کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں اظہر جعفری بطور رکن بہت فعال رہے۔ ہم نے کلب کے آئین کے تقاضوں کے مطابق چھان پھٹک کر کے کلب کے اڑھائی سو کے قریب ارکان کی رکنیت منسوخ کر دی جس میں اظہر جعفری کی قوت ارادی کا زیادہ عمل دخل تھا۔ رکنیت سے محروم ہونے والے اس وقت کے غیر صحافی اور غیر مجاز حضرات نے ہمارے فیصلہ پر آسمان سر پر اٹھا لیا اور اس وقت کی گورننگ باڈی کے مخالف دھڑے نے بھی خوب واویلا کیا مگر ثقلین امام بھی دھن کے پکے نکلے اور انہوں نے ہمارے فیصلہ پر عملدرآمد کر کے دکھایا۔ ہمارے جگری یار اظہر جعفری نے آج آنکھیں موندی ہیں تو ہماری صحافی برادری کے کیسے کیسے تلخ و شیریں ادوار و لمحات یاد ماضی کو کھنگھال کر آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے ہیں۔ ابھی یہ سطور لکھ ہی رہا تھا کہ اچھی سیاسی قدروں کے امین سابق سپیکر سرحد اسمبلی حاجی عدیل کے انتقال کی خبر نے ایک نیا کچوکہ لگا دیا ہے۔ حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا۔ ان کے ساتھ بھی دیرینہ نیاز مندی رہی ہے۔ ان سے وابستہ یادیں بھی اُمڈی پڑی نظر آتی ہیں، انشاءاللہ اگلے کسی کالم میں اس کا تذکرہ کروں گا۔ فی الحال یہی شعر فضاﺅں میں طاری ہو کر حواس گم کر رہا ہے کہ
جو بادہ کش تھے پرانے، وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آب بقائے دوام لے ساقی