اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) افغان امن عمل اب پٹڑی پر چڑھتا دکھائی دے رہا ہے اور امریکہ کی طرف سے قدرے قابل عمل تجاویز سامنےآ رہی ہیں۔ تاہم واشنگٹن کی طرف سے سترہ برس کی غفلت شعاری اور اب یک دم صلح کیلئے عجلت اس حد درجہ پیچیدہ اور نازک معاملہ کو بگاڑ سکتی ہے۔ امن عمل سے آگاہ ذرائع کے مطابق امریکہ اور طالبان کے میز پر بیٹھنے کے اقدام نے پیشرفت کو خاصا آسان بنا دیا ہے اور امریکی اب اس حد تک پر امید ہیں کہ ایک تا ڈیڑھ برس کے اندر امن معاہدہ کر لیا جائے لیکن اس مدت کے دوران جنگ زدہ افغانستان کا نیا سیاسی ، دستوری و انتظامی ڈھانچہ تشکیل دینے ، فوجی انخلاء کے اہم مرحلہ کی تیاری ، افغان حکومت میں شامل مکتلف سیاسی جماعتوں اور گروپوں کو رام کرنا ، حزب اسلامی کے گل بدین حکمت یار جیسے مشکل راہنماء کو نئے سیٹ اپ میں کھپانا اور لاتعداد دیگر مسائل ایسے ہین جن میں سے ہر مسلہ، باریک بین، دور اندیشی، باریک بینی اور اخلاص کا متقاہی ہے ، بصورت دیگر افغانستان بدستور سلگتا رہے گا اور پاکستان جیسے پڑوسیوں کی افغانستان میں امن اور خطہ کو باہم منسلک کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہی رہے گا۔ مذکورہ ذریعہ کے مطابق افغانستان کیلئے صدر امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد اگرچہ دوسرے دورے کیلئے پاکستان نہیں آ سکے لیکن اس دوران وہ کابل ، ابو ظہبی اور قطر میں خاصے مصروف رہے۔ امن عمل کے حوالہ سے یہ سب سے اہم اطلاع منظر عام پر آئی ہے کہ کابل میں حالیہ قیام کے دوران ذلمے خلیل زاد نے اگلے سال اپریل کے دوران منعقد ہونے والے مجوزہ صدارتی انتخاب مئوخر کرنے اور ممکنہ طور پر ایک عبوری حکومت قائم کرنے کی تجویز دی ہے جو طالبان کے ساتھ امن سمجھوتہ کی صورت میں دستوری ترامیم ، انتخابی قواعد، سیاسی جماعتوں کیلئے قانون سازی اور نئی انتظامیہ کی تشکیل جیسے فرائض سرانجام دے۔ یہاں موصولہ اطلاعات کے مطابق اشرف غنی اور ان کے حامی ابتدائی طور پر اس پیشرفت کے حامی ہیں تاہم صدارتی انتخاب کے التواء کی تجویز نے ملک بھر میں نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ ان ہی دنوں افغان حکومت نے بھی امن عمل میں اپنی حصہ داری ظاہر کرنے کیلئے کابل میں امن دفتر قائم کرنے کا ارادہ کر لیا ہے جس میں ملکی سیاسی جماعتوں اور پڑوسی ملکوں کے مبصرین سمیت طالبان نمائندوں کو بھی جگہ دی جائے گی تاہم یہ طالبان تک ہے کہ امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے دوران وہ افغان حکومت کے امن دفتر میں بیٹھنا چاہیں گے یا نہیں۔ ایک مزید پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ چند روز پہلے ابوظہبی میں افغانستان، امریکہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے چار فریقی مذاکرات بھی منعقد ہوئے ہیں جن میں افغان امن عمل کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لیا گیا۔ اس چار فریقی مشاورت کی اپنی اہمیت ہے لیکن سعودی عرب اور قطر کی باہمی ناراضگی کا عنصر، عرب ملکوں کو امن عمل میں مئوثر کردار ادا کرنے سے روکے گا۔ امریکہ اور طالبان کی صورت میں امن مذاکرات کے دو ہی اصل فریق ہیں جو اب آمنے سامنے بیٹھے ہیں جس کی وجہ سے یہ تصور پس پشت چلا گیا ہے کہ امن اور مفاہمت کا عمل افغانوں کی سرکردگی میںہونا چاہیے ۔پاکستان سمیت تمام ملک اسی تصور کی حمائت کرتے ہیںتاہم افغان حکومت، امن بات چیت میں امریکہ اور طالبان پر اپنی افادیت ثابت نہیں کر سکی۔ طالبان کی مسلسل فوجی فتو حات کی وجہ سے امریکہ کے ساتھ بات چیت میں طالبان کی پوزیشن مضبوط ہو رہی ہے کیونکہ میدان جنگ کا فاتح کماندار مذاکرات کی میز پر بھی بالادست ہوتا ہے۔
قدرے قابل عمل امریکی تجاویز، افیغان امن عمل پٹڑی پر چڑھتا دکھائی دینے لگا، ذرائع
Nov 19, 2018