لفظوں کا کھیل بھی عجیب ہے۔ وہی بات جو بسا اوقات پڑھے لکھے انداز میں سمجھ نہیں آتی، سادہ انداز میں دل میں کچھ ایسی اترتی ہے کہ کچھ کہے اور کیے بِنا بات نہیں بنتی۔ گزشتہ اتوار عارف والا کے قریب بستی جٹّاں والی جانے کا اتفاق ہوا۔ چودھری نورے جٹ کا باپ اللہ کو پیارا ہو گیا تھا اور میں دس روز سے وہاںجانے کا سوچ رہا تھا کہ اس کے ساتھ تعزیت ہی کر لی جائے لیکن حالات ہی کچھ ایسے تھے کہ وہاں جانا نہ ہو سکا۔ اور گزشتہ ہفتے گیا۔
کوئی گیارہ ساڑھے گیارہ کا وقت ہو گا جب ہم نورے جٹ کے ہاں پہنچے۔ نورا، ڈیرے پر بوڑھے برگد تلے بیٹھا تھا۔ ہماری گاڑی کو آتا دیکھ کر ہماری طرف بڑھا۔ اپنائیت کے اس احساس پر خوشی بھی تھی اور شرمندگی بھی۔ بہر حال نورے کے قدموں اور گاڑی کی رفتار نے مجھے مہلت نہ دی کہ میں ان احساسات میں سے کسی ایک کا بھی ہو پا¶ں۔ نورے کی آنکھوں کی سوزش میں باپ کی موت کا غم تھا اور چہرے پر ہمیں خوش آمدید کہنے کی خوشی، اس لیے لازم تھا کہ خود سے نکل کر اس کی ڈھارس بندھائی جائے۔ خیر سلام دعا ہوئی، کچھ ابتدائی رسمی کلمات کا تبادلہ ہوا اور ہم فاتحہ خوانی کے لیے چار پائیوں پر بیٹھ گئے۔ دعائے مغفرت کے بعد اس کا نوجوان بھتیجا بگّا آ پہنچا۔ اس نے چائے کی ٹرے میری چار پائی کے قریب پڑی میز پر رکھی، ایک پیالی میری طرف بڑھائی، نورے اور دیگر عزیزوں کوچائے دینے کے بعد ایک کونے میں لگ کر بیٹھ گیا۔ بگّے کی آنکھوں میں غیر معمولی سنجیدگی تھی۔ یقیناً اس سنجیدگی کا ایک سبب تو بابے ولیے کی موت ہو گی لیکن بگّا میرے سامنے پلا بڑھا تھا۔ میں اس کے مزاج سے خوب واقف ہوں۔ بات کچھ اور تھی۔ بگّے کی آنکھوں کی خفگی بھانپتے ہوئے میں اس سے مخاطب ہوا:
”کیوں بھئی بگّے! کوئی نئی تازی، اتنی خاموشی؟؟؟“
بگّا تو جیسے اسی سوال کا منتظر تھا۔ وہ تو جیسے پھٹ پڑا:
”ہم سے کیا پوچھتے ہو ڈاکٹر صاحب! نئی تازی تو یہ ہے کہ اب آپ اخبار میں لکھنے بھی لگے ہو۔ آپ کا کالم پڑھا تھا۔ سچ پوچھو تو خوشی بھی بہت ہوئی اور معاف کرنا افسوس بھی ہوا۔ خوشی اس بات پر کہ اب ہمارے ڈاکٹر صاحب اور بھی مشہور ہو جائیں گے اور افسوس اس بات پر کہ نئی وزارت ملے ابھی چار دیہاڑے ہوئے کہ آپ نے ان کے متعلق لکھ ڈالا اور غریب کسان ہمیشہ کا ماتڑ، شہر کے اونچے بنگلے والوں نے تو ہمارے بارے کیا سوچنا۔“
نورا، بگّے کی بات پر چونکا اور اسے ڈانٹنے لگا لیکن میں مسکرایا اور نورے سے کہا کہ اسے بولنے دو۔ بولے گا نہیں تو اس کا غصہ کیسے ٹھنڈا ہو گا۔ ”ویسے بات تمھاری ٹھیک ہی ہے بگّے“، میں نے کہا۔ ”بھئی بات یہ ہے کہ جب میں زراعت کا وزیر تھا اس وقت لکھنے لکھانے کا اتفاق نہ ہوا لیکن یقین جانو بگّے، اسمبلی میں بولنے کا موقع ملا یا میاں صاحب سے گفتگو ہوئی، میں نے ہمیشہ تمھاری بات ضرور کی۔“ نہ جانے نورے کو بگّے کے لہجے کی درشتی پر شرمندگی تھی یا شاید وہ دل سے بولا:
”چھوڑیں ڈاکٹر صاحب، جھلا ہے یہ تو، پل میں تولا، پل میں ماشا؛ ابھی چند دن پہلے مجیدے کے ساتھ بیٹھا آپ کے گُن گا رہا تھا۔ اس وقت اسے یاد تھا کہ یوریا کی بوری بائیس سو سے تیرہ سو روپے پہ کب آئی، ڈی اے پی کی بوری چار ہزار سے پچیس سو روپے تک کب گری، کیڑے مار دوا¶ں پر ٹیکس کا خاتمہ اور بجلی کا بارہ روپے والا یونٹ کسانوں کے لیے پانچ روپے کا کب ہوا!! اب اس پر کسانوں کی لیڈری کا بھوت سوار ہوا ہوا ہے؛ آپ چائے پییں۔“
مگر بگّے کے دل میں غصے کی چنگاری ابھی پوری طرح ٹھنڈی نہیں ہوئی تھی۔ اس نے پھر ہمت کی:
”چاچا جی، میں ان باتوں سے کب بھاگا ہوں؛ لیکن آپ ہی بتائیں، کیا سارے رولے مُک گئے؟“ وہ میری طرف مُڑا: ”ابھی پرسوں کی بات ہے ڈاکٹر صاحب، بجلی کا بِل آیا، پہلے تو خورے چاچا جی بِل میں سے اسے جاری کرنے والے کا مونھ ڈھوند رہے تھے اور میں بتا¶ں، اگر وہ مل جاتا تو اس کی ایسی ہی لترول ہوتی جیسی ہماری بچپن میں سکول سے بھاگنے پر ہوتی تھی۔ وہ تو نہ ملنا تھا نہ ملا۔ چاچا جی بجلی کے میٹر کے پاس گئے اور دیر تک کبھی میٹر اور کبھی بِل کو دیکھ کر کچھ سمجھنے کی کوشش کرتے رہے اور سچی بات ہے کہ مجھے لگ رہا تھا کہ میٹر اور بِل دونوں چاچے کا مونہہ چِڑا رہے ہیں۔ اب آپ ہی بتا¶! اے کیڑی سیاست اے، دن نوں یونٹاں دا ریٹ ہور´۔ تے رات نوں ہور، ماتڑ کسان اتنا حسابی کتابی ہوتا تے ہور کی چائی دا سی؟ بگّے کی باتوں میں د م تھا۔میرے پاس واپڈا والی بات کا سچ پوچھیے تو کوئی معقول جواب نہ تھا۔ البتہ اس کی دوسری بات نے مجھے تھوڑی راہِ فرار دی۔ میں بولا:
”دیکھو بگّے، تمھاری ہر بات میں دم ہے لیکن تم خود بھی تو سوچو! کسان بلکہ خاص طور پر چھوٹے کسان نے اپنے لیے خود کبھی کچھ سوچا ہے؟ اس ملک کو بنے ستّر سال ہو گئے۔ شروع سے آج تک بڑے بڑے زمین دار تمھارا حق مار رہے ہیں اور تمھارے کان پر انکے حوالے سے کبھی جوں تک نہیں رینگی۔ تمھیں پتا ہے کہ یہ سیانے کرتے کیا ہیں؟ دیکھو کبھی جا کر، زرعی ترقیاتی بینک سے ہر بڑے بینک تک، قرضے لے لے کر ان جاگیر داروں نے بینک خالی کر دیے۔ ان کی زمینیں بھی سونا اگلنے لگیں اور انھوں نے بڑی بڑی مِلیں بھی لگا لیں۔ کل کا لَکھ پتی آج کروڑ بلکہ ارب پتی ہو گیا۔ یہ تمام ثمرات انہوں نے تم جیسے کسانوں کے نام پر لیے لیکن تمھارے حصے کیا آیا؟ صرف بدنامی! قرضے معاف کروائے ان بڑے بڑے زمیں داروں نے اور بدنامی کا ٹیکہ لگا تمھارے جیسے چھوٹے کسانوں کے ماتھے پر۔ کبھی خود بھی تو کچھ سوچو، اپنے بچوں کو تم لوگ اتفاق میں برکت والی کہانیاں سناتے ہو اور غرور کرتے ہو اپنی تھوڑی سی پیلی پرجہاں چھوٹی چھوتی باتوں پر لڑ مرنے کو تیار ہو جاتے ہو۔ کبھی ٹھنڈے دل سے سوچو، مل کر کام کرو، ایک، ایک پیلی ملا کر سو پیلیاں بنا¶ اور خود بینکوں سے قرضے لو، کولڈ سٹوریج کا بند و بست کرو، سپلائی چین بنا¶، اپنی اجناس کو خام حالت میں بیچنے کے بجائے تیار حالت مین بیچو، اپنی ہر شے کی برانڈنگ کرو، پھر تمھارے دن نہ پھریں تو میرا گریبان حاضر ہے۔“
میں نہیں جانتا کہ میری کتنی باتیں بگّے کے دل میں اتریں اور کتنی کو وہ ہضم کر پایا لیکن اتنی بات میں جانتا ہوں کہ ہمارے کسانوں کی قسمت اس وقت تک نہیں بدلے گی جب تک کہ وہ اپنی قسمت بدلنے کی کوشش خود نہیں کریں گے۔ اکیسویں صدی میں رہتے ہوئے ہمیں اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق سوچنا ہو گا۔ میں بگّے کو” کواپریٹو فارمنگ “کے متعلق سمجھا رہا تھا۔ وہ سانجھی کاشت کاری جس کی بدولت آج ہمسائیہ ملک میں مشرقی پنجاب کا چھوٹا کسان بھی خوش حالی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ آلو کی فی کلو قیمت اور نام نہاد برانڈِڈ چِپس کے پیکٹوں کی قیمت کا فرق صرف پاکستانی کسانوں کو نہیں دکھتا۔
نورے جٹ کے ڈیرے سے نکل کر گھر کے راستے میں میرے دل نے یہ بات تسلیم کی کہ کھادوں پر ہر قسم کے ٹیکس کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ لیکن بگّے جیسے کسانوں کو بھی یہ سوچنا ہو گا کہ نورے جٹ کے والد بابے ولیے کے پاس 12ایکڑ زمین تھی جو نورے جٹ اور اسکے بھائیو ں میں تقسیم در تقسیم کے بعد جب بگّے تک پہنچی تو صرف ایک ایکڑ رہ گئی۔ اب اس ایک ایکڑ پر بگّا یا اس جیسے دیگر کسان آخر جدید کاشتکاری کے تقاضے کیسے پورے کریں اور فی ایکڑپیداوار میںاضافہ کیونکر ممکن ہو۔ اگر ہمارا کسان سانجھی کاشت کے طریقہ کار کو سنجیدگی سے اپنا لے تو حکومتیں بھی اسی تناظر میں پالیسیاں مرتب کریں گی۔
کسان کا مقدمہ
Nov 19, 2017