عشق محمدﷺ ، امت مسلمہ کا خزینہ

عنبرین فاطمہ
جس طرح ماہِ رمضان المبارک کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی عظمت و شان کے طفیل میں دیگر مہینوں پر انفرادیت اور امتیاز عطا فرمایا ہے، اسی طرح ماہ ربیع الاول کو بلا شبہ حضور نبی اکرمؐ کی ولادت با سعادت اور اس مبارک گھڑی کے صدقے سے ایک انفرادی حیثیت کے ساتھ سال کے تمام مہینوں پر نمایاں فضیلت اور امتیاز حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاںہر چیز میں مختلف و جدا نوعیت کی وجہ سے اس کی وجہ فضیلت و شرف بھی مختلف ہے۔ جس طرح ہر ماہ کی انفرادیت اور فضیلت کی ایک جدا جہت ہے۔ اسی طرح ہر شہر، ہر علاقے اور ہر دن کی اپنی اپنی امتیازی صفات اور خصوصیات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف افراد کو افراد پر، بعض ایام کو دوسرے ایام پر اور ماہ و سال بلکہ ہر ساعت کو دوسری ساعتوں پر مختلف نسبتوں سے شرف و امتیاز عطا فرمایا ہے۔ اس اعتبار سے بعض انبیائؑ کو بھی ایک دوسرے پر مختلف حیثیتوں سے فضیلت حاصل ہے۔
ربیع الاول اسلامی سال کا تیسرا مہینہ ہے۔ جس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ جب ابتداء میں اس مبارک مہینیکا نام رکھا گیا تو اس وقت موسم ربیع یعنی فصل بہار کا آغاز تھا۔ یہ مہینہ فیوض و برکات کے اعتبار سے اس لئے بھی افضل ہے کہ اسی ماہ میںباعث تخلیق کائنات رحمت للعالمین احمد مجتبیٰ محمد مصطفی ؐ دنیا میں تشریف فرما ہوئے ۔ 12 ربیع الاول بروز پیر، صبح صادق کی یہ مبارک ساعت تھی جب مکۃ المکرمہ کے محلہ بنی ہاشم میں عرب و عجم کے نگہبان آپؐ کی ولادت با سعادت ہوئی۔ 12 ربیع الاول ہی میں آپ ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے۔ اسی ماہ کی 10 تاریخ کو محبوب کبریا ؐ نے ام المؤمنین سیدہ حضرت خدیجہ الکبریٰ سلام اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح فرمایا تھا۔بارہ ربیع الاوّل کو عرب عجم میں پوری دنیا کے مسمان آپ ؐ کا یوم ولادت پاک مناتے ہیں۔ اس دن کی نسبت سے خوشی و مسرت کا اظہارکرنا، مساکین کو کھانا کھلانا اور میلاد شریف کے اجتماعات منعقد کرنا اور کثرت سے محمد و آل محمد پر صلوات پڑھنا کارِ ثواب ہے۔جس کے اجرمیں اللہ تعالیٰ تمام سال حفظ و امان کے ساتھ ہمارے دل کی مرادوں کی تکمیل فرماتا رہے گا۔بنی نوع انسان کو دین اسلام کے ذریعے آج تک اللہ تعالیٰ کی جتنی برکات اور رحمتیںعطاء ہوئی ہیں وہ حضرت محمد مصطفیٰؐ کے مقدس وجود کا خلق خدا پر احسان ہیں، کہ جو اس مہینے میں اس دنیا میں تشریف لائے ۔یہ ماہ مقدس جو تمام مہینوں سے افضل ہے اس مہینے کیعظمتنبی اکرم ؐکے نورانی وجود کی طفیل ہے ۔ باالفاظ دیگر ہمارے لئے اس مہینے کی مثال دیگر مہینوں کی نسبت ایسے ہی ہے کہ جس طرح دیگر انبیاء کرامؑ کے درمیان حضرت محمد مصطفیٰؐ کا مقام ہے۔
آج کا دن مسلمانوں کیلئے بڑی عید ہے، اس حوالے سے جب ملک بھر میں ہفتہ عشرہ سے تقریبات کا سلسلہ جاری ہے ،نبی مکرم ؐ کی شان اقدس میں کون و مکاں میں آپ کی شان نزول بیان کی جارہی ہے اس حوالے سے ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کے ساتھ ایک نشست میں حضور سراپا نور شافع یوم النشورؐکی ولادت مبارک ، معجزات ، آپؐ کے اخلاق کریمہ اور فضائل و مناقب کے بارے تاثرات کا گلدستہء عقیدت نذر قارئین ہے۔
سوا چودہ سو سال سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔ اس عرصے میں دنیا میں بڑے بڑے انقلابات آئے ، صلیب و ہلال کے معرکے ہوئے ، حکومتیں بنیں اور مٹ گئیں ، عروج و زوال کی نئی نئی مثالیں قائم ہوئیں ، کبھی خلافت کا احیاء ہوا کبھی ملوکیت کی بساط بچھی، نظام بھی ابھرے اور نظریات بھی نمو پذیر ہوئے اور قصہ پارینہ بن گئے ، تعبیرات اور عقائد میں اختلافات ابھرے ، فرقے بنے اور ختم ہوگئے ۔ یہ سب ہوتا رہا مگر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کی ضیا پاشیاں اپنی جگہ برقرار رہیں اور ہر دور میں اپنی لو سے انسایت کو منور کرتی رہیں ۔ انقلابات زمانہ ان کی پاکیزہ ہستی کی ضیاء پاشیوں کو ذرہ برابر مدہم نہ کر سکے اور ہر دور میں ان کی ذات مرکز محبت بن کر سرچشمہ ہدایت بنی رہی اور آئندہ بھی انسانیت اس سر چشمہ ہدایت کی ناموں کی حفاظت کرکے اور ان کی پیروی کرکے اپنی دنیا و عقبیٰ کو سدھارتی رہے گی۔
موجودہ فتنوں کا دور اس بات کا تقاضا کر رہا ہے کہ حضورنبی کریم ؐ کی ذات با برکات جو ہمارے لئے دنیا و عقبیٰ کی سرفرازی کا آخری سہارا ہے اور جن کا نام سنتے ہی ہر مسلمان دل کی عجیب کیفیت ہو جاتی ہے اور محبت اور عشق کا ایک ایسا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے جس کا غیر مسلم تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ حضور نبی کریم ؐ سے عشق امت مسلمہ کی قوت کا اصلہ سر چشمہ اور خزانہ ہے ۔
اقبال حضورؐ کی شان اقدس کے بارے فرماتے ہیں
ہر کجا بینی جہانِ رنگ و بو
آنکہ از خاکش بروید آرزو
یا زِ نور مصطفیؐ او را بہا است
یا ہنوز اندر تلاشِ مصطفیؐ است
اس جہان رنگ و بو کی جس چیز پر نظر ڈالیں جس سے آرزو ئیں اور تمنائیں جاگ اٹھتی ہیں یا تو حضرت محمدؐ کے نور کی وجہ سے اس کی قدر و قیمت حاصل ہے یا وہ ابھی ان کے نور کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ !
آیتۂ کائنات کا معنی دیر یاب تو
نکلے تری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ و بو
انسان کے لئے یہ کائنات بنائی گئی اور انسان کامل یعنی حضور نبی کریم ؐ وجہ کائنات ہیں ۔ کائنات کے تمام قافلے چاہے وہ انسان ہوں یا کوئی اور مخلوق، چاند ہوں یا ستارے یا کہکشائیں سب کو اسی معنی دیر یاب کی تلاش تھی جو حضورنبی کریمؐ کی ہستی اقداس کی صورت میں ظہور پذیر ہوئی۔
اللہ رب العالمین نے بھی اپنے اس احسان کا ذکر اس طرح سے کیا ہے کہ
ترجمعہ: در حقیقت اہل ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انہی میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایا جو اس کی آیات انہیں سناتا ہے ، ان کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے ۔
ہم نے یہ وطن عزیز اسی لئے حاصل کیا تھا کہ ہم اس میں نظام مصطفیؐ کا قیام عمل میں لائیں گے ۔
بمصطفیٰؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولبی است
ہم نے پاکستان کو اسلامی جمہوری اور فلاحی مملکت بنانے کا عزم کیا تھا کہ اس کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے منور کریں گے ، اور ابو لہب کے چیلوں کی چنگاریوں سے محفوظ رکھیں گے مگر وقتاً فوقتاً یہاں پر کچھ شر پسندعناصر جنہیں غیر ملکی امداد کی وجہ سے سودا گر عناصر کہا جائے تو بے جانہ ہوگا وطن عزیز کے اسلامی تشخص کو ختم کرنے کے لئے اپنی مذموم چالیں چلتے ہیں اور اس دفعہ ان کا ہدف ہمارا آخری مرکز محبت ہے۔
فتنوں کے ا س دور ِ لامرکزیت نے امت کو اس کے آخری منبع و مرجع سے محروم کرنے کے لئے ہدف بنایا ہے اور یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے کوئی پاگل سورج پانی اور ہوا کو گالی دے یا روشنی ، فضا اور موسم کو برا بھلا کہہ دے ، کسی صاف اور شفاف میٹھے پانی کے چشمے کو کیا فرق پڑتا ہے اگر اس کو لوگ گدلا اور کھارا کہنے لگیں۔ اس طرح چمکتے ہوئے سورج کو لاکھوں لوگ بھی سیاہ پتھر کہنے لگیں تو بھی اس کی ایک کرن کو نہیں روک سکتے ۔ وہ بدستور چمکتا رہے گا مگر امت کا مفاد اسی میں ہے کہ اس عظیم ترین ہستی اور محبوب دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق اور ناموس کی حفاظت اور دفاع کرے تا کہ معاشروں کا امن قائم رہے۔ اور افراد کی اصلاح کے لئے بھی ضروری ہے کہ اس مثالی انسان کامل کے ساتھ عقیدت و محبت میں ذرہ برابر کمی نہ ہو۔ نبی کریم ؐ کی ذات مبارک ہی وہ سائبان ہے جس میں امت پناہ لیتی ہے ، ایک نکتے پرمتحد ہو جاتی ہے اور سلامتی پاتی ہے ۔آج اگراس آخری سہارے سے امت کو محرم کرنے کے جسارت کی جاتی ہے تو ہمیں متحد ہو کرایمان کی اس رمق کو بچانا ہے ۔دنیا میں انقلاب کی رفتار بہت تیز ہے اور روز بروز تیز تر ہوتی چلی جا رہی ہے ۔ پہلی ان کیلئے زمانہ درکار ہو تا تھا اب لمحوں میں و ہ سفر طے ہونے لگا ہے اور کبھی تو لمحے کی خطا صدیوں کی سزا میں تبدیل ہو سکتی ہے اور کبھی پلک جھپکتے اور دو گام چل کر بھی منزل سامنے آجانے کا امکان بن رہا ہے۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ ہم ایمان بالغیب رکھنے والی قوم ہیں ۔ ہم زمینی حقائق اور اسباب پر بھروسہ نہیں کرتے بلکہ اپنے قویٰ اور قادر رب کی قوت پر بھروسہ رکھتے ہیں کہ جب اس کا حکم آ جائے تو سب زمینی حقائق زمین بوس ہو جایا کرتے ہیں ۔ ہمیں اللہ اور رسولؐ کی محبت سے سرشار امت کو اسی مرکز محبت کے گرد اکٹھے رکھناہے۔
ان حالات میں معاشرے کے استحکام اور فتنہ و فساد سے بچنے کے لئے ہمیں اپنے ہان قانون کی عملداری ، عدل انصاف کے نظام اور قانون سازی کو ملک و قوم کیلئے حتی ا لمقدورمستحکم اور قابل بھروسہ بنانا ہے تا کہ کوئی شر پسند، سماج دشمن عناصر قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر عدل انصاف کا جنازہ نہ نکال سکے۔ بلکہ جن بزگزیدہ ہستیوں کی بدولت یہ دنیا نیکی، سچائی ، حق پرستی اورعدل و انصاف جیسی قدروں سے آشنا ہوئی ،ہونا تو یہ چاہیئے کہ اُن کی شان میں گستاخی کو کوئی بھی معاشرہ اور مذہب برداشت نہ کرے ۔ حضور نبی کریمؐ جن کو اللہ نے سراجا وہا اور سراجا منیراً کا لقب دیا ہے کہ جس طرح سورج روشنی ، حرارت اور توانائی کا منبع ہے اسی طرح حضورؐ کی ذات گرامی بھی مسلمانوں کی زندگی کا سرچشمہ ہے جو ہر ایک کو فیض یات کرتا ہے اس فتنوں کے دور میں آئیے ظلمت شب کارونا رونے کی بجائے اپنے حصے کی شمع یہ کہہ کر جلائیں :ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے آقائے دو جہاں ؐ سے اس بات پر بیعت کی ہے کہ جب تک زندہ سلامت ہیں ہم آپؐ کے لائے ہوئے نظام اور آپ ؐ کے اسوہء حسنہ پر عمل کرنے کی جدوجہد کا فریضہ سر انجام دیتے رہیں گے۔
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روزِ محشر عذر ہائے من پذیر
گر تو می بینی حسابم ناگزیر
از نگاہِ مصطفیؐ پنہاں بگیر!

ای پیپر دی نیشن