آل از ناٹ ویل 


 کل کا مورخ تاریخ لکھتے ہوئے لکھے گا کہ پچھتر سالوں سے پھیلے ہوئے خود غرضی کے وائرس اور سب اچھا ہے کی رپورٹ نے ہمیں اس دہانے پر لاکھڑاکیا جہاں اخلاقی معاشرتی اور سیاسی زوال تو ہوا ہی تھا اس کے ساتھ ساتھ وہ معاشی بحران آیا کہ ملک تیزی سے دیوالیہ ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے اور اقتدار کے حصول اور ذاتی مفادات کی ہماری آنکھوں پر بندھی پٹی کی وجہ سے ہم ان حقائق کو دیکھنے سے بھی قاصر ہیں جو ہمیں آنےوالے خطرات سے آگاہ کررہے ہیں ۔کل کامورخ یہ بھی لکھے گاکہ سیاستدانوں کے اقتصادی اور معاشی فلاح وبہبود کے بارے میں غلط تصورات نے ان نظریات کےلئے راہ ہموار کی جن کا معاشی حقائق سے دور دور تک واسطہ نہیں تھا اور اسی نظریہ کی بنا پر پچھترسالوں سے یہ سیاستدان اپنے ہی شہریوں کے حقوق غصب کرتے رہے ہیں ۔شہریوں کو انصاف اوربنیادی ضروریات کاحصول درحقیقت وہ مسائل ہیں کہ ان میں فوری پیش رفت کی ضرور ت ہے لیکن ہمارے ارباب اختیار اس ملک کے لوگوں کو ایسے شہری سمجھتے ہی نہیں کہ جن کے ٹیکسوں سے ہمارے ادارے چلتے ہیں بلکہ انکارویہ تو یہ ثابت کرتاہے کہ اقتدار چونکہ انہوں نے سوجھ بوجھ اور مہارت سے حاصل کیا لہٰذا کسی کا شکرگزار ہونےکی چنداں ضرورت نہیں ہے ۔
 ایک مغربی مورخ لکھتا ہے کہ سلطنتوں کے استحکام میں ضروری عوامل میں وہ انصاف ہے جسکے تحت شیر اوربکری ایک گھاٹ سے پانی پیتے ہوں ہوں ، جہاں فلاحی ریاست کا تصور موجود ہو ۔لیکن صاحب اقتدار بدقسمتی سے ان علاقوں سے دور رہتے ہیں جہاں شیر اور بکری کاایک ہی گھاٹ سے پانی پینا تو درکنار انسان اور جانور ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے ہیں۔ پاکستان میں بڑھتے ہوئے مسائل کا ہمارے پاس رٹارٹایا جواب موجود ہے اور پچھلے پچھتر سالوں سے ہم یہ جواب دے رہے ہیں۔ جب مہنگائی کی بات ہو تو بین الاقوامی مسئلہ قرار دیا جاتا ہے اور جب بات قحط کی ہو تو یہی دلیل کافی ہے کہ انہوں نے خود اپنی آنکھوں سے امریکیوں کوکچرے کے ڈرموں سے اشیائے خوردنی تلاش کرتے دیکھا ہے۔ جمہوریت فعال طریقے سے نہیں چل رہی ۔اسکا بھی ہمارے پاس رٹارٹایا جواب موجود ہے۔ وہ یہ ہے کہ دراصل ملک دشمن سازشیں کوئی جمہوری عمل پنپنے ہی نہیں دیتیں۔ جبکہ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ سازشوں سے زیادہ ہماری عاقبت نا اندیشیوں کا قصور ہے ۔ 
حکومتوں کے زوال کے محرکات میں چار عناصر بہت اہم ہیں۔ بنوامیہ کے ایک فرمانروا نے ان عناصر کو حکومت کا حصہ بنایا تو حکومت کابہت جلدی شیرازہ بکھرگیا۔ جس میں موروثی بادشاہت، شخصی بادشاہت ، اقرباپروری اور بیت المال کا اپنی ذات کےلئے استعمال۔ یہ وہ محرکات ہیں جو ملک کو ڈیفالٹ کردیتے ہیں۔ اسی اور نوے کی دہائی میں حالات اتنے خراب نہیں تھے۔ ملک صحیح سمت بڑھ رہا تھا لیکن آج ہم پاکستان کواس سمت لے آئے ہیں جہاں ملک بدترین اخلاقی مالی اور سیاسی بحران کاشکارہوتا ہے۔ کوئی ملک اسوقت مالی بحران کاشکارہوتا ہے جب قرضوں کی ادائیگی کیلئے پیسہ موجود نہ رہے۔ بین الاقوامی مارکیٹ سے مزید قرضوں کاحصول نا ممکن ہوجائے۔ ملک کے وسائل کم ہوجائیں اور عوام پرمزید ٹیکسوں اور مہنگائی کا بوجھ ڈالا جائے۔ اس ملک کے پاس لوگوں کی تنخواہیں دینے کیلئے ئے پیسہ نہ رہے۔ ایک طرف تو ہم نے عوام کو خوشحالی کاجھانسہ دےکر ٹرک کی سرخ بتی کے پیچھے لگائے رکھا دوسری طرف ان دو سالوں میں پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کے چانسز دو فیصد سے بڑھکر چونسٹھ فی صد ہوگئے ہیں۔ ہمارے رہنمایہ سمجھتے ہیں کہ اقتدار کے ایوانوں پر قبضہ کرکے سب ٹھیک ہوجائیگا یا ایک دوسرے پرالزام تراشیاں کرنے سے وہ حق اور سچ کوپالیں گے۔ جس طرح دو ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس کا نقصان ہوتا ہے یہاں عوام کا نقصان ہورہا ہے۔ ہمیں اس دیانتدار قیادت کی ضرورت ہے جو ملکی مفادات کوفروغ دے۔ ایک بھڑنے پرونے سے پوچھا کہ وفا کیا ہے پروانے نے کہاکہ جاو¿ دیکھ کر آو¿ کہ دوکمرے چھوڑ کر کمرے میں شمع جل رہی ہے۔ بھڑ نے واپس آکربتایاکہ شمع جل رہی ہے۔ پروانے نے کہا میں تمھاری جگہ ہوتاتو روشنی لےکر آتا ۔ہم روشنی کے مسافر نہیں آنکھوں پربندھی ذاتی مفادات کی پٹی نے ہمیں سچ اورحق سے دور کردیا ہے۔ حقائق سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ پاکستانی اپنی آمدنی کا بیس فیصد ٹیکسوں میں ادا کرتے ہیں۔ اگرہماری سیاسی ترجیحات نہ بدلیں اور ہم اپنی سیاسی پالیسیوں میں تبدیلیاں نہ لائے تو نہ ملک کو ڈیفالت ہونے سے روک پائینگے، نہ اداروں کی اصلاح ممکن ہو سکے گی ہے اورنہ غربت کے منحوس چکر کو، جسکی طرف ہمارا کوئی دھیان نہیں، ختم کیا جاسکے گا۔اس کےلئے چاہے ہارورڈ یاکسی اور مستند یونیورسٹی کے اقتصادی ماہرین کی خدمات ہی کیوں نہ حاصل کرلی جائیں ۔

ای پیپر دی نیشن