شعلہ بار سیاست: پُرعزم وزیر اعظم

زندگی اور موت اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے۔ موت کب آنی ہے کیسے آنی ہے وہ لکھ دیا گیا ہے۔بطور مسلمان تقدیر پرہمارایقین ہے۔ اسکے زندگی میں بھی عموماََ شواہد ملتے ہیں۔ میری ایسے کئی لوگوں سے ملاقات ہو چکی ہے۔ جن کو کچھ ایسے واقعات پیش آئے جن کا مشاہدہ وہ خوابوں اور مراقبوں میں کر چکے تھے۔ انسان زندگی کی اپنے بس میںجہاں تک ممکن ہے حفاظت کرتا ہے البتہ حضرت علیؓ کے بقول زندگی کی سب سے بڑی محافظ موت ہے۔جو قدرت کاملہ کی طرف سے مقررہ وقت سے قبل زندگی کے تار ٹوٹنے نہیں دیتی ۔ موت جتنی اٹل حقیقت ہے اتنی ہی یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ موت کا کوئی بہانہ ضرور بنتا ہے۔میاں نواز شریف کی صحت کو بڑا مخدوش قرار دیا جا رہا تھا۔ خراب صحت کی بنا پر ان کو علاج کیلئے 4ہفتے کی ضمانت ملی۔ ڈاکٹرز کی طرف سے کہا گیا پاکستان میں ان کا علاج ممکن ہے مگر تمام ٹیسٹ ایک چھت تلے یعنی ایک ہی جگہ پر نہیں ہو سکتے۔ لندن اس حوالے سے مناسب جگہ ہے۔حکومت کو شہباز شریف کی طرف سے درخواست دی گئی۔ حکومت نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر میاں نواز شریف کو لندن جانے کی اجازت اس شرط کے ساتھ دے دی کہ وہ سات ارب روپے کا سیکیورٹی بانڈ جمع کرا دیں۔ مسلم لیگ ن کے ترجمان ، ان کے خاندان کے افراد اور ذاتی معالج بار بار کہہ رہے تھے کہ میاں نواز شریف کی زندگی کو شدید خطرات ہیںان کا بلا تاخیرلندن منتقل ہونا انتہائی ضروری ہے۔ الزام ہے کہ حکومت میاں نواز شریف کی بیماری پر سیاست کر رہی ہے۔ اسے سیاست کرنے دیںآپ تو نہ کریں۔ آپکے پاس دھن دولت کی کمی نہیں۔ سات ارب روپے کی کوئی اہمیت اور حیثیت نہیں۔ میاں نواز شریف کی زندگی کو خطرہ ہے تو ان کے بیٹوں ،بھائی اور دوستوں و مراعات یافتگان کی طرف سے بانڈ بھرنے والوں کی لائن لگی ہونی چاہئے تھی۔مگر سب چوری خور مٹھو ثابت ہوئے۔حکومت بانڈ کے بغیر نہیں مان رہی تھی تو فریق ثانی اس پر تیار نہیں تھا معاملہ لاہور ہائیکورٹ چلا گیا۔جس نے درمیانی راستہ نکال دیا ،اسکے مطابق میاں صاحب آج لندن روانہ ہوجائیں گے۔عدالت نے بانڈ کی شرط ختم کردی اسکی جگہ بیان حلفی نواز اور شہباز شریف سے لے لئے۔اٹارنی جنرل انور منصور نے اس پر کہا کہ یہ حکومت کی جیت ہے دونوں بھائیوں نے خود کو عدالت کے سامنے گروی رکھا ہے جبکہ بانڈ کی شرط مسترد نہیں ہوئی معطل ہوئی ہے۔اس بیان پر بھی لیگی قیادت آگ بگولہ ہے۔حکومت نے اس فیصلے کو چیلنج نہیں کیا۔اس کا لیگی حلقوں کا احساس ہونا چاہیے ورنہ تو مزید تاخیر بھی ہوسکتی تھی۔حکومت ہی نے شہباز شریف کی درخواست پر میاں نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت دی تھی جس کی اٹارنی جنرل کیمطابق عدلیہ نے توثیق کی ہے جبکہ کیس ختم نہیں ہوا مزید سماعت جنوری کے آخری ہفتے ہونی ہے جس میں پانچ سوالوں پر بحث ہوگی۔
ٹاک آف دی ٹاؤن میاں نواز شریف کی صحت کے ساتھ مولانا فضل الرحمن کا مارچ اور دھرنا رہا۔ مولانا نے دھرنا اسلام آباد سے سمیٹ کر پورے ملک میں پھیلا دیا۔ وہ سڑکیں ، شاہراہیں بلاک کر رہے ہیں۔ حقیقت میں مولانا کا دھرنا بکھر کر رہ گیا ہے۔ کئی مقامات پر سڑکیں جزوی طور پر بند ہوئیں۔ جن کا متبادل موجود تھا ،کئی جگہوں پر خود متاثرین نے سڑکیں بلاک کرنیوالوں کی درگت بنا دی۔اے کی طرح بی پلان بھی سراب ثابت ہوا،مولانا نے سردی کی قہر آفرینی کا بہانہ تراشتے ہوئے شاہراہیں بند کرنے کی ٹائمنگ دوپہر دو سے شام پانچ بجے مقرر کی ہے۔ حکومت کی حکمت عملی بڑی صائب اور کار گررہی، اس نے دھرنا کی مخالفت کی نہ دھرنے کو ملک بھر میں پھیلنے سے روکا۔ مولانا کو من مرضی کرنے دی جس سے خود بخود مارچ دھرنے اور مولانا کی سیاست سے ہوا نکل گئی۔ ایسے چیلنجز سے حکومت بڑی حکمت اور دانش سے نبرد آزماہونے کے باعث مزید مضبوط ہوئی ،جو اپنی اپنی مدت پوری کریگی،اپنے مقاصد کیلئے پُر عزم عمران خان کی ریاستی امور اور گورننس پر گرفت مضبوط اور تما م امور کنٹرول میں ہیں۔اپوزیشن کا غلغلہ پیالی میں طوفان ہے۔عمران خان آج ’’مفاہمت‘‘کی بات کریں تو اپوزیشن کی آج کی شعلہ بار سیاست پانی کا بلبلہ ثابت ہوگی۔عمران خان نے معیشت کے درست سمت میں رواں اورمضبوط ہونے پر معاشی ٹیم کا شکریہ ادا کیا ہے۔اس حکومت کی کامیابیوں کی ایک پوری فہرست ہے۔ماضی کی حکومتوں کی دانستہ اور نادانستہ ٹیڑھی کی گئیں معاشی کلیں بھی اس حکومت نے بڑی مہارت اور حکمت اور دانش سے سیدھی کردی ہیں۔ایران نے پاکستان کا جرمانہ ختم کردیاجو تیس لاکھ ڈالر روزانہ تھا۔کارکے کمپنی کو ایک ارب بیس کروڑ ڈالر ادا کرنے تھے وہ بھی معاف اور رکوڈیک کے چھ ارب ڈالر بھی بچ گئے ہیں۔علم الاعددا اور ستاروں کی روشنی میںعثمان بزدار کے ستارے گردش میں دکھائی دیتے ہیں انکی حکومت کو ایک دھچکا لگتا نظر آتا ہے جس سے وہ بچ نکلنے میں کامیاب ٹھہرتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔

محمد یاسین وٹو....گردش افلاک

ای پیپر دی نیشن