واشنگٹن (اے ایف پی+ صباح نیوز+ نوائے وقت رپورٹ) امریکی نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل مائیکل فلن کو مشیر قومی سلامتی‘ قدامت پرست سینیٹر جیف سیشنز کو اٹارنی جنرل اور مائیک پومپیو کو ڈائریکٹر سی آئی اے مقرر کر دیا ہے۔ تینوں نے اپنی نامزدگی قبول کرلی ہے۔ ٹرمپ اس سے قبل پریلبس کو چیف آف سٹاف اور سٹیفین بینن کو چیف سٹریٹجک قونصل مقرر کر چکے ہیں۔ واضح رہے نئے مقرر ہونے والے تینوں افراد ٹرمپ کے قریبی رفقا ہیں۔ چیف سیشنز ماضی میں غیرقانونی امیگریشن اور اخراجات کم کرنے کی آواز بلند کر چکے ہیں۔ پومپیو ماضی میں اس رپورٹ کے شریک مصنف رہے ہیں جس میں لیبیا میں امریکی سفارتخانے پر حملے کے حوالے سے ہلیری کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ مائیکل فلن ماضی میں مسلمان عسکریت پسندوں کو عالمی استحکام کیلئے سب سے بڑا خطرہ قرار دے چکے ہیں۔ تجزیہ کار ان کے انتہا پسندانہ بیانات کو اسلامو فوبیا بڑھانے کا باعث قرار دیتے رہے ہیں۔ فلن کا روس اور چین کی طرف بھی جھکائو ہے۔ گذشتہ برس وہ روس میں ایک ڈنر کے دوران صدر پیوٹن کے قریب بیٹھے دیکھے گئے تھے۔ سی آئی اے کے نامزد سربراہ ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے پر شدید تنقید کر چکے ہیں۔ نامزد اٹارنی جنرل سیشنز بھی ایران ایٹمی معاہدے کے مخالف رہے ہیں۔ نامزد ڈائریکٹر سی آئی اے پومپیو بھی مسلم مخالف جذبات کے حوالے سے مصروف ہیں۔ وہ اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنیوالوں کی مذمت نہ کرنے والے مسلمان رہنمائوں کو بھی ’’ممکنہ شریک کار‘‘ قرار دے چکے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا دہشت گردی کے بعد امریکہ بھر میں مسلمان رہنمائوں کی خاموشی اس دہشت گردی میں ممکنہ شرکت ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ایران سے نیوکلیئر ڈیل ختم کرنے کا اشارہ دیدیا‘ نامزد سی آئی اے چیف مائیک پومپیو نے کہا ہے ایران سے خطرناک اور ناکام نیوکلیئر ڈیل ختم کر دوں گا‘ دہشت گردوں کے بڑے مددگار سے تباہ کن ڈیل ختم ہو گی۔ ٹرمپ نے کہا ہے نیشنل سکیورٹی ایڈوائز مائیکل فلن انتہا پسندی‘ دہشت گردی کو شکست دینے میں معاون ہوں گے‘ منتخب اٹارنی جنرل سینیٹر سیشنز ورلڈ کلاس قانونی فہم و فراست کے حامل ہیں۔ سی آئی اے ڈائریکٹر مائیک پومپیو ذہین اور جی دار سربراہ ثابت ہوں گے۔ دریں اثناء ٹرمپ اور نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز سٹالٹن برگ نے فون پر بات کی۔ دونوں نے نیٹو اتحاد کی اہمیت پر اتفاق کیا۔ دونوں نے انسداد دہشت گردی سمیت نئے سکیورٹی حالات میں نیٹو کے کام کرنے کے طریقے پر تبادلہ خیال کیا۔ دونوں نے اتفاق کیا کہ بوجھ کو شفاف طریقے سے تقسیم کرنے میں پیش رفت ہوئی ہے تاہم اس حوالے سے مزید کام کی ضرورت ہے۔ سٹالٹن برگ نے برسلز میں ایک انٹرویو کے دوران کہا مجھے یقین ہے ٹرمپ یورپ کی سکیورٹی اور نیٹو کیلئے امریکہ کے مضبوط عزم پر قائم رہینگے۔ نیٹو کو مضبوط رکھنا امریکہ کے مفاد میں ہے۔ اگلے سال نیٹو کانفرنس میں ٹرمپ کو خوش آمدید کہیں گے۔ دریں اثناء جاپان کے وزیراعظم شنزو ایبے نے کہا ہے کہ انہیں نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر 'بہت اعتماد' ہے اور وہ پراعتماد رشتہ بنا سکتے ہیں۔ جاپانی وزیراعظم نے ان خیالات کا اظہارگزشتہ روز نیویارک میں ٹرمپ ٹاور میں نومنتخب صدر کے ساتھ ملاقات کے بعد کیا۔90 منٹ تک جاری رہنے والی اس ملاقات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ملاقات اچھی رہی اور گرمجوشی کا ماحول تھا۔ جاپانی وزیراعظم اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ملاقات اس وقت طے پائی جب وزیراعظم شنزو ایبے نے ڈونلڈ ٹرمپ کو فون کیا اور صدارتی عہدہ جیتنے کے لئے مبارکباد دی اور بتایا کہ وہ براستہ نیویارک پیرو میں ایشیا پیسیفک کے تجارتی اجلاس میں شرکت کے لئے جاتے ہوئے ان سے ملاقات کرینگے۔ جاپانی وزیر اعظم ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر منتحب ہونے کے بعد پہلے عالمی رہنما تھے جنہوں نے ان سے ملاقات کی۔ انھوں نے کہا میں سمجھتا ہوں کہ دو قوموں کے درمیان بغیر اعتماد کے مستقبل میں شراکت داری عملی طور پر ممکن نہیں۔ جاپانی وزیراعظم نے یہ بھی بتایا دونوں رہنماؤں نے تفصیلی ملاقات کے لئے پھر ملنے کا ارادہ کیا ہے۔ ملاقات کے دوران ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا بھی موجود تھیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس سے ظاہر ہوتا ہے ایوانکا ٹرمپ انتظامیہ میں اہم کردار ادا کریں گی۔ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر ان دنوں وکیلوں سے مشاورت میں مصروف ہیں، جس کا مقصد وائٹ ہاوس میں اپنا مستقل کردار تلاش کرنا ہے، تاہم وائٹ ہائوس میں ان کے مستقل کردار پر قرابت داری کے قوانین کے تحت مقدمہ ہو سکتا ہے، اسی لئے انہیں مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ وائٹ ہاؤس کی ملازمت کے لئے کوئی تنخواہ وصول نہ کریں تو اس قانون سے بچا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف ٹرمپ کے وکلا نے یونیورسٹی طلبہ کی جانب سے دائر فراڈ کیس کی سماعت موخر کرانے کی تیاریاں کرلی ہیں۔ ’’ٹرمپ یونیورسٹی‘‘ کے طلبہ نے یونیورسٹی کیخلاف سیمینارز کے حوالے سے فراڈ کا مقدمہ کر رکھا ہے۔ ٹرمپ نے الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کاروبار کے انتظامات کیلئے دوسروں پر انحصار کرتے ہیں لہٰذا انہیں موردالزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔