فرمایا گرونانک نے ’ باہج محمدؐ  بھگتی ناہیں‘ (1)

Nov 19, 2021

معزز قارئین ! جناب عمران خان پاکستان کے پہلے وزیراعظم ہیں کہ ’’جنہوں نے اپنے ( بھارتی سِکھ) کرکٹر دوست نوجوت سنگھ سدھو کی فرمائش پر  سِکھوں کے گُرو  گُرو نانک جی  کے 549 ویں جنم دن ( سالگرہ ) کی تقریبات کے آغاز پر  28 نومبر 2018ء کو بھارت کے شہر گُروداسپور میں ڈیرہ بابا نانک سے پاک بھارت سرحد تک "Corridor" ( راہداری ) کا سنگ بنیاد رکھا تھا ۔ آج 19 نومبر کو گُرو نانک جی کی 552 ویں سالگرہ شروع ہو گئی ہے۔  خبروں کے مطابق 26 نومبر تک یہ تقریبات میلے کی صورت میں جاری رہیں گی۔ بھارت سمیت دُنیا بھر سے ہزاروں سِکھ یاتری اِس میلے میں شرکت کر رہے ہیں ۔ 
28 رکنی سِکھ یاتریوں کا وفد کرتار پور پہنچا ، جس کا ’’ پاکستان سِکھ گُورودوارہ پربندھک کمیٹی ‘‘ کے صدر سردار امیر سنگھ اور سی ای او کرتار پور مینجمنٹ یونٹ عبداللطیف نے استقبال کِیا اور یاتریوں کو پھولوں کے  ہار پہنائے گئے ۔ دریں اثناء وزیر خارجہ پاکستان شاہ محمود قریشی صاحب نے بھارت کی طرف سے کرتار پور رہداری کے کھولنے کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہُوئے کہا کہ ’’ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں ایسا ہی ماحول پیدا کرے ، پاکستان میں جتنی بھی اقلیتیں ہیں اُنہیں اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی مکمل آزادی ہے ! ‘‘ ۔ 
 ذات کے ’’ کھتری ‘‘ ( بیدی ) ہندو گُرو نانک جی 1469ء میں صوبہ لاہور کے علاقہ ’’ رچنا دو آب ‘‘ میں پیدا ہُوئے اور اُنہوں نے ہندی ، سنسکرت ، فارسی ، عربی، اردو اور پنجابی زبان بھی سیکھ لی تھی ۔ گُرو جی کا ہندو براہمنوں اور مسلمان اولیاء کرام سے گہرا تعلق تھا ۔ وہ پاکپتن شریف اور ملتان کے دورے پر بھی گئے ، جہاں اُنہوں نے بابا فرید شکر گنجؒ  اور شیخ بہاء اُلدّین زکریا ؒ کے جانشینوں سے صوفیانہ طریقے پر مباحث میں حصّہ لِیا۔ گُرو نانک جی شاعر بھی تھے ۔ اُن کے ایک شعر کا مطلع ہے کہ … 
’’ باہج محمد ؐ ، بھگتی ناہِیں! ‘‘ 
یعنی ’’ پیغمبر اِنسانیت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بغیر عبادت قبول نہیں ہوتی ‘‘۔
مصّور ِ پاکستان علاّمہ محمد اقبال نے ’’نانک‘‘ کے عنوان سے گُرو نانک جی  کے بارے اپنی ایک نظم میں کہا تھا کہ …
’’ پھر اُٹھی آخر صدا، توحید کی ، پنجاب سے!
ہند کو ، اِک مردِ کامل نے ، جگایا خواب سے!‘‘ 
یعنی۔ ’’ مدّت دراز کے بعد پھر ہندوستان میں ایک ایسا خدا پرست مذہبی پیشوا پیدا ہُوا جس نے توحید کی روشنی سے شرک کی اِس اندھیری سر زمین میں اُجالا کردِیا ! ‘‘ ۔ 
’’ حضرت میاں میرصاحب! ‘‘ 
یوں تو گُرو نانک جی سے لے کر  گُرو ارجن دیو تک  کئی مسلمان صُوفیاء سے تعلقات تھے لیکن گُرو ارجن دیو کی خواہش اور دعوت پر لاہور میں (سلسلہ قادریہ) کے حضرت میاں میر صاحب (1550ئ۔ 1635ئ) نے امرتسر میں 1604ء میں سِکھوں کے مقدس مقام ’’ہرمندر‘‘ (Golden Temple) کا سنگ ِ بنیاد رکھا ، پھر کیا ہُوا؟ مغل بادشاہ نور اُلدّین جہانگیر اپنی حکومت کیخلاف گُرو ارجن دیو سے ناراض ہُوئے تو  اُنہیں قتل کرادِیا گیا۔ اب کیا کِیا جائے کہ ’’ بادشاہ تو بادشاہ ہی ہوتے ہیں ؟‘‘ پھر یہ ہُوا کہ ’’سِکھ قوم نے ( خاص طور پر پنجاب میں ) مسلح افواج کی شکل اختیار کرلی تھی؟
’’ماسٹر تارا سنگھ / گیانی کرتار سنگھ ! ‘‘ 
معزز قارئین ! کیوں نہ تقسیم ہند اور تحریک پاکستان کی بات ہو جائے ؟ قائداعظم محمد علی جناح نے سِکھ لیڈروں سے کہا تھا کہ ’’ گُرو نانک دیو  کی ’’ جنم بھومی‘‘ ( مقام پیدائش ) اور دوسرے گُروئوں کے مقدس مقامات متوقع پاکستان میں واقع ہیں کیوں نہ سِکھ قوم  پاکستان میں مسلمانوں کے ساتھ رہے لیکن دو بڑے سِکھ لیڈروں  ماسٹر تارا سنگھ اور گیانی کرتار سنگھ نے اعلان کردِیا تھا کہ ’’ پاکستان صرف ہماری لاشوں پر ہی بن سکتا ہے ! ‘‘ 
’’ پنجاب میں مسلمانوں کا قتل عام ! ‘‘ 
معزز قارئین ! مَیں متحدہ ہندوستان کے سارے صوبوں کی بات نہیں کر رہا بلکہ سِکھوں کے ہاتھوں پنجاب کے مسلمانوں کے قتل عام کی بات کر رہا ہُوں ۔ سِکھوں نے (پنجابی زبان بولنے والے ) 10 لاکھ مسلمانوں کو قتل کِیا اور 55 ہزار مسلمان عورتوں کو اغواء کر کے اُنکی بے حرمتی کی۔ سِکھ ریاست نابھہؔ میں میرے والد صاحب  تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن رانا فضل محمد چوہان ’’ آل انڈیا مسلم لیگ ‘‘ کے "National Guard" کو ’’ لٹھ بازی ‘‘ سِکھایا کرتے تھے۔ ریاست نابھہؔ، ریاست پٹیالہؔ اور ضلع امرتسر ؔمیں میرے خاندان کے 26 افراد ( زیادہ تر) سِکھوں سے لڑتے ہُوئے شہید ہُوئے تھے۔  جو مسلمان بھارت کے مختلف صوبوں اور خاص طور پر پنجاب کے مختلف علاقوں سے ہجرت کے بعد پاکستان میں آباد ہُوئے تھے  اُنہوں نے کبھی سِکھوںکو معاف نہیں کِیا ۔
’’ سانجھا پنجاب ! ‘‘ 
مجھے دسمبر 2004ء میں وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے بھارتی پنجاب کے شہر پٹیالہؔ میں منعقدہ ’’ عالمی پنجابی کانفرنس‘‘ میں شریک ہونے کا موقع مِلا۔ 2 دسمبر 2004ء کو ’’ پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ‘‘ کے سائنس آڈیٹوریم میں بھارتی صحافی/ دانشور (آنجہانی) کلدیپ نائر صاحب کی صدارت میں منعقدہ تقریب میں بھارتی سِکھ شاعروں،  ادیبوں ، دانشوروں اور صحافیوں نے ’’ سانجھا پنجاب‘‘ کی بات کی۔ وہ پاک پنجاب میں بولی جانے والی پنجابی کو ’’ شاہ مُکھی‘‘ ( بادشاہوں کے مُنہ سے نکلی زبان ) کہہ رہے تھے لیکن مَیںنے کہا کہ ’’ساڈی پنجابی تے صوفی شاعراں تے عام لوکاں دِی زبان اے ۔ مَیں اَج اپنی پنجابی نُوں ’’لوک مُکھی‘‘ دا نا ں دینا ں ! ۔ یعنی۔ ’’ عام لوکاں دے مُنہ وِچوں نکلی ہُوئی زبان! ‘‘ پھر مَیں نے اپنے مُنہ پر ہاتھ پھیرتے ہُوئے کہا کہ ’’پنجاب دِی سرحدی لکِیر وِچّ میرے بزرگاں دا لہو شامل اے۔ مَیں ایس لکِیر نُوں کدے وِی نئیں مِٹن دیاں گا‘‘۔ پھر مَیں نے سٹیڈیم میں اپنے لئے ناپسندیدہ چہرے دیکھے! 
’’ چودھری پرویز الٰہی ! ‘‘ 
معزز قارئین ! پٹیالہ میں چودھری پرویز الٰہی کی بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیپٹن (ر) امریندر سنگھ سے دو ملاقاتیں ہُوئیں لیکن اُنہوں نے کہا کہ ’’ پاک پنجاب اور بھارتی پنجاب میں خوشگوار تعلقات ہو سکتے ہیں لیکن دو قومی نظریۂ کی بنیاد پر پاکستانی پنجابی اور بھارتی پنجاب کی سرحدیں مستقل ہیں ۔ مَیں ’’ سانجھا پنجاب ‘‘ کی کبھی بھی حمایت نہیں کرسکتا ؟ ‘‘ (جاری ہے )

مزیدخبریں