اقتصادی بارودی سرنگیں 

Nov 19, 2021

نوے کی دہائی میں وہ محکمہ ہیلتھ پنجاب کے سب سے بڑے کنٹریکٹر تھے اورانہوں نے پنجاب کے مختلف ہسپتالوں کو بھاری تعداد میں مشینری سپلائی کی تھی۔ انکے کاروبار کا اُصول یہ تھا کہ ہمیشہ کمیشن ایڈوانس دیتے تھے اور جب بھی وہ سول سیکرٹریٹ میں جاتے تو انہیں وہی احترام دیا جاتا تھا جو پنجاب اور سندھ کے دیہاتوں میں ان پڑھ عاملوں اورپیروں کو دیا جاتا ہے ۔ محکمہ صحت کا عملہ انکے پیچھے پیچھے ہوتا اور کہتا سر ! آپ کے چیک بنے پڑے ہیں لیتے جائیں اور وہ جس آفیسر کے کمرے میں بیٹھے ہوتے وہیں انہیں چیک وصول کروائے جاتے ۔پاکستان بھر کے ٹھیکیدار چیکوں کے حصول کیلئے افسران کے کمروں کے چکر لگاتے ہیں مگر وہ واحد شخصیت تھے کہ چیک انکے پیچھے پیچھے پھرتے تھے ۔ اب وہ دنیا میں نہیں رہے لہذا ان کا نام لینا قطعی طور پر مناسب نہیں ۔ ایک مرتبہ انہیں دل کا درد اٹھا تو فوری طور پر انہیں لاہور کے سروسز ہسپتال کی ایمرجنسی میں لیجایا گیا تب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی نہیں تھا۔ ایمرجنسی بنیادوں پر اس وقت کے ایم ایس نے اپنی موجودگی میں ان کی ای سی جی کروائی تو رپورٹ درست آئی مگر انہوں نے اس ای سی جی رپورٹ کو ماننے سے یہ کہہ کرانکار کردیا کہ یہ ای سی جی مشینیں انہوں نے ہی خود سپلائی کی ہیں کوئی دوسری لے کر آئیںاور دوبارہ ای سی جی کریں ۔چنانچہ ایسا ہی ہوا، دوسری مشین لائی گئی تو ان کا خدشہ درست نکلا ای سی جی کی رپورٹ میں معمولی گڑ بڑ تھی۔
نواز شریف جب 2013 ء میں برسر اقتدار آئے تو انہوں نے خاص طور پر وزارت عظمی کے ساتھ ساتھ وزارت خارجہ کا قلمدان بھی اپنے پاس رکھا اورانکے ابتدائی دور میں ہی پاکستان کی وزارتِ خارجہ مفلوج ہوکر رہ گئی تھی ۔ نہ تو کوئی اجلاس ہوتے اور نہ ہی خارجہ پالیسی کے حوالے سے کوئی بریفنگ یا کسی بھی قسم کے فیصلے منظرِعام پر لائے جاتے۔میں نے اس صورتحال کے حوالے سے ان دنوں ایک ریٹائرڈ سفارتکار سے پوچھا کہ میاں نواز شریف نے وزارتِ خارجہ کا قلمدان اپنے پاس کیوں رکھا ہوا ہے ؟ انہوں نے بتایا اس کی دو وجوہات تو بہت اہم ہیں ۔ اول یہ کہ انہوں نے عالمی تناظر میں کیا پالیسی رکھنی ہے اس کا علم صرف انہیں ہی رہے اور اگر کوئی دوسرا شخص وزارتِ خارجہ کا قلمدان اپنے پاس رکھے گا تو پھر سیکریسی برقرار رکھنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہوتا ہے جبکہ دوسری وجہ یہ ہے کہ میاں صاحب وزیراعظم بعد میں اور کامیاب بزنس مین پہلے ہیں ۔ دنیا کے کس ملک کو کس چیز کی فوری ضرورت ہے اسکی اطلاع دنیا بھر میں سب سے پہلے وزارتِ خارجہ ہی کو ملتی ہے اور یہ بہت منافع بخش کام ہوتا ہے اس لئے بھی وزارت خارجہ میاں صاحب نے اپنے پاس رکھی ۔ پھر انہوں نے مزیدکہا کہ بھارت سے تعلقات کے حوالے سے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ و دیگر متعلقہ ادارے بہت الرٹ رہتے ہیں ۔ وزیر خارجہ اور انکے درمیان گہرا ربط ہوتا ہے جو کہ میاں نواز شریف کے معاملے میں برقرار نہیں رہا تھا اور بطور وزیر خارجہ انہیں بعض ممالک سے تعلقات استوار کرنے میں رکاوٹ کا سامنا پسند نہ تھا۔
2014ء کے اواخر میں ہی میاں نواز شریف کی وزارتِ عظمی کے خاتمے پر کام شروع ہوچکا تھا مگر نوازشریف دو مرتبہ وزارتِ عظمی پر فائز رہنے کے بعد اچھے خاصے کاریگر ہوچکے تھے اور انہیں اندازہ تھا کہ یہ ان کی آخری وزارتِ عظمی ہے لہٰذا وہ کھل کر کھیلے ۔ انہوں نے اپنی کچن کیبنٹ کے فعال ترین رکن اسحاق ڈار کے ساتھ مل کر ایسی ایسی پالیسیاں بنانا شروع کیں اور پاکستان کو طویل المدت قرضوں کے حوالے سے ایسے مسائل میں الجھانا شروع کردیا جو کسی طور بھی ملکی مفاد میں نہ تھے اور جن کا بوجھ ہر آنے والی حکومت کو اٹھانا پڑنا تھا۔ حیرت اس بات پر ہے کہ تمام تر معلومات کا علم ہونے کے باوجود اسٹیبلشمنٹ خاموش کیوں رہی اور ان اقتصادی پالیسیوں کی راہ میں رکاوٹ کیوں نہ بن سکی ؟ یہی سوال جب میں نے انہی کی وزارتِ خارجہ کے ایک ریٹائرڈ سنیئر آفیسر سے کیا تو انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کتنی بھی فعال کیوں نہ ہو وہ کبھی بھی کاروباری اور سیاسی شخصیت کا مقابلہ نہیں کرسکتی اور ویسے بھی اسٹیبلشمنٹ کا سب سے بڑا المیہ یہ بھی ہوتا ہے کہ جب انہیں سمجھ آنے لگتی ہے تب تک فیصلہ کرنے والے اہم ترین سرکاری آفیسرز کی ریٹائرمنٹ کا وقت قریب آجاتا ہے اور وہ اپنی مدت ملازمت کے آخری ایک دوسالوں میں اپنی توجہ کا زیادہ تر حصہ اپنے بیوی بچوں کے مستقبل کو محفوظ کرنے کی منصوبہ بندی پر صرف کردیتے ہیں۔کیونکہ اعلیٰ سرکاری عہدوں پر رہتے ہوئے انہوں نے جس طرح کی مراعات ، پروٹوکول ،سہولیات اور کروفر کو سالہا سال تک انجوائے کیا ہوتا ہے وہ سب کچھ انہیں چھنتا ہوا صاف نظر آنے لگ جاتا ہے۔لہذا ان کی دلچسپی اور توجہ قومی مفاد سے ہٹ اور بٹ بھی جاتی ہے۔ سالہا سال سے سیاسی میدان کے کاریگروں کیلئے یہی سنہری موقع ہوتا ہے جس کی وہ ہمہ وقت تاک میںرہتے ہیں ۔ایسی صورتحال میں پاکستانی سیاستدان حالات کا بہترین مقابلہ کرتے اور پیش بندی بھی کرلیتے ہیں۔ جہاں وہ اپنے ارد گرد حفاظتی حصار بناتے رہتے ہیں وہیں پر دوسروں کیلئے کانٹے بونے اور بارودی سرنگیں بچھانے میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں ہوتا ۔
 2014ء میں میاں نواز شریف کو جب بخوبی اندازہ ہوگیا کہ اب حالات ان کے موافق نہیں رہے اور انکے متبادل کی تلاش جاری ہوچکی ہے تو انہوں نے تمام تر مشورے اپنی کچن کیبنٹ تک محدود کردئیے۔ جہاں ایک طرف ترقیاتی منصوبوں اور میگا پراجیکٹس کی بھرمار کردی وہیں بھاری قرضے اور ناقابل عمل معاہدے کرکے آنے والی حکومتوں کیلئے بارودی سرنگیں بچھانے کا باریک کام بھی شروع کردیا ۔حیرت تو اسٹیبلشمنٹ پر ہے جسے علم ہی نہ ہوا کہ میاں نواز شریف اور اسحاق ڈار نے اقتصادی بارودی سرنگوں کا اچھا خاصا سٹاک جمع کر رکھا ہے ۔ سچ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اپنی ریٹائرمنٹ سے سال دو سال پہلے ہی ذہنی طور پر ریٹائر ہوکر خود کو محدود اور اپنی تمام تر توجہ تقسیم کرلیتی ہے جس کا ہمیشہ فائدہ کاریگر سیاستدان کو ہوتا ہے۔ 

مزیدخبریں