پاکستان میں کسی بھی حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان معاملات کبھی بھی ایسے نہیں رہے جن کی بنیاد پر کہا جاسکے کہ دونوں فریق ملک میں جمہوریت کے فروغ اور سیاسی نظام کے استحکام کے لیے کچھ نکات پر متفق اور متحد ہیں۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے مابین ہونے والی دھینگامشتی کی وجہ سے ہی ملک میں ایسے حالات پیدا ہوتے رہے ہیں کہ غیر سیاسی قوتیں جمہوری نظام کو موم کی ناک کی طرح اپنی مرضی سے جس طرف چاہیں موڑتی رہی ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتوں کی قیادت فکری طور پر آج بھی اتنی بالغ نہیں ہوسکی کہ جمہوریت کے اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے معاملات کو آگے بڑھا سکے۔ نتیجہ اس سب کا یہ نکلتا ہے کہ سیاسی قائدین کے آمرانہ رویوں کی قیمت ملک، نظام اور عوام کو چکانا پڑتی ہے۔ ملک میں سیاسی اور انتظامی حوالے سے بہتری لانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ حکومت اور حزبِ اختلاف مل کر افہام و تفہیم سے معاملات کو بہتری کی طرف لائیں لیکن ہر نیا واقعہ یہ بتاتا ہے کہ ابھی یہ بات محض ایک خواہش یا خواب ہی ہے۔
بدھ کے روز ایسا ہی ایک واقعہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے موقع پر اس وقت پیش آیا جب اپوزیشن کے شدید احتجاج اور ہنگامہ کے باوجود حکومت نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے 33بل بآسانی کثرت رائے سے منظور کرالیے۔ منظور کیے گئے بلوں میں انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایمز) کے استعمال اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹنگ کا حق دینے، انسداد بد عنوانی ایکٹ ترمیمی بل، بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو سے متعلق عالمی عدالت انصاف نظرثانی و غور مکرر بل، سٹیٹ بینک آف پاکستان بینکنگ سروسز کارپوریشن ترمیمی بل، انسداد ریپ (انوسٹی گیشن اینڈ ٹرائل) بل سمیت دیگر شامل ہیں۔ پہلے ہی بل پر 203کے مقابلے میں221ووٹوں کی حکومتی برتری کے بعد اپوزیشن ایوان سے واک آئوٹ کر گئی ۔ اپوزیشن کے ارکان بعد میں واپس آگئے لیکن حکومت نے آسانی سے نہ صرف ایجنڈے میں شامل 28بل بلکہ ضمنی ایجنڈے میں شامل مزید 5بل بھی منظور کرا لیے۔ ایوان سے منظور کیے گئے بلوں میں اپوزیشن کے دو بل بھی شامل ہیں۔
اجلاس کے دوران حکومتی اور اپوزیشن ارکان کے درمیان تلخ کلامی اور ہاتھا پائی بھی ہوئی ۔ اپوزیشن ارکان نے سپیکر کے سامنے جمع ہو کر نعرے بازی کی اور ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر ہوا میں اڑا دیں۔ اپوزیشن نے ایوان میں ہونے والی گنتی کے نتائج کو چیلنج کیا تو سپیکر نے کہا کہ گنتی بالکل درست ہوئی ہے۔ اجلاس میں اپوزیشن اپنے ارکان پورے کرنے میں ناکام رہی۔ پیپلزپارٹی کے سکندر میندھرو، نوید قمر، یوسف تالپور غیرحاضر، علی وزیر، اختر مینگل ایوان کی کارروائی میں شریک نہیں ہوئے۔ پارلیمنٹ نے مشترکہ مفادات کونسل کے مردم شماری 2017ء کے فیصلے کے خلاف سندھ حکومت کا ریفرنس مسترد کردیا۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ ماضی میں 17، 17سال مردم شماری نہیں ہوتی تھی لیکن اب عمران خان نے پانچ سال بعد نئی مردم شماری کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ مردم شماری کا مسئلہ حساس ہے، سندھ میں دیگر صوبوں سے آکر لوگ آباد ہیں، سندھ میں آنے والوں کو ان کے علاقوں میں شمار کیا گیا اس لیے حقیقی آبادی شمار نہیں ہو سکی۔
متحدہ اپوزیشن نے مشترکہ اجلاس میں منظور کردہ بلوں کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ متحدہ اپوزیشن نے کہا ہے کہ حکومت بل منظور کرانے میں ناکام ہو گئی ہے، حکومت کو 222 ووٹ درکار تھے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ (نواز) کے صدر شہبازشریف نے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، جمعیت علماء اسلام کے اسعد محمود سمیت دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کی۔ اس موقع پر شہباز شریف کا کہنا تھاکہ قانون سازی کو بلڈوز کیا گیا، اس ماحول میں قانون سازی نہیں ہوسکتی، اپوزیشن کے ووٹوں کو کم ظاہر کیا گیا، اپوزیشن نے اعتراض بھی کیا جس کو اہمیت نہیں دی گئی تو واک آوٹ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 167 ملکوں میں سے صرف 8 ممالک میں ای وی ایم استعمال ہورہی ہے۔ نو ممالک نے اسے بند کر دیا ہے۔ الیکشن کمشن بھی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو مسترد کر چکا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ مشترکہ اجلاس کے اپنے رولز ہوتے ہیں۔ میں نے پوری کوشش کی کہ سپیکر کو رولز بتاؤں، جوائنٹ سیشن سے کسی بل کو منظور کرانے کے لیے 221 ووٹوں کا ہونا ضروری ہے، مشترکہ اجلاس میں حکومت کی جیت نہیں ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ کلبھوشن کو این آر او اور الیکشن ترمیمی بل سمیت دیگر بلز کو ہر فورم پر چیلنج کریں گے۔
حکومت کی مرضی کے بل منظور ہونے سے وقتی طور پر تو حکومت کو سہارا مل گیا ہے لیکن یہ ایک بڑی آزمائش ہے۔ حکومت نے جو بل منظور کرائے ہیں ان میں کچھ ایسے ہیں جن سے متعلق نہ تو حزبِ اختلاف مطمئن ہے اور نہ ہی عوام۔ اس صورتحال کے جو منفی نتائج برآمد ہوں گے ان سے حکومت کو تو شاید کم نقصان پہنچے گا لیکن جمہوری نظام پر زیادہ زد پڑنے کا امکان ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ حزبِ اختلاف کی تمام جماعتوں کو ساتھ بٹھا کر مختلف معاملات پر ان سے مشاورت کرے تاکہ تمام مسائل افہام و تفہیم سے حل کیے جاسکیں۔ اسی سے جمہوریت کے فروغ کا راستہ بھی نکلے گا اور اسی سے ملک میں سیاسی و انتظامی استحکام بھی آئے گا۔ اگر اپوزیشن کی تمام تجاویز کو رد کرتے ہوئے حکومت اپنی مرضی سے پورے نظام کو چلانے پر مصر رہے گی تو اس سے معاملات بگاڑ کی طرف جائیں گے۔