ہمسفر کی یاد میں

جولائی 2016 میرے لئے غم کا سال ثابت ہوا۔12 جولائی 2016 کورابعہ ،میری بیگم اس دنیا سے چلی گئی۔ 21 جولائی 2016 کو ابّا جی نے آنکھیں بند کر لیں ۔دو برس قبل اپریل میں امّی جان بھی رخصت ہو گئی تھیں ۔ رابعہ کے ساتھ میری رفاقت سولہ برس تین ماہ رہی۔ 2000 میں ہماری شادی ہوئی تو وہ 21 سال اور میں 30 سال کا تھا ۔ہماری شادی ارینجڈ میرج تھی ۔دونوں خاندان اس سے پہلے ایک دوسرے کو نہیں جانتے تھے ،شادی کے بعد وقت نے دونوں خاندانوں کو یوں اکٹھا کیا کہ آج دونوں خاندانوں کو ملانے والی دنیا میں نہیں مگر دونوں ہی ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ۔ہم دونوں کی طبعیتوں میں بڑا فرق تھا ۔میرے اوپر خاموشی اور سنجیدگی کی چادر بڑی گہری تھی اور رابعہ شوخ اور چنچل۔ مَیں نے قہقہہ تو کیا لگانا تھا ،مسکراتا بھی کئی دنوں بعد تھا جب کہ وہ ہر دم مسکراتی، قہقہے لگاتی رہتی۔اپنے گھر میں تو وہ سب کی پسندیدہ تھی ہی ،ہمارے گھر میں بھی میرے سمیت اس نے سب کو اپنا بنا لیا ۔اور پھر مرتے دم تک اپنا بنائے رکھا ۔ اس کی موت پر اس کے اپنے تو دھاڑیں مار مار کر روئے ،وہ آنکھیں بھی اشکبار ہوئیں جو اسے صرف ایک بار ملے تھے ۔وہ اپنے چار بہن بھائیوں میں بڑی تھی اور میں چار بھائیوں میں سب سے چھوٹا ، وہ اپنے ماں باپ کی لاڈلی تھی اور میں اپنے ماں باپ کا انوکھا لاڈلا ۔ ۔ اور ہم دونوں ایک دوسرے کے لاڈلا اور لاڈلی تھے۔ سولہ برسوں کی رفاقت میں شروع کا وقت جس میں ہم ایک دوسرے کو سمجھے،جو بہت ہی مختصر تھا ،نکال کر اس کی زندگی کے آخری لمحوں تک ہم نے ایک دوسرے کو لاڈوں میں ہی رکھا ۔ ہمارے بچے نہیں تھے مگر یہ کمی ہمارے رشتے میں کبھی مسئلہ نہیں بنی۔ ہم دونوں کا رشتہ میا ں بیوی کے ساتھ ساتھ دوستی کا بھی تھا اور ہم ایک دوسرے کے لیے بچے بھی تھے۔ہرعورت کی طرح بچے اس کی زندگی کی شدید خواہش بھی تھے مگر اللہ کے فیصلوں کے سامنے انسان بڑا بے بس ہے ۔2011 میں اللہ تعالیٰ نے حج کی سعادت بخشی ۔رہنے کو اللہ تعالیٰ نے بہت اچھّا گھر دیا ۔مالی آسودگی بھی دی ۔وسعتِ قلبی مثالی تھی۔ ہر ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنااس کے لئے عبادت کا درجہ تھا ۔ہمارے گھر میں کام کرنے والی ماسی حمیدہ ہمارے گھر کا تیسرا فرد تھی۔یہی وجہ ہے کہ وہ آج بھی اُس کو یاد کرتے ہوئے منہ چھپائے آنسو بہاتی رہتی ہے۔اَسی سالہ ماسی کرم جو اکثر اس کے پاس آتی تھی،جنازے والے دن جنازہ گاہ میں 70 کلو میٹر کا سفر کر کے محض اس کا آخری دیداد کرنے کے لئے انتظار میں تھی۔اس کے جنازے میں شامل لوگوں کی کثیر تعداد اُس کے اچھے اخلاق کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ لعل پیر پاور پلانٹ ،جہاں میری جاب ہے ،میرے ساتھ کام کرنے والے تمام لوگ ،کالونی کی خواتین اس کے اخلاق کو آج بھی یاد کرتے ہیں ۔ کوئی پانچ برس قبل اس نے گھر کے باہر ٹھنڈے پانی کا کولر رکھوانا شروع کیا ،کبھی کبھی وہ کولر شربت سے بھی بھروا دیتی۔ سردیوں میں کبھی کبھی وہی کولر چائے سے بھروا کر رکھتی۔ماسی سے کہا ہوا تھا کہ مالی یا دوسرے کام کرنے والے لوگ جب کبھی چائے مانگیں ،بنا دو،میری اجازت کی ضرورت نہیں ۔ یہ اس کی زندگی کا ایک پہلو تھا ۔ دوسرا پہلو 2004 میں شروع ہوا جو اس کی موت پر ختم ہوا ۔جولائی 2004 میں ہمارا پہلا اور آخری بیٹا پیدائش سے قبل وفات پا گیا تو اس کی صحت کے مسائل شروع ہو گئے ۔رابعہ در اصل Liver Cirrhosis کی مریضہ تھی جس کا علم ڈاکٹر کو تھا ،مجھے نہیں تھا ۔حالت بگڑنے پر ڈاکٹرز کے مشورے پر مَیں اسے آغا خان ہسپتال کراچی لے گیا۔ جہاں گیارہ دنوں کے صبر آزما علاج کے بعد ڈاکٹر ز کے جواب دینے پر واپس ملتان لے آیا ۔ مجھے یاد ہے ہم دونوں اور رابعہ کے امّی ابو جب ملتان ائر پورٹ پر اترے تو سب رشتہ دار غم زدہ تھے ۔رابعہ اس وقت 24 گھنٹوں کی مصنوعی آکسیجن پر تھی جس کا انتظام گھر پر کر دیا گیا تھا ۔اللہ نے پھر ہومیو ڈاکٹر اسد وصی کی صورت میں ایک فرشتہ ہمیں دیا جن کے علاج سے رابعہ زندگی کی طرف لوٹ آئی۔مایوسیوں کے اندھیرے ختم ہو گئے۔2010 میں ڈاکٹر اَسد وصی کی اچانک وفات سے اس کا وہ علاج رک گیا ۔انگریزی ادویات کا سلسلہ ڈاکٹر نذیر ملک کے ساتھ چلتا رہا ۔بد قسمتی سے جگر کے جس مرض میں وہ مبتلا تھی اس کا واحد حل ٹرانسپلانٹ تھا ۔ پاکستان میں اس کا علاج اِسلام آباد میں شفاءانٹر نیشنل میں ہے مگر بہت قابل اعتماد نہیں ۔ ڈاکٹر نذیر صاحب کے مشورے پر 2015 میں جگر ٹرانسپلانٹ کے لئے انڈیا جانے کی تمام تیاریاں مکمل تھیں تو ملتان کے ایک اور ڈاکٹر اکرم ملک نے نہ جانے کا مشورہ دے دیا ۔ جولائی2016 میں اَب تیاری مکمل تھی ۔رمضان المبارک کے بعد ہنسی خوشی عید کی تیاری کر کے ملتان گئے،عید کے دن بخار ہوا ،عید کی وجہ سے ڈاکٹر ز نہیں تھے۔ عید کے تیسرے دن ڈاکٹر اکرم صاحب ملے ،جن کے مشورے سے ملتان کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں داخل کروایا۔نمونیہ کا شدید حملہ تھا ،جو جان لیوا ثابت ہوا ۔صرف چار دن بعد ڈاکٹروں کی اندھا دھند دوائیوں کے سامنے جگر نے بالکل کام چھوڑ دیا ۔ہنستی مسکراتی ،زندگی سے کبھی مایوس نہ ہونے والی رابعہ کبھی واپس نہ آنے کے لئے دنیا سے چلی گئی۔گزرے سولہ سالوں میں دو بار شفاءانٹر نیشنل اسلام آباد ،ڈاکٹرز ہسپتال لاہور ،آغا خان کراچی اور ملتان کے ڈاکٹرز کے بے شمار چکر اس کی زندگی نہ بچا سکے۔ پاکستان کی بد قسمتی ہے کہ اِبھی تک کوئی اچھّا سرکاری ہسپتال نہیں بن سکا جہاں جگر کے مریضوں کا علاج ہو سکے۔کاش کوئی دھرنا اس کے لئے بھی دے ۔ رابعہ میری زندگی کا بہترین ساتھی تھی ۔ آفس میں اس کا فون نہیں آتا تو بے سود انتظار ضرور کرتا ہوں ۔ہر جگہ وہ میرے ساتھ ہے بھی اور نہیں بھی ۔ کہاں کہاں میں اسے یاد نہیں کرتا ۔میری بیوی نہیں بچھڑی،میرا یار مجھ سے ہمیشہ کے لئے دور ہو گیا ۔ ملتان جاتا ہوں تو رابعہ کے امّی ، ابو ، بھائی بہن مجھے اکیلا پا کر اپنے آنسو چھپاتے ہیں۔اس کی تین سالہ بھتیجی معظمہ تو اپنی توتلی زبان میں یہ کہہ کر سب کو رلاتی ہے کہ” طارق انکل رابعہ خالہ کیوں نہیں آتی“ ؟۔ رابعہ نے اپنے مشکل وقت میں بھی امید کا دامن تھامے رکھا۔وہ میرے مشکل وقت کی بھی بے مثال ساتھی تھی ۔میری پیشہ ورانہ زندگی میں بھی اس کے مشورے بہت کام آتے تھے۔صلح جوئی اس کی شخصیت کا خاص جز و تھا اسی لئے وہ بچوں ،بڑوں،اور ہم عمروں میںیکساںہر دلعزیز تھی۔اپنے گھر میں بڑی ہونے کے ناتے بڑے فیصلوں میں بھی شامل ہوتی۔ اس کے علاج کے لئے جو بہترین کوششیں کی جا سکتی تھیں وہ کی گئیںسوائے جگر ٹرانسپلاٹ کے جس کے لئے اب تیاری تھی مگر اللہ کے فیصلوں کے سامنے انسان بے بس ہے۔میاں بیوی کا رشتہ بہت خوب صورت ہے۔ جن کے پاس یہ رشتہ باقی ہے ،اس کی قدر کریں ۔ گلے ، شکوے،نفرتیں ختم کر کے ایک دوسرے کے ساتھ جینا سیکھیں اور اَپنی زندگی جنت بنا لیں ۔ یہ زندگی دوبارہ ملے گی نہ یہ رشتے۔جب یہ رشتے نہیں رہتے تو ان کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔پھر اداسیوں کے پہاڑ ہوتے ہیں اور غموں کے پتھر جنہیں کبھی دور نہیں کیا جا سکتا۔اللہ سے دعا ہے کہ اللہ پاک رابعہ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔

ای پیپر دی نیشن