عشق ممکن ہے تری ذات سے آگے نکلے 

راول دیس کی شاعرات میں سے ایک، جن کے ہاں اَن کہے جذبوں کے اظہار کی آرزو اور سبھی کچھ کَہ کر بھی،مزید کہنے کی جستجو دم بہ دم موجود ہے، وہ شاذیہ اکبر ہیں۔ ہوش سے جنون کی جانب سفرکناں ہیں۔ شعور کی قید میں رہ کر لکھنا خاصا دشوار ہوتا ہے، اس لئے وہ لاشعور میں بھی دل کی بات زباں پہ لانے میں مگن ہیں اور نعرئہ مستانہ لگا رہی ہیں’’مجھے اذنِ جنوں دے دو‘‘۔ شعور و لاشعور، فرزانگی و دیوانگی کی ساری منزلیں طے کرتے ہوئے، رُو بہ صدا ہیں کہ ’’محبت حسنِ کامل ہے‘‘۔ ان کے ہاں وارفتگی سی وارفتگی ہے۔ وہ دستِ ہنر کا لمس جسم و جاں میں جذب کرنے کی خواہاں ہیں اور چاک پہ رہ کر مزید سنورنا چاہتی ہیں۔ وہ کوزہ گر سے مخاطب ہیں۔ وہی کوزہ گر جس نے محبت اور عشق جیسے طیب جذبے تخلیق کیے ، بصورتِ دیگر یہ جسم و جاں، یہ دنیا، یہ کائنات بے اثر ہو کر رہ جاتی۔ شاذیہ اکبر مکمل ہو کر بھی نامکمل ہونے کی دعوے دار ہیں اور یہی دعویٰ ان کی کاملیت پر دال ہے:
؎اتنی جلدی کیا ہے تھوڑا چاک پہ رہنے دو مجھ کو
دستِ ہنر کے لمس کو ترستی ہوں میں یار ہمیشہ سے
؎ہماری خاک جس پر گھومتی ہے
کبھی اس چاک کے چکر تو دیکھو
شاذیہ اکبر کے ہاں بے خودی سی بے خودی ہے۔ اذنِ جنوںکی طلب اور’ محبت حسنِ کامل ہے‘ کی للکار کے بعد انھوں نے عشق کاایک انوکھا نگر آباد کیا ہے۔ اس نگر میں۔۔۔ عشق کے الائو میں آدمی
 چاہے بھسم ہو کر رہ جائے لیکن یہ نگر آباد رہنے اور عشق دہکتے رہنے کی دعا اس کی زباں پہ یکسر موجود رہتی ہے۔ عاشقین کی حیات عشق کی حدّت سے جِلا پاتی ہے۔ عشق کے سوا، زمینِ دل میں کوئی اور فصل نہیں بوئی جا سکتی اور کوئی دوسرا موسم جلوے نہیں دکھا سکتا۔ یہاں ہر آن ایک ہی موسم ہے۔ محبت اور عشق کا موسم، جو جسم و جاں کو شادوشاداب کرتا اور تقویت دیتا ہے۔ انھوں نے کہا تھا:
؎مجھے عشق کی آگ میں زندگی کی حرارت نظر آ رہی ہے
نہیں غم، اگر راکھ ہو جائوں جل کر، دہکتا رہے عمر بھر عشق
؎عشق کا رنگ ہے چھایا مرے دل پر ورنہ
اب نہ اترے گا کوئی اور صحیفہ ہو کر
عشق کے باب میں شاذیہ اکبر ’’تُو تُو نہ رہا،مَیں مَیں نہ رہا‘‘ کے مصداق ہیں، جہاں سبھی فاصلے مِٹ کر رہ جاتے ہیں۔ تمام حائل قوتیں زاہل ہو کر رہ جاتی ہیں۔ قرب، قریب اور قربت کے معانی آشکار ہوتے چلے جاتے ہیں۔ تقرب کے باوصف مقرب ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ انسان ذوقِ دید سے آگے کا سفر کرتا ہے۔ وہ باطن میں جھانکتا ہے تو کائنات کی پَرتیں اس پر آشکار ہوتی چلی جاتی ہیں۔ وہ رُو برو اور دُو بدو ہو جاتا ہے۔ بندگی و مناجات کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں:
دید سے ذوقِ ملاقات سے آگے نکلے
عشق ممکن ہے تری ذات سے آگے نکلے
یہ مرا ہونا ترے ہونے میں مدغم ہو کر
بندگی اور مناجات سے آگے نکلے
 عشق کائنات کا احاطہ کرتے ہوئے بالآخر اہلِ کربلا کی بارگاہ میں دست بستہ پیش ہوتا اور قدم بوسی کرتا ہے۔ عشق درحقیقت کربلا والوں کی دہلیز پہ اپنی تکمیل چاہتا ہے۔ وہ حالتِ قیام میں اور کہیں سربسجود ہے۔ اس لئے کہ عشق کی منزل کربلا ہے اور کربلا و اہلِ کربلا کا عشق مقدر سے ملتا ہے۔ یہ نصیب کی بات بلکہ نصیب دَر نصیب کی بات ہے۔ تبھی عشق کا ہر راہی بالآخر کربلا کی راہ کرتا، آنسو بہاتا اور پھر امر ہو جاتا ہے:
؎کربلا کی یاد نے پیدا کیا مجھ میں گداز
ہے مرا گریہ سلامت، بھیگی پلکوں کے طفیل
؎لے رہی تھی کروٹیں بے چین ہو کر جب زمیں
آسماں تھا سرخ، اور تھی کربلا پیشِ نظر
شاذیہ اکبر باتوفیق اس طور سے ہیں کہ منزل کو چُھو لینے کے باوجود متلاشیانِ منزل میں سے ہیں۔ وہ سفر دَر سفر کی آرزو مند ہیں۔ تمنا بیدار رہے، تلاش جاری رہے، مرگِ آرزو نہ ہو اور سفر کے زینے طے ہوتے چلے جائیں۔ پُرکشش راستے اور لذتِ سفر کے باوصف، شاذیہ اکبر نے منزل سے یکسر صَرفِ نظر کیا ہے۔ تسخیرِ ذات سے تسخیرِ کائنات کا سفر رواں دواں ہے۔ منزل نہیں بلکہ راستہ اختیار کرنے اور مسافر رہنے کا اعتراف ان کے شعر سے ملاحظہ کیجئے:
؎ہم نے منزل سے ہٹا لی تھی نظر اپنی کہ جب
تھا بہت ہی پرکشش اک راستہ پیشِ نظر
شاذیہ اکبر سوا مقام کی حامل شاعرات میں سے ہیں، جن کے ہاں فکروفن مدغم ہو کر رہ گیا ہے۔ بلاشبہ وہ ایسے کرداروں میں سے ہیں جو انھی کے بقول قرطاس پہ صدیوں زندہ رہتے ہیں۔ ’’چاک پہ رہنے دو مجھ کو‘‘ جیسا خیال مقدر ہونے اور پھر یہ خیال منصہ شہود پہ آنے پر دل کے خانہ ء نہاں سے تہنیت پیش کی جاتی ہے۔ اس دعا کے ساتھ کہ ان کا خیال دَر خیال، لفظ دَر لفظ، مصرع دَر مصرع تا ابد زندہ رہے اور صاحبانِ ذوق کے قلوب پہ نقش ہوتا چلا جائے۔ آخر میں مناجاتِ شاذیہ اکبر بہ صورتِ شعر:
؎دو چار حروف سخنِ تازہ عطا کر
مجھ گردِ غزل کو قدمِ میر میں رکھ دے    

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...