افغانستان کی ترقی کا نیا سفر

افغانستان طویل عرصہ سے جنگی حالات سے دو چار ہے۔ افغان عوام شدید معاشی بدحالی کا شکار ہیں۔ لاکھوں افغان شہری جنگوں میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ ہزاروں معذور ہوچکے ہیں اور لاکھوں افغان عورتیں بیوہ ہوچکی ہیں۔ دور حاضر میں جنگ کو بھیانک تصور کیا جاتا ہے۔ مشکل سے ہی کوئی ملک ایک ماہ جنگی حالات کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ جس کی سب سے بڑی مثال آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان نگورنو کارا باخ کا تنازعہ پر جنگ کا آغاز اور بالآخر ڈیڑھ ماہ میں جنگ کا اختتام ہوگیا۔ 
افغان عوام گذشتہ چار دہائیوں سے امن کی تلاش میں ہیں۔ چار دہائیوں قبل سوویت یونین آف رشیا کی فوجیں افغانستان میں داخل ہوگئیں اور ایک دہائی کی طویل جنگ میں افغان سر زمین جنگی حالات سے نبرد آزما رہی۔ روسی فوجوں کے انخلاء سے تصور کیا جا رہا تھا کہ افغانستان میں امن ہوجائے گا اور افغان باشندے تعلیمی و معاشی میدان میں ترقی کریں گے۔ مگر 9/11 کو امریکہ میں جڑواں ٹاور پر فضائی حملہ افغانستان پر ایک نئی جنگ مسلط کرنے کا سبب بنا۔ یہ جنگ انتہائی خوفناک تھی اور اس میں جدید مغربی ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کیا گیا جس میں ایک دفعہ پھر لاکھوں افغان باشندے ہلاک ہوئے۔ امریکہ اور اس کی اتحادی فوجیں کابل شہر کا کنٹرول حاصل کر کے افغان حکومت بنانے میں کامیاب تو ہوگئے مگر 70 فیصد افغانستان پر طالبان کی حکومت قائم رہی۔ 
بالآخر 29 فروری 2020ء کو قطر کے شہر دوہا میں تاریخی ’’امن معاہدہ‘‘ انجام پایا۔ جس معاہدہ پر امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد اور طالبان کے رہنما عبد الغنی برادر نے دستخط کیے۔ اس تاریخی معاہدے کے پیچھے امریکی نمائندگان اور طالبان رہنماؤں کے درمیان مذاکرات میں نشیب و فراز کی ایک طویل داستان تھی۔ اس معاہدہ میں طے پایا کہ تمام امریکی اور نیٹو فوجیں افغانستان سے نکل جائیں گی اور طالبان القاعدہ کو افغانستان کی سرزمین استعمال نہیں کرنے دیں گے۔ آغاز میں امریکی اور اتحادی فوجیں 13000 سے کم کر کے 8600 کی جائیں گی اور 14 ماہ میں مکمل انخلا ہوجائے گا جبکہ 5 ملٹری ہوائی اڈے امریکی اور اتحادی فوجیں 135 دن میں خالی کردیں گی۔ دوسری جانب 27 اگست 2020ء تک طالبان پر سے اقتصادی پابندیاں ہٹا دی جائیں گی۔ اس معاہدہ کی اہم شق 5000 طالبان قیدیوں کی رہائی اور 1000 افغان حکومت کے قیدیوں کی رہائی تھی۔ اس معاہدے کے مطابق افغان حکومت اور طالبان قیدیوں کی رہائی کیلئے مذاکرات کریں گے۔ مزید طے پایا کہ مذاکرات کا آغاز ناروے کے شہر اوسلو میں 10 مارچ 2020ء کو ہوگا۔ اس امن معاہدے کو دنیا بھر میں خوب پذیرائی ملی۔ 
افغانستان معاشی اور تعلیمی میدان میں دنیا سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ اس جنگ نے خطے کے ممالک بالخصوص پاکستان پر شدید معاشی منفی اثرات مرتب کیے۔ پاکستان میں خودکش بمبار کا بے دریغ استعمال ہوا۔ ہزاروں پاکستانی شہری ان دھماکوں میں ہلاک ہوئے۔ ہزاروں قانون نفاذ کرنے والے اداروں کے اہلکار ان دھماکوں میں شہید ہوئے اور پاکستان کی معاشی حالات بد سے بدترین ہوگئے۔ امریکی دفاعی ادارے کے مطابق اس جنگ پر 2001 سے لے کر 2019 تک 1778 ارب ڈالر خرچ ہوئے۔ 2010ء سے 2012ء کے درمیان تقریباً 1 لاکھ امریکی فوجی افغانستان میں موجود  تھے جبکہ خرچہ اندازاً 100 ارب ڈالر سالانہ تھا۔ 2016ء اور 2018ء میں سالانہ خرچہ اندازاً 40 ارب ڈالر تھا۔ اس جنگ میں 27 جولائی 2018ء تک تقریباً 2372 امریکی فوجی ہلاک ہوئے جبکہ 20,320 امریکی فوجی زخمی ہوئے۔ تقریباً 1720 امریکی سول کنٹریکٹر اس جنگ میں ہلاک ہوئے۔ 
اس جنگ کی وجہ امریکی شہر نیویارک میں واقع امریکی جڑواں ٹاور پر 11 ستمبر 2001ء کو فضائی حملہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس حملہ کا الزام امریکی حکومت نے القاعدہ پر عائد کیا۔ اور اس کے سربراہ اسامہ بن لادن اس وقت افغان میں موجود تھے۔ امریکی حکومت نے اسامہ بن لادن کو افغان حکومت سے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا اور اس وقت افغانستان کے 90 فیصد سے زائد علاقہ پر طالبان کی حکومت تھی۔ طالبان حکومت کے امیر ملا عمر نے اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کردیا۔ یوں جنگ کا آغاز ہوا۔ 
دلچسپ بات یہ ہے کہ اتنے امریکی شہری 9/11 کے حملے میں ہلاک نہ ہوئے تھے جتنے اس جنگ میں ہلاک ہوئے اور دوسری جانب طالبان جو کہ القاعدہ کے قائد اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے سے گریزاں تھے۔ اب افغانستان میں القاعدہ کے وجود کو پنپنے نہیں دیں گے۔ اس طویل جنگ میں لاکھوں افغان شہری ہلاک ہوئے۔ سینکڑوں امریکی فوجی اور سول کنٹریکٹر امریکہ سے سینکڑوں میل دور ہلاک ہوئے۔ اس جنگ میں پاکستان انتہائی متاثر ہونے والا ملک ٹھہرا ‘ بد امنی کا شکار رہا اور معاشی طور پر بد حال ہوا۔ 
امریکہ کی خواہش پر پاکستان نے افغانستان امن معاہدہ کے لیے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ طالبان رہنماؤں نے 24 اگست 2020ء کو ملا عبد الغنی برادر کی سربراہی میں پاکستان کا دورہ کیا اور پاکستانی حکومت کے عہدیداروں سے ملاقاتیں کیں۔ اس ملاقات کو انتہائی اہمیت دی جا رہی ہے کیونکہ طالبان امن معاہدہ میں پاکستان کے کردار کو سرا رہے ہیں۔ دوسری جانب یہ دورہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان دوہا میں امن مذاکرات شروع ہونے سے قبل مزید اہمیت میں اضافہ کا حامل تھا۔ 12 ستمبر 2020ء کو قطر کے دارالحکومت دوہا میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کا کامیاب انعقاد ہوا۔ افغان حکومت کی نمائندگی عبداللہ عبد اللہ، چیئرمین افغان اعلیٰ کونسل برائے قومی ہم آہنگی اور طالبان کی نمائندگی ملا عبد الغنی برادر نے کی۔ 28 ستمبر 2020ء کو عبد اللہ عبد اللہ چیئرمین افغان عمل کونسل برائے قومی آہنگی پاکستان کے دورے پر تشریف لائے۔ اس دورہ میں افغان حکومت میں انتہائی اہمیت کے حامل عبد اللہ عبد اللہ نے وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور اعلیٰ حکومتی عہدیداروں سے خوشگوار ملاقاتیں کیں جو کہ ماضی کے برعکس تھیں۔ اس کی بنیادی وجہ دوہا میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان انتہائی کامیاب مذاکرات قرار دئیے جا رہے ہیں۔ 19 اکتوبر 2020ء کو افغان سابق وزیر اعظم گلبدین حکمت یار تین روزہ دورے پر پاکستان تشریف لائے۔  حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار افغان حکومت میں دو دفعہ وزیر اعظم کے منصب پر فائز رہ چکے ہیں اور ان کی جماعت حزب اسلامی کو افغانستان بالخصوص جلال آباد، کابل کے گرد و نواح میں مؤثر جماعت تصور کیا جاتا ہے۔ گلبدین حکمت یار نے اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں اور افغان حکومتی سفیر نے کامیاب ملاقاتوں کے انعقاد میں بنیادی کردار ادا کیا۔ جمعیت اسلامی کے سربراہ عبد اللہ عبد اللہ کا دورہ پاکستان کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان مضبوط اور پُر اعتماد تعلقات کا نیا دور قرار دیا جا رہا ہے۔ 
افغان رہنماؤں کے پاکستان کے یکے بعد دیگرے دورے کامیاب افغان امن معاہدہ کی نوید ہیں۔ زلمے خلیل زاد امریکی نمائندہ خصوصی نے امن معاہدہ میں کلیدی کردار ادا کیا۔ زلمے خلیل زاد نے انتہائی مؤثر سفارتکاری سے امن مذاکرات کو کامیاب بنایا۔ زلمے خلیل زاد 22 مارچ 1951ء کو افغانستان کے شہر مزار شریف میں پیدا ہوئے اور اعلیٰ تعلیم امریکن یونیورسٹی بیروت اور یونیورسٹی آف شکاگو امریکہ سے حاصل کی۔ 69 سالہ زلمے خلیل زاد کو افغان امن معاہدہ کرنے پر ہمیشہ خراج تحسین پیش کیا جاتا رہے گا۔ پُر امن افغانستان میں افغان عوام کیلئے تعلیم، صحت اور معاشی ترقی کے یکساں مواقع میسر آئیں گے۔ امن کا راستہ مشکل ضرور ہے مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر افغانستان کے عوام کیلئے حقیقت میں معاشی ترقی کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ خوشحال افغانستان ہی مستقل امن کا ضامن ہوسکتا ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن