قیاس آرائیوں کی گرداب چھٹنے والی ہے


دنیا بھر میں کسی بھی ملک کے آرمی چیف کی تعیناتی معمول کی خبر ہوتی ہے لیکن پاکستان میں آرمی چیف کی تعیناتی کا موضوع اسوقت سب سے بڑا ایشوہے اور اس ایشو پر ہر طبقہ اپنے اپنے انداز میں سوچ رہا ہے اور قیاس آرائی کررہا ہے۔ الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا ہو یا سوشل میڈیا ہو۔ خبروںتجزیوں اور افواہوں سے بھرا پڑا ہے۔ ہر کوئی اپنے تئیں اس بارے میں اندر کی خبر دینے کا دعوی کررہا ہے لیکن یہ تعیناتی تاحال واضح نہیں ہوسکی ہے۔وزیر اعظم پاکستان کی صوابدید ہونے کے باوجود اس حوالے سے مختلف باتیں سامنے لائی جارہی ہیں۔اور اگر کہا جائے کہ یہ تعیناتی پاکستان کی آئندہ کی سمت کا تعین کرے گی تو یہ درست ہوگا۔
 آرمی چیف کی تعیناتی اور سیاست کا گہرا تعلق ہونا انتہا ئی افسوسناک پہلو ہے لیکن بد قسمتی سے پاکستان کے تمام سیاستدان اس تعیناتی سے اپنا سیاسی مستقبل وابستہ کئے ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئر مین اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی تمام سیاست اسی تعیناتی کے گرد گھومتی نظر آتی ہے اور اب یہ چند دنوں کا معاملہ ہے کیونکہ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع شدہ مدت ملازمت 29 نومبر کو مکمل ہو جائے گی اور اگلا آرمی چیف کمان سنبھال لے گا۔اس حوالے سے سنیارٹی لسٹ بھی ضروری ہے کیونکہ عمران خان اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے اس اہم عہدے کے امیدوار کو متنازع بنانے کی ہر ممکن سعی کرچکے ہیں البتہ یہ اور بات ہے کہ ان کی تمام کوششیں رائیگاں جاتی دکھائی دیتی ہیں۔
 آرمی چیف کے عہدے کے لئے جنرل عاصم منیر کو فورسٹار جنرل کا پروٹوکول ملنے کی خبریں سوشل میڈیا پر چھائی ہوئی ہیں اس اعتبار سے اور سنیارٹی کے اصول کو دیکھیں تو جنرل عاصم منیر ممکنہ آرمی چیف ہوسکتے ہیں۔لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو پانچ جنرلز کیساتھ ترقی دی گئی تھی لیکن ان کو رینک لگانے کی تقریب تاخیر سے ہوئی ۔
25 اکتوبر 2018 کو لیفٹننٹ جنرل نوید مختار ریٹائیر ہوئے تو عاصم منیرنے نئے رینک کیساتھ نیا عہدہ سنبھالاان کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ 25 اکتوبر بنتی ہے لیکن عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ 26 نومبر کو ریٹا ئر ہوں گے۔ یوں سنیارٹی لسٹ پر عاصم منیر پہلے لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد دوسرے لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس تیسرے لیفٹیننٹ جنرل نعمان محمود چوتھے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید پانچویں اور لیفٹیننٹ جنرل محمد عامر چھٹے نمبر پر ہیں۔سنیارٹی کے حوالے سے پہلے کو آرمی چیف اور دوسرے کو چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی تعینات کیا جاسکتاہے۔
آرمی چیف کی تقرری کے ساتھ ہی سیاسی منظرنامے پر چھائی گرد صاف ہونے کے واضح امکانات ہیں کیو نکہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی سیاسی دھما چوکڑی اس عہدے پر تقرری کیساتھ ختم ہو جائے گی اور اس حوالے سے ان کی سیاست کا شور بھی تھم جائے گا۔ پاکستان کے آرمی چیف کی تقرری میں عالمی سطح پر بھی خصوصی دلچسپی لی جاتی ہے خاص طور پر امریکہ سعودی عرب متحدہ عرب امارات چین بھارت ودیگر بھی اس بارے میں متجسس پائے جاتے ہیں تاہم اب یہ معاملہ اپنے انجام کو پہنچنے کو ہے۔ البتہ افواہوں کا بازار ابھی تک گرم ہے  اور اس بارے میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف۔
سابق صدر آصف زرداری کی دلچسپی کے حوالے سے بھی باتیں مارکیٹ میں پھیلی ہوئی ہیں۔ پی ٹی آئی لورز کا دعوی ہے کہ عمران خان نے صدر مملکت کو سمری ملتے ہی اس پر اعتراض لگا دینے کی ہدایت کی ہے جواس عمل میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے مترادف ہوگا۔ تاہم دوسری جانب سے یہ بھی پیغام ہے کہ اگر اس عمل میں رکاوٹ ڈالی گئی تو سختی کی جائے گی اور اس پیغام کے بعد امید ہے کہ عمران خان کی آخری کوشش بھی ناکام ہو گی اور یہ عمل اپنے انجام کو پہنچ جائے گا۔ ویسے پاکستان کی روایات میں سے ایک چیز ہمیں یاد رکھنی چاہیے کہ جسکے متعلق پیشین گوئی اور قیاس ارائیاں شروع ہو جائیں تو نتیجہ اسکے الٹ ہی سامنے آتا ہے۔ 
اگرآپ کو یاد ہو تو سابق وزیر اعظم کی اہلیہ کی کرپشن فائل اسوقت مرد مجاہد نے کھولی جب انکا طوطی بولتا تھا اور انکے سامنے چڑیا پر مارنے سے بھی گریزاں تھی تب وزیر اعظم ہاوس جاکر سابق خاتون اول کی فائل انکے شوہر کو تھما دی اور وارننگ دے ڈالی کہ کرپشن برداشت نہیں کی جائے گی اس مجاہد کو سپہ سالار لگانے کی باتیں بڑے بڑے دانشور ادیب صحافی اینکر کر رہے ہیں خود ہی فیصلہ کرلیں کہ اسقدر اپ رائٹ افسر کسی کو ایک نظر بھی بھائے گا۔ ایک تھیوری یہ پیش کی جارہی ہے کہ وہ عمران کے خلاف ہے۔ درحقیقت وہ کسی کے خلاف نہیں بلکہ وہ اس سسٹم  کے خلاف ہے۔ وہ سچا کھرا نڈر بیباک اور ناک کی سیدھ چلنے والا محب وطن ہے۔

ای پیپر دی نیشن