’’ہیروں و پھولوں کی مالا یا پتھروں کی۔۔۔‘‘

کسی بھی ملک کے سیاسی میدان کا ایک اپناہی رنگ و روپ ہوتا ہے اس میدان کے موسم بھی خزاں و بہار، سرد و گرم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کوئی بھی سیاستدان خواہ وہ چھوٹا ہویا بڑا ، نیا کھلاڑی ہویا پُرانا منجھا ہوا یا تجربہ کار سب کے اپنے اپنے خواب اور مقاصد ہوتے ہیں۔ ایک بات تو طے ہے اور سچ بھی کہ ہر سیاسی خدمت گار یا سیاسی سپاہی جو کسی بھی سیاسی جماعت میں ہے اور فعال بھی ، وزیر ، مشیر ہونا اس کی بڑی دلی خواہش اور اس کا اعلیٰ ترین بڑا خواب عظیم وزارت عظمیٰ ہوتا ہے ۔ اور جب جس کے سرپر ہما بیٹھ جائے اس کے سرپر یہ اعلیٰ تاج سج جاتا ہے اور ایسا رب عظیم کی رضا سے ہی ہوتا ہے وہ راستے اور وسیلے بنادیتا ہے اب یہ اس اعلیٰ منصب کو پانے والے کے اوپر ہے کہ وہ اس انعام خداوندی کو کیسے اور کس طور طریقہ کے ساتھ دُرست طور اور عملی طور پر ادا کرتا ہے ۔ ’’عوام اور ملک کی خدمت‘‘ یا اس کے برعکس ’’اپنی خدمت اور اپنوں کی خدمت‘‘ کسی کپتان کا اہم ترین فیصلہ وہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے کن رفقاء اور ساتھیوں کو ذمہ داریاں دیتا ہے ۔ اور یہ اس کے اہم ترین فرائض میں اہم ترین فیصلہ ہوتا ہے کہ جس کو وہ جو عہدہ یا وزارت کا وزیر بنا رہا ہے اس میں وہ قابلیت اور اہلیت وصلاحیت ہیں یا نہیں، حقدار اور اہل ہے یا نہیں، اور ان معاملات پر وزیر اعظم یا پارٹی سربراہ کسی قسم کی دوستی ،تعلق، قربت، رشتہ داری دوستی یا سفارش کو خاطر میں نہ لائے اور درست اور بہترین فیصلے کرے۔ ایسے عمل سے بہترین طریقہ سے عوام کی درست خدمت ، داد رسی اور مسائل کی درستگی کے سفر میں آسانی اورنیک نامی کے ساتھ ٹیم بالخصوص کپتان (وزیر اعظم ) کو عوام میں عزت، مقبولیت اور پذیرائی حاصل ہوگی کہ اس نے عوام سے جو وعدے یا دعوے کیئے وہ ان کو پورا کرنے میں اور ان کو عملی شکل دینے میں سنجیدگی اور بہترین صلاحیتوں کے استعمال میں مصروف عمل ہے کیونکہ صرف ایک یہ ہی ایسا راستہ ہے جو عوام کے دلوں تک جاتا ہے اور ان کے دلوں اور دھڑکنوں میں بس جاتا ہے ۔
کیا ایسا اس حکومت (PTI) اور اس کے وزیر اعظم سے اُمید اور توقع کی جاسکتی ہے ؟ کیوں نہیں اُمید اور توقع ضرور رکھنی چاہیے کیونکہ عمران خان اپنے ایسے جذبے اور وعدوں کا بار بار اظہار اور اعلان کرتے رہے ہیں اور یوں وزیر اعظم عمران احمد نیازی صاحب، ان کی وزراء مشیروں کی ٹیم اور پارٹی کے چاروں طرف پھولوں کا حصار یا دائرہ نہیں بلکہ اُن کے بڑے بڑے دعوئوں ، نعرئوں اور ان کے دکھائے گئے سبز باغوں کا حصار اور دائرہ ہے جو درست عمل سے پھولوں کے خوبصورت رنگ اور نرماہٹ کا روپ میں ڈھل جائے گا اور بے عملی اور ناکامی سے بدنما اور سخت نوکیلا خاردار شکل اور اختیار کرسکتا ہے لوگوں کو اُمید اور یقین ہے کہ عمران احمد خان نیازی اور ان کی ٹیم پھولوں کی مالا حاصل کرنے کے لئے آج سے منفی ، ٹکرائو اور الزامات کے بے رنگی پالیسی کو خیرآباد کہہ کر ایسے مثبت روشن راستے پر قدم آگے بڑھائے گی جس سے وہ پھولوں کی یا ہیرئوں کی مالا حاصل کرنے میں کامیاب و کامران ہو۔ اور ایسا عمران خان کے اور پاکستان و جمہوریت کے ہمدردوں اور پیار کرنے والوں کی خواہش اور دعا بھی ہے ۔
سو دن (100 days) مکمل ہونے میں چند ہفتے باقی ہیں جب سہ ماہی کا نتیجہ آئے گا، حاصل کردہ حکومتی گریڈ کون سا ہوگا یہ وقت ہی بتائے گا اُمید ضرور اچھی رکھنی چاہیے ، آگے کے حال سے اللہ تعالیٰ باخبر اور با علم ہے ۔
دوسری جانب اپوزیشن جس میں مسلم لیگ (ن) پاکستان پیپلز پارٹی ، عوامی نیشنل پارٹی ، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتیں اور جے یو پی (ف) کے قائد مولانا فضل الرحمن کے اخباری بیانات و پریس کانفرنسز اور سینیٹ و قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلیوں ، موجود لیڈران و ممبران کے خطاب و ارشادات سے ایسی تصویر دکھائی دیتی ہے جس میں موجودہ PTI حکومت اس کے وزیر اعظم عمران احمد خان نیازی اور وزراء عملی طور پر ناکام و لاچار دکھائی دے رہے ہیں۔ اور وزیر اعظم اور ان ناتجربہ کار اور کم برداشت کے حامل وزراء اور مشیروں پر مشتمل کا بینہ کے طور طریقے اور بے عقلی اور جذباتی بیانات اور میڈیا کے ساتھ مخالفین کے لئے غیر معیاری الفاظ اور جارہانہ انداز عمران خان کی شخصیت اور حکومت کے لئے انتہائی نقصان و تنقید کا باعث بن رہے ہیں اور لگتا ہے کہ شاید عمران خان کو اتنی فرصت اور وقت میسر نہیں کہ وہ ان کو کنٹرول یا لگام دے سکیں۔۔۔؟
مسلم لیگی حلقوں کے نزدیک عوام کی یہ اُمید برہوتی (پوری ہوتی ) نہیں دکھائی دیتی جو اس (عوام) نے نئی حکومت اور نئے وزیر اعظم کے ارشادات کے حوالے سے رکھی ہوئی تھی۔ PTI حکومت نے اپنے دعوئوں کے حوالے سے 100 دن میں ایک مضبوط اور حسین رنگوں سے مزین پلرز (ستون) کی شکل دکھانے کا جو وعدہ کیا ہوا ہے فی الحال تو اس جگہ اب تک کسی ستون کی جگہ ایک سنہرا بانس بھی کھڑا دکھائی نہیں دیتا۔ ہوسکتا ہے کہ ان کے پاس کوئی جادوئی بانسری یا اللہ دین کا چراغ ہو جس کے ذریعے ان کو اپنے 100 دن کا وعدہ پورا کرنے پر یقین ہو۔۔۔؟ ویسے اب PTI والے 6مہینہ کا کورس گانے میں مصروف عمل ہیں۔ آگے دیکھیں کون سا نیا گیت یا نیا کورس عوام کو سننے کو ملے گا۔
سنجیدہ حلقوں کے مطابق موجودہ حکومت کے وزراء میں سے بہت سے وزراء اور مشیروں نے گذرئے75 تا 80 دنوں میں واقعی نام بھی کمایا اور شہرت بھی لیکن ایسا عوامی خدمت یا وزارت کے کسی مثبت عوامی خدمت کے کاموں میں نہیں بلکہ اپوزیشن اور اپوزیشن کے قائدین کے خلاف ، مختلف بیانات ، نعرے اور لفظی حملوں کی بدولت حاصل ہوئی جوکہ عوام اور سنجیدہ حلقوں میں ان تمام کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جارہا کیونکہ عوام جس مہنگائی کے پہاڑ تلے دبی جارہی ہے اس کا اب تک کوئی مداوا سامنے نہیں آیا۔ خوبصورت لفظو اور نعروں سے نہ پہلے کسی بھوکے کا پیٹ بھرا ہے نہ آج کسی غریب کے گھر روٹی اُتر رہی ہے ۔ اُن کی پکار کو حکمرانوں کو سننا چاہیے کہ خدارا چند ہفتوں اور دنوں میں مہنگائی کے برساتے بموں کو روکو اور عوام کو مہنگائی کے بے لگام جن کو قابو کرکے کم از کم ایک احسان عظیم کرو۔ اپنی صلاحیتوں اور وقت کو اپوزیشن اور مخالفین کو نیچا دکھانے اور الزامات کی بارش کرنے کے بجائے ان تمام طاقتوں کو اور یہ تمام کچھ غریب اور بدحال عوام کی حالت بہتر کرنے میں استعمال کریں تاکہ عوام جوکہ مہنگائی اور غربت کی چکی میں پسی ٔ جارہی ہے اُس کو ریلیف حاصل ہو، کچھ تو یہ آسانی کے ساتھ سانس لے سکے۔ حکمراں، حکومت اور وزیر اعظم پر اہم ترین اخلاقی اور منصبی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ عوام کے مفاد میں بلکہ عوام اور ملک کے مفاد میں اپنی بہتر اور صحت مندانہ پالیسی بنائے اور اس پر خود اور وزراء کو عمل کرنے کا پابند کرے اور ساتھ سینیٹ وقومی وصوبائی اسمبلیوں میں اپنے ممبران کو سختی کیساتھ اس پر عمل کرنے کا پابند بنائیں تاکہ ایوانوں کے اندر اور باہر روشن، صحت مندانہ فضاء اور ماحول میں ملک اور عوام کی بہتری اور خدمت کے لئے عملی طو رپر خدمت ہوسکے اور لوگوں کو کچھ سکون اور اطمینان حاصل ہو۔ اور ایسا بہتر منصوبہ بندی جوکہ تیز رفتار ہو جس سے عوام بالخصوص ملازم پیشہ اور غریب لوگوں کو ریلیف ملے اور عملی طور پر ان کو یہ لگے کہ واقعی نیا پاکستان کا نعرہ لگانے والے وعدہ کرنے والے، حقیقتاً عوام سے کیئے گئے وعدوں پر عمل پیرا ہیں۔
لوگوں کو وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی روز کی تقریر اور پریس کانفرنسوں سے کو ئی سروکار نہیں اورنہ ہی اپوزیشن لیڈروں یا شہباز شریف یا آصف زرداری کے خلاف حکومتی وزراء کے الزامات اور دھمکیوں سے نہ تو مہنگائی میں کمی آرہی ہے نہ ہی بے روزگاروں کو روز گار مل رہا ہے ۔ لہٰذا عوام کی اکثریت اس صورتحال سے ناخوش دکھائی دیتی ہے لہٰذا وزیر اعظم صاحب جوکہ کابینہ کے کپتان بھی ہیں تو اس غیر مقبول اور تکلیف دہ صورتحال پر خصوصی توجہ دے کر حالات اور سیاسی فضاء کو بہتر کرنے کے مثبت اقدام کرنا ہوں گے تاکہ غریب اور پریشان عوام کو سکون اور کچھ اطمینان حاصل ہوسکے اور وہ آپ کے نئے پاکستان میں بہتر اور اچھے طریقہ سے زندگی گزار سکیں۔ جناب عمران صاحب آپ مخالفین کی باتوں اور تنقید پر کان نہ دھریں ۔ لیکن پلیز خدارا آپ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کے ان الفاظوں پر کہ موجودہ حکومت کے پاس نہ تو اہلیت ہے ، نہ صلاحیت اور نہ ہی منصوبہ بندی کچھ تو توجہ دیں اپنی صلاحیتوں کا کچھ تو اظہار کریں اور اپنی اور کابینہ کے وزراء کی اہلیت کو تو عوام کے سامنے پیش کرکے سرخروی حاصل کریں۔ شہر کراچی کی ایک محفل میں کسی دل جلے اور منہ پھٹ شخص نے کچھ ایسا کہا کہ ملک میں آج تقریباً80 دن گذرے عوامی ریلیف خدمت کا ایک بھی کام عملاً دکھائی نہیں دیا۔ ہاں صرف اور صرف فواد چوہدری ، فیاض الحسن چوہان اور ایسے دیگر وزراء کے انداز اور تقریروں اور کنٹرول سے عاری باڑی لینگویج اور چہرے کے اتار و چڑھائوں سے کسی سرکس کا تماشہ پر مبنی پروگرام الیکٹرانک میڈیا پر لوگوں کو روز دیکھنے کو مل رہا ہے اور عوام بے بسی کی تصویر بنیں ہیں۔ ابھی تو حکومت کے 100 دن بھی پورے نہیں ہوئے خدارا ہوش کے ناخن لیں ایسے وزراء اور نادان دوست اپنے طور طریقوں سے پچھلی حکومتوں کو لے ڈوبے ہیں کچھ تو سبق حاصل کرلو۔ ورنہ ہوسکتا ہے کہ مخالفین کے لبوں سے یہ الفاظ نکلے کہ ’’6 ماہ ہنوز دوراست‘‘(جیسا ہنواز دلی دوراست کی مثال ہے )۔

ای پیپر دی نیشن