دیگر کئی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی کورونا وائرس کی دوسری لہر کے حوالے سے صور ت ِ احوال بتدریج پریشان کُن اور گھمبیر ہوتی جا رہی ہے۔ گزشتہ کچھ ہفتوں کے دوران کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافے اور اِس کی وجہ سے ہونے والی اموات نے ایک بار پھرحکومتی اور عوامی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔کورونا وائرس سے نبرد آزما ہونے کے لیے قائم کیے گئے نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر (این سی او سی)کے مطابق ملک کے بڑے شہروں میں کورونا وائرس بڑی سرعت سے پنجے گاڑرہا ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق چند دن پہلے تک پاکستان میں کوروناکے مریضوں کی کُل تعداد 3 لاکھ 61ہزار 082 تھی۔ پنجاب میں ایک لاکھ 11 ہزار 047، سندھ میں ایک لاکھ 56 ہزار 528، خیبر پختونخوا میں 42 ہزار 615، بلوچستان میں 16 ہزار 449، گلگت بلتستان میں 4 ہزار 461، اسلام آباد میں 24 ہزار 444 جبکہ آزاد کشمیر میں 5 ہزار 538 مصدقہ کیسزسامنے آچکے ہیں۔ملک میں وائرس کے سبب جاں بحق والوں کی تعداد 7 ہزار 193 ہوگئی ہے۔مزید براں تین بڑے شہروں میں اِس وائرس کے پھیلاؤ میں 15 فیصد سے بھی زائد اضافہ ہوا ہے۔ مجموعی طور پرکورونا کے پھیلاؤ کی شرح 4.5 فیصد ہے جبکہ 15 بڑے شہروں میں یہ شرح حدِ خطر عبور کر چکی ہے۔چنانچہ ملتان میں 15.97 فیصد،پشاورمیں 9.69 فیصد، کوئٹہ میں 8.03 فیصد،اسلام آباد میں 7.4 فیصد،کراچی میں 7.12 فیصد،لاہور میں 5.37 فیصد، گلگت میں 15.38 ، مظفر آباد میں 14.12 فیصد اور میر پو ر میں 11.11 فیصدہے۔وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کے مطابق کورونا وائرس کے ٹیسٹ مثبت آنے کی شرح، شرح ِاموات اور ہسپتالوں میں مریضوں کے داخلے کی تعداد میں تشویشناک اضافہ ہوا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ وا ئرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے دیرپااقدامات اٹھانا تقاضائے وقت ہیں ورنہ حالات خراب ہوتے چلے جائیں گے۔
آخرمتعدّی امراض کے تناظر میں دوسری لہر سے کیا مرادہے؟کیا ہم اِس وقت کرونا وائرس کی دوسری لہر کے شکنجے میں ہیں؟ کسی متعدّی مرض کی دوسری لہر کی کوئی قابلِ قبول تکنیکی تعریف موجود نہیں ہے۔ممکن ہے جن حالات کو بیماری کی دوسری لہر کے طور پر شناخت کیا جا رہا ہو وہ اُس کی پہلی لہر کا ہی ایک حصّہ ہو۔ تاہم اِس حقیقت کا ادراک بے حد ضروری ہے کہ وائرس سے پیدا ہونے والی بیماریاں اور متعدّی امراض مخصوص نشیب و فراز یا لہروں کے اتار چڑھاؤ کی صورت میںمتشکل ہوتے ہیں۔چنانچہ جب وبا زور پکڑ جائے اور اورلوگوں کی ایک بڑی تعداد اِس سے متاثر ہو تو یہ فرازِ مرض کہلاتا ہے۔اِس کے بر عکس جب وبا کا زور کم ہو جائے اور اِس کے پھیلنے کی رفتار سست پڑنے لگے تو ایسی صورتِ حال کو وبا کے نشیب کے نام سے پکارا جاتا ہے۔اِن نشیب و فراز کو ہی دراصل لہروں کا نام دیا جاتا ہے۔ اِس طرح لہروں کی صورت وبائی اور متعدی امراض اپنے میزبان اجسام کے اندرقاتل طفیلیوں کے طور پر سفر طے کرتے رہتے ہیں۔قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ کسی متعدّی بیماری کی دوسری لہر اگر آ بھی جائے تو یہ کوئی نئی بیماری نہیں ہوتی بلکہ پہلی ہی بیماری کا دوسرا حصّہ یااگلا دور ہوتی ہے ۔ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور بعض اوقات قدرتی عوامل کے سبب بھی متعدّی امراض کی شدّت میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ پھر جب حالات مرض کے پھیلاؤ میں ممد و معاون ثابت ہونے لگتے ہیں تو اُس کی شدّت میں بھی اضافہ ہونے لگتا ہے۔
اِن حقائق کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ کرونا وائرس کی دوسری لہر کو متعدّی امراض کے ماہرینِ کی تجویز کردہ احتیاطی تدابیر اختیار کر کے روکا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر بد احتیاطی برتی جائے تو وبا کے پھیلنے کا شدید خطرہ پیداہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ این سی او سی کے ایک اعلامیے میں واضح کیا گیا ہے کہ کراچی، لاہور،اسلام آباد،راولپنڈی اور ملتان سمیت پاکستان کے 13 شہروں میں اگلے سال جنوری تک کورونا کے مریضوں میں اضافہ ہو نے کا خدشہ ہے اور ضروری ہے کے احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے ایک مربوط حکمت ِعملی کا نفاذ کیا جائے ۔ ابتدائی اقدامات کے طور پر ملک بھر میں شادی ہالز کے اندر تقریبات پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور اعلان کیا گیا ہے کہ ایسی تمام تقاریب کا انعقاد صرف کھلی جگہوں پر ہی کیا جا سکے گا۔کسی تقریب میں زیادہ سے زیادہ 3000 افراد شریک ہو سکیں گے۔ ماسک نہ پہننے والوں کو 100 روپے جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ تمام سرکاری اور نجی دفاتر میں 50 فیصد عملے کو گھر سے کام کرنے کی بھی ہدایت جاری کر دی گئی ہے۔ یہاںیہ یاد رکھنا بھی اہمیت کا حامل ہے وہ لوگ جو کرونا سے صحت یاب ہو چکے ہیں اُنھیں بھی اِن تمام احتیاطی تدابیرکو اپنانے کی اُتنی ہی ضرورت ہے جتنی کسی اور کو۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ ابھی تک ماہرین پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ یہ وائرس ایک سے زیادہ ب دفعہ کسی کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتاہے یا نہیں۔اِس وقت احتیاط ہی کورونا وائرس سے بچاؤ کا واحد ذریعہ ہے۔