سوال تو بہت سے ہیں لیکن جواب کوئی نہیں ھے۔ جیسا کہ اس وقت ملک میں سب سے بڑا سوال الیکشن۔ پھر الیکشن کی سیاسی سرگرمیاں اور اس کے بعد الیکشن کے نتائج ھیں۔ تو اس پر بھی سب سے بڑا سوال یہ ھے کہ ہر الیکشن اپنے نتائج کے بعد بھی کئی سوال چھوڑ جاتا ھے ، جن کے جواب کبھی میسر نہ ھو سکے۔
2018ء کا الیکشن مسلم لیگ ن نے نوازشریف کے بغیر اور پیپلز پارٹی نے آصف علی زرداری کے بغیر لڑا تھا یہ دونوں سیاسی قائدین اب پوری آب و تاب کے ساتھ 2023 ء کے سیاسی میدان میں ا±تر چکے ھیں اور نئے ولولہ انگیز نعرے بھی لے کر آئے ھیں۔ ” ملک بچا لو نواز شریف “ والا لہو کو گرما دینے والا ترانہ بھی رگوں میں دوڑا دیا گیا ھے۔ ملک کے نجات دہندہ اور ملک کو بحرانوں سے باہر نکالنے کے دعوے دار یہ بڑے سیاسی کھلاڑی کم از کم قوم کو اس شش و پنج سے ہی باہر نکال دیں کہ یہ دونوں بذات خود پچھلے الیکشن سے باہر کیوں تھے ،،، ایسی کون سی غلطیاں اور کون سے اسباب تھے جو پچھلے سیاسی کھیل کے میدان میں ان کے لیے ریڈ کارڈ ثابت ھوئے۔
گزشتہ پانچ سالوں سے تو مسلم لیگ ن کا ایک ہی بیانیہ تھا کہ ” ووٹ کو عزت دو “ جس کا اب کہیں ذکر ہی نہیں ھے۔ کیا 2023ءکے الیکشن میں ووٹ کو عزت دو کی تکمیل ھو چکی ھے یا یہ صرف ن لیگ کے ووٹ کی عزت تک کا سوال تھا۔ جس کا وہ اب کوئی خفیہ جواب پا چکے ہیں ؛؛؛ لیکن اگر کہیں پر ایسا کچھ ہو بھی چکا ھے تو بھی اس" ووٹ کو عزت دو “ کا نعرہ اور سوال جتنا مضبوط تھا وہ ا±تنی ہی مضبوطی اور طاقت کے ساتھ ابھی بھی ملک میں موجود ھے۔ اور 2023ء کے الیکشن کا سب سے بڑا سوالیہ نشان ھے کہ پی ٹی آئی کا ووٹر اب کدھر جائے گا ، اگر اس سوال کا جواب موجودہ الیکشن سے قبل دستیاب نہ ھو سکا تو پھر اس کا ممکنہ مطالبہ درحقیقت یہی ھو گا کہ دوسرے کے ووٹ کو بے عزت کرو۔۔۔ کیونکہ پچھلے الیکشن میں پی ٹی آئی کا ووٹ ن لیگ کے ووٹ سے زائد تھا۔
1970 ء سے اب تک اس ملک میں اتنے الیکشن نہیں ھوئے جتنے الیکشنوں پر سوال پیدا ھوئے ھیں۔ ہر الیکشن فئیر الیکشن کے مطالبے سے شروع ھوتا ھے اور فئیر دھاندلی کے الزام پر ختم ھو جاتا ھے۔ الیکشن فئیر ہوں یا نہ ہوں یہ نامعلوم دھاندلی اتنی صاف شفاف ھوتی ہے کہ میلوں دور سے بھی اس کی صفائی صاف اور شفاف دکھائی دے رہی ہوتی ہے۔ لیکن اس شفافیت کے درمیان ایک اور بڑی صاف حقیقت یہ بھی ہے کہ ہر ووٹر اپنی ہی سیاسی جماعت کی جیت کو شفافیت قرار دیتا ہے اور دوسرے کی جیت کو دھاندلی۔
گزشتہ ماہ 21 اکتوبر کو میاں نواز شریف کی پاکستان میں آمد کے ساتھ ھی ملک میں سیاسی عمل بھی شروع ھو چکا ہے ،،، گزشتہ ایک دہائی سے ملکی الیکشن کا پہلا راونڈ عدالتی محاذ سے کھیلا جاتا ھے اس راونڈ میں کامیاب ھونے والے سیاسی کھلاڑی ہی عموماٍ حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ الیکشن سے قبل عدالتی راو¿نڈ میں ناکام ھونے والی شریف فیملی اب 2023ء کے الیکشن سے قبل پے در پے کامیابیاں حاصل کرتی چلی جا رھی ھے۔ یعنی شریف فیملی کی عدالتی محاذ پر کامیاب لینڈنگ ھو چکی ہے سارے مسافر بھی محفوظ ہیں چند دنوں میں بڑے میاں صاحب کے دونوں بیٹے بھی اسی فارمولے سے پاکستان میں لینڈ کر جائیں گے۔
پاکستان کے بے چین ووٹرز کو بھی اب سمجھ لینا چاھئیے کہ حکومتی بساط پر تخت یا تختہ جس کھیل کا خاصہ تھا اسی عمل میں اب سیاسی کھیل اور جیل بھی لازم و ملزوم ہو چکے ہیں۔۔۔ لہذا خوامخواہ اپنی دماغی انرجیاں اور وقت اس حاصل بے سود پر وقف کرنے کی بجائے اپنی اپنی زندگیوں اور اپنے اپنے حالات پر توجہ دیں۔۔۔ آپ کی ذمہ داری آپ کا کچن آپ کے بچے اور بچوں کی تعلیم و تربیت ہے نہ کہ سیاسی نعرے۔۔۔ اگر تو ان سیاسی نعروں سے آپ کا کچن چل سکتا ہے ، آپ کے بچے اچھی تعلیم لے سکتے ہیں ، ان کو کاروبار اور نوکریاں میسر ہوتی ہیں تو لگے رہیں۔۔۔ لیکن اگر یہ سیاسی نعرے لگاتے لگاتے آپ کا اور آپ کے بچوں کا مستقبل تاریک ہو چکا ہے اور سیاست دانوں کے بچوں کا روشن تو ابھی بھی وقت ھے ،،، اس سیاسی کھیل اور سیاست دانوں کی ٹرانس سے باھر آ جائیں اور ذرا سکون سے سوچیں۔۔۔ کہ سیاسی وابستیگوں کے اس سارے عمل میں آپ اور آپ کے بچے کس بند گلی میں کھڑے ہیں ، آپ کے حصے میں کیا آیا اور وہ کون سے عوامل ہیں جو اس ملک میں آپ کے بچوں کا مستقبل تاریک کر گئے ہیں۔۔۔ اگر آپ اپنی آنے والی نسلوں کی بھی بہتری چاہتے ہیں تو ان سیاست دانوں کی اندھی تقلید کرنے کی بجائے ان سے سوال کرنے کی عادت اپنا لیں ، پھر یہ ملک بھی ٹھیک ہو جائے گا ، سیاست بھی اور آپ کے بچوں کا مستقبل بھی۔