اپنے کالم کے ذریعے میں بارہا اس بات کا ذکر کر چکا ہوں کہ پاک فوج کی سربراہی کرنا اور پھر اس سربراہی میں پوشیدہ امتحانات کو جھیلنا کسی دل گردے والے انسان ہی کے بس کی بات ہے، یہ کسی عام آدمی کے بس کا روگ نہیں ہے کہ وہ اتنے مشکل فرض سے نمٹ سکے اور چومکھی جنگ میں وہ مہارت دکھائے کے اپنے، مخالفین سب داد دینے پر مجبور ہو جائیں۔ گزشتہ چھ سال سے ریاست پاکستان کی بنیادی اکائی یعنی فوج کی سربراہی جنرل قمر جاوید باجوہ کر رہے ہیں۔
جس طرح سے جنرل قمر جاوید باجوہ ملک و قوم کیلئے انتھک محنت کرتے ہیں تو بلا شبہ جی چاہتا ہے کہ ایسی شخصیت کے کارناموں کو سامنے لایا جائے کیوں کہ جنرل قمر جاوید باجوہ جیسے لوگ تو چپکے سے اپنے حصے کا فرض نبھاتے رہتے ہیں لیکن ہمارا فرض ہے کہ انکی اس کاوش کو دنیا کے سامنے لائیں اور بتائیں کہ یہ ہیں وہ شخصیت جو پاک فوج کی سربراہی کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے چیلنجز کے ساتھ بھی نمٹ رہے ہیں جو ان کی پیشہ ورانہ زندگی سے ہٹ کر ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نہ صرف پاکستان کا فخر ہیں بلکہ وہ پورے عالم اسلام کا فخر ہیں اور ان کی انہی خدمات کی بدولت 26جون 2022ء کو سعودی ولی عہد اور وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان نے انہیں ’’کنگ عبدالعزیز میڈل آف ایکسیلنٹ کلاس‘‘ سے نوازا تھا۔متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید النہیان نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو’’آرڈر آف یونین‘‘ میڈل سے نوازا۔
یہ اعزاز دو طرفہ تعلقات کے فروغ کیلئے جنرل قمر جاوید باجوہ کے نمایاں کردار کے اعتراف میں دیا گیا۔ 2021ء میں بحرین کے ولی عہد کی جانب سے ’’بحرین آرڈر فرسٹ کلاس ایوارڈ‘‘ دیا گیا اور2019 ء میں اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے بھی ’’آرڈر آف ملٹری میرٹ‘‘ کے ایوارڈ سے نوازا تھا۔روسی سفیر نے آرمی چیف کو 2018 ء میں ’’کامن ویلتھ ان ریسکیو اینڈ لیٹر آف کمنڈیشن آف رشین مانٹیئرنگ فیڈریشن‘‘ کا اعزاز دیا۔ قبل ازیں 20 جون 2017 ء کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ترکی کے ’’لیجن آف میرٹ ایوارڈ‘‘ سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ ان کو ملنے والے اعزاز نہ صرف پاک فوج کی صلاحیتوں کا اعتراف ہیں بلکہ ظاہر کرتے ہیں کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے پیشہ وارانہ کیریئر میں وہ کچھ حاصل کر لیا ہے جو ان کے بعد آنے والوں کیلئے ایک مشعل راہ بن چکا ہے۔ہمسائیہ ملک چین کے نیشنل ڈیفنس کے جنرل وائی فنگ نے بھی جنرل قمر جاوید باجوہ کی صلاحیتوں کو سراہا اور کہا کہ انکی کوششوں سے ہی خطے میں امن کا قیام عمل میں آیا اور ان کے کردار کی وجہ سے ہی سی پیک کے پراجیکٹ کامیابی سے پایہ تکمیل کو پہنچ رہے ہیں۔ پھر ریکو ڈیک کیس میں جنرل باجوہ کی کوششوں کی ہی بدولت گیارہ ارب ڈالر کا جرمانہ پاکستان کو معاف ہوا اور انہوں نے پاکستان کے مفاد کی خاطر تمام فریقین کے درمیان معاہدے کو دوبارہ فعال کیا تا کہ پاکستان پر گیارہ ارب ڈالر جرمانے کی جو تلوار لٹک رہی ہے اس کو ہٹایا جا سکے۔پھر یہ بات تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ جنرل باجوہ اور انکی زیر قیادت فوج کی ہی بدولت پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے میں کامیاب ہوا۔فیٹف کے صدر ٹی راجہ کمار کو کہنا پڑا کہ پاکستان نے 35سفارشات پر بہتر انداز میں عمل کیا ہے جس کے نتیجہ میں پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کا اب کوئی جواز نہیں ہے۔ پھر ایک طرف سکھوں کیلئے کرتار پور کوریڈور کا قیام جنرل قمر جاوید باجوہ کی ذاتی دلچسپی کا مرہون منت تھا کہ اس سے ایک طرف تو سکھوں کو پاکستان کی طرف راغب کر کے مودی کو ٹھیس پہنچائی جائے۔ سب سے بڑھ کر جو کارنامہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر کمان فوج نے انجام دیا ہے وہ دہشت گرد ی کا پاکستان سے خاتمہ ہے۔ انکی زیر قیادت فوج نے ملک کے چپے چپے پر امن قائم کیا اور دہشت گردوں کا خاتمہ کیا جس پر قوم ان کی ہمیشہ احسان مند رہے گی۔
سرحد پار سے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے جنرل باجوہ کے دور میں ہی پاک افغان بارڈر پر 2600کلو میٹر طویل باڑ لگائی گئی تا کہ سرحد پار سے دہشت گردوں کی در اندازی کا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے باب بند کر دیا جائے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے جب فوج کی کمان سنبھالی تو دہشتگرد وں کیخلاف انکی سربراہی میں آپریشن رد الفساد شروع کیا گیا۔ملک کے طول و عرض میں دہشتگردوں اورانکے سہولت کاروں کیخلاف کامیاب آپریشنزکئے گئے۔قارئین کو بتاتا چلوں کہ آپریشن رد الفساد و نکاتی حکمت عملی کے تحت کیا گیا۔ صرف بلوچستان میں 80ہزار سے زائد آپریشن کئے گئے، پنجاب میں 34ہزار سے زائد انٹیلی جنس بیسڈ کارروائیاں کی گئیں، کے پی کے میں 92ہزار زائد آپریشن ہوئے اور تمام اداروں نے ان آپریشن میں فوج کا ساتھ دیکر ملک کو امن کا گہوارہ بنایا۔
حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں پر بات کریں تو جنرل باجوہ نے تمام متاثرہ علاقوں میں دورے کئے اوران کی قیادت میں پاک فوج نے متاثرین کی ہر ممکن مدد کی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کے احکامات کی روشنی میں پاک فوج نے ملک بھر میں کلیکشن سینٹر بنائے اور پاک فوج نے تقریباً دس ہزار ٹن راشن سیلاب متاثرین تک بر وقت پہنچا کر انکی خدمت کی۔ آرمی چیف کا اپنے سپاہیوں کے ساتھ جو مشفقانہ رویہ رہا وہ بھی قابل دید ہے۔ بطور سپہ سالار وہ مسلسل اگلے مورچوں کا دورہ کر کے جوانوں کا حوصلہ بڑھانے کیساتھ انکو اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہے۔ افغان عمل میں انکے کردار کی دنیا معترف ہے کہ ان کی کاوششوں سے ہی افغانستان میں امن کا قیام ممکن ہوا۔ پھر ان کے دور میں فوجی سفارت کاری کا تصور سامنے آیا جس سے دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات میں تقویت پیدا ہوئی۔ جس طرح انہوں نے چھ سال انتھک اور دن دار محنت کی ہے۔ ہم بغیر کسی شک و شبہ کے کہہ سکتے ہیں کہ پاک فوج نے جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر قیادت اور زیر نگرانی ہر محاذ پر بہترین انداز میں کام کر کے پاکستان کا نام دنیا میں روشن کیا ہے۔