پیپلزپارٹی کے پچاس سال

قیام پاکستان کے بعد بننے والی سیاسی جماعتوں میں پاکستان پیپلزپارٹی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے جس نے اپنی زندگی کے پچاس سال مکمل کرلئے ہیں۔ عروج و زوال، شہرت و عزت، اقتدار و جیل خانہ جات، بین الاقوامی سیاست میں کردار اور پھانسی ، قیدو بند ، کوڑے، زندہ جل جانےوالے کارکن اپنی صفوں میں سمونے سے لیکر نیک نامی و بدنامی، کرپشن کی داستانیں، غریبوں کو عزت نفس کے حصول سے لیکر سیاستدانوں اور عمائدین کی ذلت اور ان کو بے آبرو کرنا، قتل اور مقتول، ظالم اور مظلومیت کی داستان رقم کرنے والوں سے لیکر وفادار ترین ورکرز اور تنقید کرنے والوں کو اغوا کرنے سے گریز نہ کرنے والے کرداروں، حوصلہ، برداشت، ہمت، جواں مردی سے لیکر بزدلی اور کردارکشی تک گویا سبھی کچھ اپنے آغوش میں رکھتے ہوئے ابھی اپنی زندگی کی ایسی سطح پر پہنچ چکی ہے کہ نہ مرتی نظر آتی ہے اور نہ اسکا احیاءہوتا نظر آتا ہے مگر اس سب کے باوجود ابھی بھی اس کے پاس ایسے وفادار کارکن موجود ہیں جو اس امید کے ساتھ زندہ اور متحرک رہنے کی کوشش کررہے ہیں کہ ”بھٹو ازم“ ان کا نجات دہندہ ہوگا۔
یہ بھٹو ازم کیا ہے میرے علم میں تو کوئی ایسا فلسفہ ابھی تک نہیں آیا کہ جس کی بنیاد پر یہ معلوم ہوسکے کہ سوشلزم اور کمیونزم یا کسی بھی اور ازم کی طرح یہ کوئی عمرانی معاہدہ ہے۔ خیال و تخیل ہے۔ نعرہ ہے فریب ہے یا کسی غیرمرئی حقیقت کا نام ہے یا پھر کوئی تھیوری ہے جس نے ابھی تجربات کی بھٹی سے نکل کر دنیائے سیاست میں ارسطو، سقراط، امام غزالی، میکاولی، ماوزے تنگ، مسولینی یا کسی اور کا روپ دھار کر کسی نئے سماجی ارتقاءکے نتیجہ میں سائنسی بنیادوں پر علم سیاسیات کی نئی تشریح کرنا ہے۔
اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کسی بخل سے کام نہیں لینا چاہیے کہ پاکستان پیپلزپارٹی قائم کرنے والی شخصیات بالخصوص ڈاکٹر مبشر حسن، جے اے رحیم، پیر رسول بخش تالپور، شیخ محمد رشید، خورشید حسن میر، ملک معراج خالد، معراج محمد خان اور بہت سی دیگر اہم شخصیات نے نہایت مناسب وقت پر عوام کے سماجی، سیاسی، معاشی مسائل کو جانتے ہوئے وقت کی نبض پر راست ہاتھ رکھا تھا۔ انہوں نے جس انداز سے پارٹی کا منشور تحریر کیا۔ پارٹی کی منزل کا جس طرح تعین کیا ۔ جو طریق کار اختیار کیا اور جو انداز اختیار کیا وہ بے حد سوچ سمجھ کر اور نہایت دانش مندانہ طریقہ کے ساتھ نہ صرف وضع کیا بلکہ اس پر عملدرآمد کیلئے جو حکمت عملی اختیار کی اس نے ملک کی سیاست میں ایک جہت اجاگر کردی۔ کسی نئی راہ پر چلنا اس زمانہ میں مشکل کام تھا۔ سیاسی راستے نہ صرف دشوار تھے بلکہ ان پر سفر کرنا جنونی لوگوں کا ہی کام ہوسکتا تھا۔ تراش خراش کے بعد بین الاقوامی سطح پر ہونیوالے واقعات اور اسکے پاکستان پر اثرات کو پوری طرح نظر میں رکھا گیا تھا اور پھر جو چار بنیادی اصول اختیار کئے گئے تھے وہ آج پچاس سال گزرنے کے بعد بھی پیپلزپارٹی کی پہچان ہیں گو ان میں سے کسی ایک پر بھی ان چار اصولوں پر پیپلزپارٹی کی چاروں حکومتیں عمل نہ کرسکیں مگر نعرے زور دار تھے سیاسی جماعت کی پہچان بن گئے تھے میرے نزدیک یہ صرف سیاسی نعرے تھے ان کو نہ پورا ہونا تھا اور نہ ہی ہوسکے۔ یہ اصول ، نعرے، پروگرام کچھ بھی کہہ لیجئے یوں تھے۔
1۔ اسلام ہمارا دین ہے۔ 2۔ جمہوریت ہماری سیاست ہے۔ 3۔ سوشلزم ہماری معیشت ہے۔ 4۔ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔
اگر پارٹی یہ یقین رکھتی تھی کہ اسلام ہمارا دین ہے تو پھر سوشلزم تو دین نہ تھا۔ اگر نظام معیشت تھا تو ہمارا دین پورا ضابطہ حیات مہیا کرتا ہے۔ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں یا تھے تو بھی یہ دینی لحاظ سے تضاد ہے۔ اسلام ممکن ہے مکمل جمہوری نظام کا احاطہ کرتا ہو مگر شورائیت بھی تو ایک طریق ہے۔
بہرحال یہ چار اصول یا نعرے پیپلزپارٹی کی ذوالفقار علی بھٹو کے علاوہ طاقت تھے۔ جب طاقت بہت طاقتور ہوجائے تو کمزوری بھی یہی بنا کرتی ہے۔ بھٹو مخالفین اور دینی و سیاسی جماعتوں نے میری طرح انہی 4 نعروں پر خوب بحث کی اور پیپلزپارٹی کو جواب دینے اور غلط فہمیاں ختم کرنے پر مجبور کردیا۔ پہلے دور حکومت میں ان چاروں اصولوں کا جنازہ بار بار اٹھتا دیکھا گیا۔ جاگیردار ذوالفقار علی بھٹو سوشلزم متعارف نہ کرواسکے۔ انکی پالیسیوں اور رویوں کے باعث انکے ابتدائی ساتھی ان کے ناروا سلوک کا شکار بھی بنے۔ عوام کو دھکے ہی ملنے تھے وہی ان کا نصیب رہے گو دستور پاکستان ضروری تھا اور اس کی تدوین منظوری اور نافذ العمل ہونے کے تمام مراحل پورے ہوئے مگر عوام کے بنیادی حقوق سلب کرلئے گئے۔ ڈی پی آر اور 16ایم پی او کے تحت سیاسی اکابرین اور کارکنوں کی گرفتاریاں روزمرہ کا معمول تھیں۔ اس بات کو کوئی نظرانداز نہیں کرسکتا کہ شملہ سمجھوتہ کے تحت جنگی قیدیوں جن میں سویلین کی تعداد زیادہ تھی کی واپسی بھٹو کی مرہون منت تھی۔ مگر بنگلہ دیش بنوانے کا الزام بھی انکی جان نہ چھوڑ سکا۔ اسلامی سربراہی کانفرنس کی بھی بہت پذیرائی ہوئی شملہ روانگی کے وقت لاہور ائرپورٹ پر ملک کی تمام سیاسی قیادت نے بھٹو پر اعتماد کرکے ان کو رخصت کیا تھا۔ملکی سیاست میں بھٹو کی ذہانت کی ہر کوئی تعریف کرتا تھا اور ہے۔ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ ایسا خوشگوار اور متاثر کن تھا کہ آج پچاس سال بعد بھی اسکی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ مگر تعلیمی اداروں کو بھی قومی تحویل میں لینے کے اثرات آج تک ہمارے نظام تعلیم کو متاثر کئے ہوئے ہیں۔ صنعتوں کو قومیانے کے بھی خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہوسکے بالآخر ان کو واپس کرنا پڑا یا ان کی پھر نجکاری ہوئی۔
پیپلزپارٹی ذوالفقار علی بھٹو کے بغیر نہ پچاس سال قبل کوئی حیثیت رکھتی تھی اور نہ ہی آج۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ ماضی کی ایک نظریاتی جماعت تاریخ کے اوراق میں دفن کی ہوئی ملتی ہے۔ بھٹو نے اپنی جان دے دی یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ اس پر بحث ہوسکتی ہے مگر سرد جنگ کے دوران بھٹو ان حالات کو نہ سمجھ سکے جن میں ان کو پھنسا دیا گیا تھا۔ سیاسی کشمکش ملک میں شدید ہوچکی تھی اور ایسے میں نوکر شاہی اور حکومت کے اہل کار عوام پر نہیں بلکہ خود پر نظر کرم کرتے ہوئے حاکم بن چکے تھے۔ غیر یقینی صورتحال، غیر مناسب معاشی و اقتصادی نظام، ملکی مسائل میں ہر روز اضافہ کررہا تھا۔ بھٹو کی زندگی کے بعد ان کی اہلیہ نصرت بھٹو نے ابتلا کا دور گزارہ قید و بند بے نظیر بھٹو کا بھی نصیب بن گیا۔ بیگم بھٹو کی بیماری نے ان کو ملک سے باہر جانے پر مجبور کردیا۔
اپریل 86ءمیں بے نظیر بھٹو واپس وطن آئیں، فقید المثال استقبال ہوا۔ ضیاءالحق 88ءمیں حادثہ کا شکار ہوئے محمد خان جونیجو مرحوم کی اسمبلی کو برخاست کردیا گیا تھا۔ غیر سیاسی شخصیات نے بے نظیر بھٹو کے مقابلہ کےلئے اسلامی جمہوری اتحاد قائم کروایا۔ اسحق خان نے بے نظیر بھٹو کو مشروط وزارت عظمیٰ دی۔ بے نظیر نے کہا تھا کہ میں جونیجو نہ بنوں گی مگر وہ صدارتی اختیارات کا شکار ہوئیں اور اس میں ہٹ دھرمی، شرائط کو پورا نہ کرنا اور انکے شوہر نامدار کے مالی معاملات کوکافی عمل دخل تھا۔ مرحومہ مقدمات کے چکر میں پھنس کے رہ گئیں۔ انہوں نے نوازشریف کیساتھ ایسا ہی کیا جیسا انکے ساتھ ہوا تھا۔ کرپٹ آصف زرداری کو غلام اسحق خان نے وزارت کا حلف دیا۔
93ءمیں بے نظیر نے سیاسی حکمت کے ذریعہ اور یااللہ یا رسول بے نظیر بے قصور کے نعرے کیساتھ انتخاب جیتا۔ مخلوط حکومت قائم ہوئی اب نواز فیملی کو مقدمات کا سامنا کرنے کی باری تھی۔ بے نظیر ایک بار پھر صدارتی اختیارات کا شکار ہوئیں اب کہ تیر۔ تیر والے صدر فاروق لغاری نے چلایاتھا۔ زرداری قید اور بے نظیر جلا وطن ہوگئیں اور مرتضیٰ بھٹو قتل ہوگئے۔
99ءمیں مارشل لا لگا پرویزمشرف صدر بھی بن گئے دنیا ان کے ساتھ ہاتھ نہ ملانا چاہتی تھی مگر 9/11 نے ان کا مقام بڑھا دیا۔ آخر انتخابات ہوئے اسمبلی نے پہلی بار مدت پوری کی۔ انتخابی مہم سے قبل امریکہ برطانیہ اور دوبئی نے مشرف بےنظیر معاملات طے کروا دئیے۔ انکی واپسی پر ان کو ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی اور بالآخر 27 دسمبر 2007ءبھٹو کی پرعزم بیٹی شہید ہوگئی۔ یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بن گئے۔ آصف زرداری صدر بننے میں کامیاب ہوئے۔ آصف زرداری یہ جانتے تھے کہ ان کی گنجائش کم ہے مگر حالات نے ان کو ایسے موڑ پرکھڑا کردیا تھا کہ وقت ان کا ساتھ دے رہا تھا موصوف نے مصالحت کے نام پر ہر کسی کو حصہ بقدر جثہ دیکر اپنے 5 سال پورے کئے۔
پیپلزپارٹی کے 50 سال کی تاریخ 50/60 سطروں میں نہیں لکھی جاسکتی۔ ماضی میں قائم ہونے والی یہ جماعت اگر عوام کے اعتماد پر پورا اترتی تو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بے شمار واقعات نہ ہوتے، ضیاءالحق کے ہاتھ میں ہوتا تو اس جماعت کا نام بھی باقی نہ رہنے دیتے، نوازشریف بھی اس سے کچھ کم نہ کرتے۔ اسحق خان بھٹو کے ساتھی ہونے کے باوجود اس جماعت کا نام نہ سننا چاہتے تھے۔ پرویزمشرف کی اپنی ذات کا معاملہ نہ ہوتا تو آصف زرداری اب تک جیل میں ہوتے۔
پیپلزپارٹی تو ہر حکمران نے توڑنے یا ختم کرنے کی کوشش کی مگر کسی کو بھی خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی تاریخ گواہ ہوگئی کہ جو کام کوئی نہ کرسکا اسکو آصف علی زرداری نے اتنی صفائی کے ساتھ کردیا ہے کہ تاریخ میں ان کا نام دیگر حوالوں کے ساتھ پیپلزپارٹی کو ختم کرنے، عوام میں اس کو بے توقیر کرنے اور بھٹو خاندان کی سیاسی وراثت کو دفن کرنے والوں میں ہوگا۔ وہ خواہ کتنی بھی کوشش کرلیں وہ کسی ازم اور خاص طور پر ناسمجھ آنے والے بھٹو ازم اور بے نظیر ازم کے نام پر ووٹ حاصل نہ کرسکیں گے۔ باوجودیکہ اٹھارویں ترمیم انہی کے ایماءپر منظوری کی گئی جبکہ صوبے اس کیلئے ابھی تک تیار نہ ہوسکے اور شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ماضی کی وہ تمام تحقیقات جو پی پی پی کو ختم کرنا چاہتی تھیں ایک زرداری ان سب پر بھاری ہے۔ بے نظیر بھٹو اب ماضی کے نعروں کی طرح صرف ایک نعرہ بن کر رہ گئی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن