آپ میں سے کچھ لوگوں نے پچھلے کچھ سالوں سے لاہور کی سڑکوں پر غیر ملکی جوڑے کو گھومتے پھرتے ضرور دیکھا ہوگا، کئی مہینوں تک یہ جوڑا انارکلی کے ایک سائیڈ روڈ پر اپنی کار میں دن رات بسر کرتا رہا، تمام ضروریات زندگی کا سامان انہوں نے اپنی کار میں ہی رکھا ہوتا تھا،وہ کار کی چھت پر خیمہ لگا کر رات بسر کرتے ہیں، پھر یہ ہمارے رہائشی علاقوں میں نظر آنا شروع ہوئے، آتے جاتے اکثر ان کو واک کرتے دیکھا، معلوم ہوا کہ یہیں کی پناہ گاہ میں پناہ گزین ہیں، خاتون کو اکثر فلٹر سے پانی بھر کر جاتے دیکھا، اس نے پانی کی بھاری بوتل ا پنی بغل میں بالکل ایسے دبائی ہوتی جیسے ہمارے دیہاتوں میں خواتین گھڑا بھر کر اٹھایا کرتی ہیں، مختصر لیکن انتہائی بوسیدہ لباس میں چہرے پر مسکراہٹ سجائے اردگرد کے ماحول سے بے نیاز یہ اپنی زندگی میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اپنے کلچر کے مطابق ایک کتا ان دونوں نے اپنے ساتھ رکھا ہوا ہے جو ان کے پیچھے پیچھے بھاگا نظر آتا ہے۔ بہت دفعہ دل میں خیال آیا کہ ان سے پوچھوں کہاں سے آئے ہیں، کیسے زندگی بسر کرتے ہیں، پردیس میں اس طرح زندگی کے دن پورے کرنے کا سبب یا مجبوری کیا ہے؟ لیکن ہر بار یہ جھجھک آڑے ہی رہی کہ ایسے سوالات ان کی ذاتی زندگی میں مداخلت تصور نہ ہوں اور وہ اس کا برا محسوس نہ کریں۔ پھر یہ چوبرجی کے قریب اورنج ٹرین لائن کے ساتھ کھڑے ہوئے نظر آتے رہے۔ غیر ملکی خاتون کار میں چیزیں درست کررہی ہوتی ہے۔ نجانے اسکے بعد وہ سارا دن کہاں گزارتے ہیں اور کیا کرتے ہیں؟
میں نے اپنے شوہر سے سوال کیا۔لاہور میں بڑے دل والے رہتے ہیں کیا ان کےلئے کوئی مستقل رہائش اور نوکری کا بندوبست نہیں کرسکتا، کہنے لگے بالکل ایسا ممکن ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ جوڑا خود آزاد زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ خیر بات طویل ہوگئی ایک روز سڑک کنارے گزرتے ہوئے میں نے اس غیر ملکی خاتون کو دیکھا، جو آنکھیں بند کئے حسب معمول چہرے پر ایک پرسکون مسکراہٹ سجائے بانہیں کھول کر کھڑی تھی۔ جیسے وہ اس سے گلے مل رہی ہو، یہ لوگ فطرت سے بہت قریب اور پیار کرنے والے ہیں۔ میں نے ایک خبر دیکھی کہ امریکہ میں ایک بڑے سکول کو چند روز کے لئے اس لئے بند کردیا گیا کہ وہاں کے درختوں پر پرندوں نے بچے دئیے ہوئے تھے۔ طالبعلم وہاں کھیلتے تھے اور ڈر تھا کہ وہ ان کو پریشان نہ کریں، دنیا بھر کے اکثر ممالک میں ’ برڈ واچنگ ‘کو ایک مشغلہ سمجھا جاتا ہے۔ لوگ گھنٹوں ان کے قریب رہتے ہیں ان کے ساتھ اپنا وقت گزارتے ہیں، درختوں کے نیچے بیٹھے رہتے ہیں۔ ہم لوگ جنہوں نے کچھ سال قبل ایسے ہی دلنشین فطری ماحول میں آنکھ کھولی، فطرت سے کس قدر دور ہوچکے ہیں اور ہمارے بچے ہم سے بھی زیادہ فطرت سے دوری اختیار کرچکے ہیں۔
پاکستان اور خصوصا" لاہور میں پرندوں سے محبت کا یہ معنی لیا جارہا ہے کہ ہر چند گز کے فاصلے پر لاہور کی مصروف شاہراہوں پر لوگ گوشت کی تھیلیاں لے کر کھڑے نظر آتے ہیں ، کاموں پر نکلنے والے ان تھیلیوں کو خرید کر سڑک کنارے ہی بکھیر دیتے ہیں۔ بے شمار گدھ اکٹھے ہوکر شاہراہوں پر منڈلاتے رہتے ہیں، موٹرسائیکل سواروں کو سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔خدشہ رہتا ہے کہ یہ گدھ ان سے ٹکرانہ جائیں ، عموما" موٹر سائیکلوں پر بچے بھی بیٹھے ہوتے ہیں۔ یوں فطرت سے محبت تو خیر دور کی بات ایسے صدقے کو ثواب سمجھ کر جس دن کا آغاز کیا جارہا ہوتوا ہے، نجانے ان سے کتنے لوگوں کو تکلیف میں مبتلا کیا جارہا ہوتا ہے۔ ہیلمٹ پر تو بہت سخت پابندی ہے نجانے حکام بالا کو ایسے مسائل کیوں نظر نہیں آتے، ہوسکتا ہے شاہراہوں پر اتنی تعداد میں پرندے ہمارے لئے ’برڈ واچنگ ‘ایکٹویٹی ہی ہو اور اس صدقے کا ثواب کسی کو جسمانی یا جانی نقصان سے زیادہ بڑا سمجھا جاتا ہو۔ 2021ء میں امریکہ میں پرندوں کو دیکھنے والوں کی تعداد کروڑوں میں بتائی جاتی ہے اور دنیا بھر میں یہ تعداد پانچ کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ یقینا" لاہور میں بھی ان پرندوں کو دیکھنے والوں کی تعداد بھی کروڑوں میں ہی ہے۔ غیر ممالک میں برڈ واچنگ کے لئے آنے والوں کو چلنے پھرنے اور بیٹھنے کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ پرندوں کے لئے انتہائی سرسبز علاقے بنائے گئے ہیں اور پانی کا بھی وافر انتظام کیا گیا ہے۔ یوں پرندوں کی نئی نویلی اقسام اکٹھی ہوجاتی ہیں اور دیکھنے والوں کے ذوق کی تسکین کا باعث بنتی ہیں۔ ہر پرندے کا اپنا لائف سٹائل ہے ایسی ایسی حرکتیں اور عادات ہوں گی کہ آپ دنگ رہ جائیں گے۔ یہ ننھے منے پرندے محض اڑتے اور دانہ ہی نہیں چگتے عظیم مصور کے بنائے ہوئے یہ شاہکار ایک فیملی کی صورت میں زندگی گزارتے ہیں۔ ایک دوسرے کے لئے ایسے ہی جذبات واحساسات رکھتے ہیں جیسے ہم رکھتے ہیں۔ گرمی یا سردی کے آغاز میں ہجرت کرکے آنے والے نئے نئے پرندے یہاں بھی اپنی رنگینیاں اور خوبصورتیاں بکھیرنے آجاتے ہیں۔ اس حسین مخلوق کو شاعروں نے بطور خاص اپنی شاعری کا موضوع بھی بنایا۔
مجھے معلوم ہے اس کا ٹھکانا، پھر کہاں ہوگا
پرندہ آسماں چھونے میں جب ناکام ہوجائے
(بشیر بدر)
درخت کٹنے کا اتنا ملال ان کو ہوا
تمام رات پرندے زمیں پہ بیٹھے رہے
(نامعلوم)
پیڑوں کے کٹنے پر یوں کملایا ہوں
جیسے میں ان پیڑوں کا ماں جایا ہوں
(حسن عباسی)
پرندہ ابھی ا±ڑان میں ہے
Nov 19, 2022