کرموں موچی


کسی زمانے میں ہمیں اہم شخصیات کی خودنوشت سوانح عمریاں پڑھنے کا شوق تھا اوراسی شوق کو پورا کرنے کی کوشش میں ہم نے مختلف خودنوشت سوانح عمریوں کا مطالعہ کیا،کہتے ہیں شخصیت وہی ہوتی ہے جس کی پیروی کی جا سکے، ایک اہم آدمی کو زندگی کے سردوگرم میں جن رطب ویابس کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ ان کا مقابلہ کس انداز سے کرتا ہے اس سے قاری کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے، انسان کو عملی زندگی میں انواع و اقسام کے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اور یہ مطالعۂ انسانی اس کی نفسیات پر کیسے اثرانداز ہوتا ہے۔ ان اجزا کا مطالعہ بہت اہم ہے، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عملی زندگی میں ایک معروف آدمی کی طرح غیراہم یاگم نام شخص کے ذاتی تجربات بھی کم اہم نہیں ہوتے۔ خودنوشت سوانح عمریوں میں ’’شہاب نامہ‘‘ اردو کی بیسٹ سیلر کتابوں میں شامل ہے۔ اس کتاب کے بارے میں لوگوں کی منفی یا مثبت آراء اپنی جگہ اہم ہیں لیکن یہاں ان پر بحث کرنا ہمارا موضوع نہیں۔ البتہ یہ عرض کردیں کہ اس کتاب میں مختلف شخصیات، شہر اور مقامات آہ وفغاں ایسے ضرور آتے ہیں جو ہمیں سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ اس کتاب میں شامل خرقِ عادات پرمشتمل قصے لوگوں کی توجہ کواپنی جانب منعطف کرتے ہیں،کچھ دوستوں کے لیے شاید ان حالات و واقعات کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی، لیکن ان کو مکمل طور پر نظراندازکر دینا شاید مناسب نہیں ہے، اس طرح کے مافوق الفطرت واقعات وکردار ہماری سماجی زندگی سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ یہ قوموں کی اجتماعی نفسیات اور مشترکہ ماضی کے عکس گرہوتے ہیں۔ اس لیے انھیں محض توہم پرستی کا شاخسانہ قرار دینا شاید مناسب نہیں۔ یہ پراسرا ر کردار زندگی کی چشم کشا صداقتوں کے ترجمان ہوتے ہیں۔ ’’شہاب نامہ‘‘ میں بملاکماری، چندرا وتی اور نوے سالہ ینگ فقیر جیسے کرداروں نے اسے ماورائی حیثیت عطا کی ہے۔ اس کتاب میں ایک باب ’’ڈپٹی کمشنرکی ڈائری‘‘ کے عنوان سے بھی شامل کیاگیا ہے جس میں مصنف نے جھنگ میں اپنی ڈپٹی کمشنری کے دور کی یادداشتیں بیان کی ہیں۔ جھنگ میں شہاب نے سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پرایک موچی کو جوتیاں گانٹھتے ہوئے دیکھا۔ مصنف سے اس کی ملاقات کا واقعہ بڑا دلچسپ ہے سواسی کی زبانی سنیے: ’’ایک روز میں عبداللہ سے ملنے شہید روڈ گیا، اسکی ریڑھی پر باسی سبزیوںکا ڈھیر لگا پڑا تھا۔ عبداللہ نے بتایا کہ دوروزسے کاروبار مندا ہے اور اس کی ریڑھی کی سبزیاں پڑی پڑی گل سڑ رہی ہیں۔ میں نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارکر ریڑھی کی ساری سبزیاں تُلوا کرکار میں رکھ لیں۔ پیسے ادا کرنے کے بعد وہاں سے روانہ ہونے لگا تو سڑک کے دوسرے کنارے زمین پر ایک موچی نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے اپنے پاس بلایا۔ 
میں اس کے پاس گیا تو وہ دوسروں کے ٹوٹے ہوئے جوتے گانٹھنے میں منہمک تھا۔ میری جانب نظر اٹھائے بغیر وہ بڑبڑایا ’خوب بچا بے سالے! ٹھہری تھی کہ یونہی گزر جاتے تو سالے کو کوڑھی کرکے اسی ریڑھی پربٹھا دیا جائے۔ اس کے بعد میں متعدد بار اس پراسرار موچی سے باتیںکرنے اس کے اڈے پرگیا لیکن اس نے پھر مجھے کبھی لفٹ نہ دی‘‘۔
 جھنگ کے اس موچی کا کردار بھی ’’شہاب نامہ‘‘ کاایک مابعد الطبعیاتی کردار ہے، عبداللہ نامی ایک فاقہ کش اور خستہ حال کنجڑے کے معاشی حالات دیکھ کر یہ موچی دل گرفتہ رہتا تھا۔ اسے دراصل اس بات کا قلق تھا کہ ساری دنیاکے حالات بدل رہے ہیں لیکن محرومیِ قسمت کے مارے اس الم نصیب کی حالت جوں کی توں ہے۔ اس بے حس معاشرے میں مجبوروں اور مظلوموں کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ آخران مصیبت زدہ لوگوں کی زندگی کے گھمبیر حالات کب بدلیں گے۔ 
عبداللہ نامی سبزی فروش ہمارے بدحال معاشرے کا نمائندہ کرداربن کرسامنے آتا ہے۔ میرا خیال تھا کہ قدرت اللہ شہاب کے ہاں موچی کایہ کردار شاید زیب ِداستاں کے لیے شامل کیاگیاہے۔ چندسال پہلے میرا گورنمنٹ کالج جھنگ کے سابق صدر شعبہ اردو ڈاکٹر غلام شبیررانا سے رابطہ  ہوا،وہ ان دنوں غلام ابن سلطان کے قلمی نام سے مختلف رسائل وجرائدمیں لکھتے تھے،باتوں باتوں میں قدرت اللہ شہاب کی اس موچی سے ہونے والی ملاقات کا تذکرہ ہوا تو انھوں نے یہ انکشاف کرکے مجھے حیران کردیا کہ یہ ایک جیتاجاگتا حقیقی کردار تھا،اس صاحب واردات بوڑھے موچی کا نام کرم دین تھا اور یہ جھنگ کے نواحی گائوں موچیوال میں پیداہوا تھا ۔ یہ شہیدروڈ جھنگ کی ایک قدیم مسجدکے پاس فٹ پاتھ پربیٹھ کر لوگوں کی جوتیاں سیتاتھا۔ کرموں موچی پانچ وقت کی نمازمسجدمیں ہی ادا کرتا ،اس کے پاس بوری پر ہمہ وقت ایک ٹین کا ڈبا دھرا رہتا تھا جس میں سوئیاں، قینچی، چمڑے کے ٹکڑے ،پالش کی ڈبیاںاور جوتوں کی مرمت کا سامان ہوتا، جوتوں کی مرمت کے معاوضے کے طورپر جوسکے اسے ملتے وہ انھیں بھی ٹین کے اسی ڈبے میں ڈالتا جاتا،دن بھر کی مشقت کے بعدمزدوری کی جورقم اسے میسر آتی،شام کواپنی بنیادی ضرورت کے پیسے نکال کرباقی خیرات کردیتا۔اسی زمانے میں اپنے منہ آپ میاں مٹھو بننے والا ایک شخص لنڈا بازار سے کوٹ پینٹ،نکٹائیاں جرابیں وغیرہ ارزاں قیمت پر خریدتا اور وائسرائے بن کرساتھیوں کے ہمراہ بازار میں مٹرگشت کیاکرتاتھا۔ ایک دفعہ لنڈا بازار میں حامدعلی شاہ نامی ایک پڑوسی نے اسے ان اشیا کی خریداری کرتے ہوئے دیکھ لیا،اس نے خوب بھائو تائو کرکے پچاس روپے میں یہ سارا سامان خریدا تھا ۔ اگلے روز وہ کرموں موچی کے پاس آیا تو اس نے بے نیازی سے کہا : ’’تمھاری قیمت صرف پچاس روپے ہے۔‘‘
’’اُف! میری اس قدر کم قیمت،پچاس روپے کا تو میں نے اس وقت سُوٹ پہن رکھا ہے۔‘‘اس کی یہ بات کرموں موچی نے ہنسی میں اُڑا دی اور کہا’’میاں صاحب زادے میں نے بھی اسی سوٹ کی قیمت بتائی ہے جو تم نے کل لُنڈے بازار میں فیکے کباڑی سے خریدا تھا اور اصل میں یہ جزائرہوائی کے دارلحکومت ہونولولو میں ایک بیوپاری مسٹر ولیم ڈگلس کے جسم کی اُترن ہے ،جسے پہن کر تم یہاں سڑکوں پر اِتراتے پِھرتے ہو۔بس یہی تمھاری اوقات ہے۔ہمارے ’’گفتار کے غازی‘‘ دانشوروں کے چہرے کرموں موچی کے کردار کے سامنے کتنے سنولا جاتے ہیں۔آج سے چنددہائیاں پہلے ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ عام تھے۔بقول قابل اجمیری:
جہاں میں آج اندھیروں کا بول بالا ہے
ہم آستیں میں ستارے چھپائے پھرتے ہیں

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...