ایوانِ صدر میں صدارتی اقبال ایوارڈ زکی تقریب

حکیم الامت اور مفکرِ اسلام حضرت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال خوش قسمت ہیں کیوںکہ اُن کی پذیرائی ، اُن کی زندگی میں شروع ہوئی اور آج بھی اُن کے فکر و فن کی جولانیوں پر اہلِ قلم مصروفِ عمل ہیں۔ اقبال کا آفاقی پیغام شرفِ انسانی ، آزادیٔ فکر و عمل، ہمہ گیر ، حیات افروز اورعطر کی مانند ہے۔ وہ نکتہ سنج، نکتہ ور اور گنجینۂ حسنِ معانی کی وجہ سے عالمِ انسانیت کے لیے امن ، عظمتِ انسانی ، خودی، اور فکرِ افسردہ کو محوِ پرواز رہنے کا پیغام دیتے ہیں۔ علامہ اقبال کے فکرو فن کی تفہیم اور ترویج کے لیے اقبال اکادمی پاکستان ایک عرصہ سے خدمات انجام دے رہی ہے ۔ حالات کے تغیر و تبدل کے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے ۔ 20مارچ 2020ء کو اقبال اکادمی پاکستان کا قلم دان پروفیسر ڈاکٹر بصیرہ عنبرین نے سنبھال کر اقبال اکادمی کی سرگرمیوں کو فعال بنا کر اس میں خونِ زندگی دوڑا دیا۔ بصیرہ عنبرین صحیفۂ جمالِ اقبال کی شناخت ہیں۔ اقبال کا فکر و فن اُن کے ہاں قوسِ قزح کی رنگینیوں کی طرح ہے جس طرح چاند مجسم حسن ہے اسے زیور پہنانے کی ضرورت نہیں ۔ اِسی طرح افکارِ اقبال اور اُن کی فنی ریاضت ڈاکٹر بصیرہ عنبرین کے قلم کی زینت ہیں۔ فکرِ اقبال کے مختلف گوشوں پر تحقیقی کتب لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی اقبال اکادمی کے مقاصد میں شامل ہیں۔’’صدارتی اقبال ایوارڈ ‘‘ محققین کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث ہے لیکن 2012ء سے 2019ء تک صدارتی ایوارڈز کا سلسلہ قعرِ خاموشی میں رہا۔ قومی ورثہ ثقافت ڈویژن حکومتِ پاکستان کے وفاقی وزیرتعلیم شفقت محمود کی شفقت سے تقریبِ صدارتی ایوارڈز کاسلسلہ از سرِ نو شروع کر دیا گیا ہے ۔ 2021ء کے یومِ اقبال کے موقع پر اقبال اکادمی پاکستان (قومی ورثہ ثقافت ڈویژن )کے زیرِ اہتمام عطائے صدارتی اقبال ایوارڈ ز کی تقریب ایوانِ صدر اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔ مندوبین کی ایوانِ صدر میں آمد کا سلسلہ اڑھائی بجے ہی شروع ہو گیا۔ محبانِ اقبال راقم السطور (ہارون الرشید تبسم)سمیت مقررہ وقت سے پہلے پہنچنے کا اقبالِ جرم کر چکے تھے۔ اکادمی کے اربابِ بست و کشاد کی کاوشوں سے ملک کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے ماہرینِ اقبالیات نے فیلو شپ کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ اقبالیاتی کتب پر بحث و تمحیص جاری رہی۔اسٹیج بڑی خوب صورتی سے سجایا گیا تھا۔ ملٹی میڈیا کے ذریعے اقبال اکادمی پاکستان کی کارگزاری حاضرین کی توجہ کا مرکز رہی۔اقبال کا شعر :
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا 
پینا فلیکس پر جہانِ تازہ کی صورت بہار دکھا رہا تھا۔ اسٹیج کے دونوں اطراف میں علامہ محمد اقبال کی تصاویر روشنی کے ذریعے ہال میں بیٹھے ہوئے سب احباب کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ ہال میں روشنیوں کا یہ عالم تھا کہ ہمارے سایے بھی گم ہو چکے تھے۔ صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی مقررہ وقت پر تشریف لائے جب اُنھیں اسٹیج پر مدعو کیا گیاتو وفاقی وزیر ِ تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت ، قومی ورثہ ثقافت ڈویژن ، شفقت محمود، سینیٹر ولید اقبال ، میڈم غزالہ سیفی ( وفاقی پارلیمانی سیکرٹری ) اورڈائریکٹر اقبال اکادمی پروفیسر ڈاکٹر بصیرہ عنبرین بھی  اُن کے ہمراہ تھے۔مہمانانِ خاص کے اسٹیج پر جلوہ فگن ہوتے ہی قومی ترانے کی دھنیںہال میں گونجنے لگیں۔ تقریب کا آغاز تلاوتِ قرآن حکیم سے ہوا۔ قاری اکرام الحق نے یہ سعادت حاصل کی۔ ڈائریکٹر اقبال اکادمی محترمہ بصیرہ عنبرین نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ  10 سال سے ایوارڈز کی تقسیم تعطل کا شکار رہی۔ اقبال اکادمی کے صدر وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے یہ جمود کو توڑکرصدارتی اقبال ایوارڈ کوحیاتِ نو بخشی۔ محترمہ بصیرہ عنبرین نے مزید کہا کہ حکومتی سطح پر مطالعۂ اقبال کو اہمیت دی جا رہی ہے، قومی اور بین الاقوامی سطح پر اقبال کی بصیرت کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ قومی حریت اور تحرک پیدا کرنے کے لیے فکرِ اقبال سے استفادہ بہت ضروری ہے ۔ سبطِ ڈاکٹر علامہ محمدا قبال محترم ولید اقبال (سینیٹر) نے اپنی گفتگو میں کہاکہ صدر ڈاکٹر عارف علوی سے زیادہ اقبال شناس کوئی صدارتی منصب پر فائز نہیں رہا ہے۔ وہ اقبال کے شاہین ہیںجو ہمہ وقت محوِ پرواز رہتے ہیں۔ وفاقی وزیر تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت شفقت محمود نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صدر مملکت ڈاکٹرعارف علوی  نے ایوان صدر کو علم کا گہوارہ بنا دیا ہے آج کی تقریب اس کی غماز ہے۔ کئی سال کے بعد اقبال پر لکھی گئی کتب کے مصنفین میں ایوارڈز کی تقسیم ہورہی ہے۔ انہیں اقبال اکادمی کی خدمت کا موقع مل رہا ہے اور آج کی تقریب اس کا حصہ ہے۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اپنے صدارتی خطبہ میں کہا کہ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے قائد اعظم کے ساتھ مل کر برعظیم کے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن کا تصور پیش کیا اور نوجوانوں کو خوداعتمادی کا درس دیا، قیام پاکستان ان کے وژن اور فلسفہ کا نتیجہ ہے۔ پاکستان کو علامہ اقبال کے فلسفہ اور بصیرت پر پورا اتاریں گے،اقبال کے افکار قیادت اور لیڈر شپ کے لیے ضروری ہیں۔ ضروری ہے کہ ہم علامہ اقبال کے افکارپر عمل کریں۔  صدر مملکت نے علامہ اقبال کی زندگی اور ان کے فلسفہ پر لکھی گئی کتب کے مصنفین کو صدارتی اقبال ایوارڈز عطاء کئے جن میں ڈاکٹر سید عبداللہ (مرحوم)(علامہ اقبال مسائل و مباحث2012)، ڈاکٹر اسلم انصاری(اقبال عہد ساز شاعر اور مفکر2011ئ)، ڈاکٹر تحسین فراقی(اقبال۔دیدۂ بینائے قوم2015ئ)، ڈاکٹر خالد الماس(استقرائی استدلال اور فکرِ اقبال 2010ء )،ظفر اقبال راجا(قانون دان اقبال2013ء )، خرم علی شفیق( Iqbal: His Life & Our Times, ئ2012-15ئ،  ڈاکٹر محمداعجاز الحق(اقبال اور سائنسی تصورات 2014ء ) ،خرم علی شفیق(اقبال کی منزل2016-19ء )شامل ہیں۔ یاد رہے کہ قائدِ اُردو ڈاکٹر سید محمد عبداللہ کا ایوارڈ اُن کی صاحبزادی ڈاکٹر عطیہ سید نے وصول کیا۔

ای پیپر دی نیشن