ضلع راولپنڈی کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس نے قومی سطح پر بڑے بڑے سیاستدان پیدا کئے. راجہ ظفر الحق، محمد خاقان عباسی، راجہ شاہد ظفر، چوہدری نثار علی خان، شاہد خاقان عباسی، راجہ پرویز اشرف، اعجازالحق، شیخ رشید احمد اور غلام سرور خان وفاقی وزیر رہے.۔شاہد خاقان عباسی اور راجہ پرویز اشرف کو تو بطور وزیراعظم پاکستان کام کرنے کا بھی موقع ملا. اِن سب نے اپنی سیاسی حیثیت کو اپنی فہم و فراست اور استعداد و لیاقت کے بل بوتے پر دوام بخشا. میں نے ضلع راولپنڈی میں اپنے طویل قیام کے دوران جن سیاست دانوں کو قومی سطح پر اپنی نظر میں انتہائی مثالی اور بہترین پایا وہ شاہد خاقان عباسی اور چوہدری نثار علی خان ہیں.
کون جانتا تھا کہ 1979ئ میں ممبر ضلع کونسل کی حیثیت سے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کرنے والا چکری گاو¿ں کا ایک دھان پان سا خوب رو لڑکا آنے والے وقتوں میں کامیابی کی منزلیں اِتنی سبک رفتاری سے سر کرتا ہوا ملکی سیاست میں ایک درخشاں و تاباں ستارے کی مانند دمکے گا کہ ضلع بھر میں اس کے ہم عصر اور سینئرز ہاتھ باندھے اس کے پیچھے زرفِشانی اور ضَوفِشانی کی طلب میں اس کے اشارہ ابرو کے منتظر ہوا کریں گے. 1985ئ کے غیر جماعتی انتخابات میں وہ ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے. مقتدر حلقوں کی قربت کے ساتھ ساتھ وہ تیز روی سے مسلم لیگ کے اعلیٰ حلقوں میں بھی خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر اپنی پہچان کرانے میں کامیاب ہو گئے. انہوں نے آٹھ دفعہ مسلسل قومی اسمبلی کا ممبر منتخب ہونے کا اعزاز حاصل کیا. میاں نواز شریف اور شہباز شریف کے انتہائی قریبی رفقائ میں ان کا شمار ہوتا تھا.
آرمی برن ہال اور ایچی سن کالج کے تعلیم یافتہ چوہدری نثار علی خان نے 1988ءمیں سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر کے طور پر خدمات سر انجام دیں۔ نواز شریف کی پہلی اور دوسری کابینہ میں انہوں نے بطور وزیرِ پٹرولیم اور قدرتی وسائل کام کیا۔ یوسف رضا گیلانی نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوران ان کو خوراک، زراعت اور مویشی/لائیو سٹاک کا وزیر بنایا. اسی دوران میں وہ وزیرِ مواصلات بھی رہے۔ جون 2013ءمیں انہوں نے وزارتِ داخلہ کا قلمدان سنبھالا اور کراچی میں امن و امان کی پیچیدہ اور گھمبیر صورتحال کے جن کو قابو کرکے بوتل میں بند کر دیا. ستمبر 2008ءمیں وہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف مقرر ہوئے۔ اکتوبر 2011ءمیں وہ قومی اسمبلی کی پبلک اکاو¿نٹس کمیٹی کے پہلے چیئرمین بنے. اِس بظاہر عام سے عہدے کو انہوں نے چار چاند لگا دئیے اور ان لوگوں کو بھی اپنے دفتر میں طلب کیا جو اپنے وقت کے بہت بڑے طرم خان ہوا کرتے تھے.
1998ءکے بلدیاتی انتخابات کے بعد مسلم لیگ حسبِ روایت دو حصوں، چوہدری نثار علی خان گروپ اور بشارت راجہ گروپ میں منقسم تھی. انتخابات میں بشارت راجہ گروپ کے پاس واضح اکثریت تھی مگر چوہدری نثار علی خان نے بشارت راجہ گروپ کی یقینی جیت کو عبرتناک شکست میں بدل کر اپنے نامزد کردہ امیدوار کو چئیرمین ضلع کونسل، راولپنڈی منتخب کروا دیا. اِس جیت پر چشمِ فلک نے ضلع راولپنڈی کے سیاسی و غیر سیاسی حلقوں میں سیاست کا اجارہ مکمل طور پر چوہدری نثار علی خان کو منتقل ہوتے دیکھا. وطن عزیز میں ماورائے آئین حکمرانی کی خود غرضی کے اصولوں پر مبنی محدود سوچ ہمیشہ جبر و تعدی، جور و جفا اور شَقاوَتِ قلب کے ارد گرد گھومتی رہی ہے. 1999ءمیں چوہدری نثار علی خان بھی کافی عرصے تک اپنی رہائش گاہ میں نظر بند رہے مگر اِستِبدَادی جبر ان کے اعصاب کو شَل نہ کر سکا. قدرت کی طرف سے ان کو ودیعت کردہ بہت سی خوبیوں میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ ٹیبل ٹاک کے بہت ماہر ہیں. ان کو اپنے موقف میں لاجک پیدا کرنے پر مکمل عبور حاصل ہے. وہ جو موقف ایک دفعہ اپنا لیں، اسے بدلنے کے لئے تیار نہیں ہوتے. "زمین جنبد، نہ جنبد گل محمد". بول چال میں کامل دسترس رکھنے والے سیاست دان، شیخ رشید احمد کو ٹی وی پروگراموں میں اگر کسی کے روبرو دفاعی پوزیشن میں دیکھا گیا تھا تو وہ چوہدری نثار علی خان اور جاوید ہاشمی تھے.چوہدری نثار علی خان ضلعی انتظامیہ اور دوسرے محکمہ جات کے ضلعی افسران سے گاہے بگاہے پنجاب ہاو¿س اسلام آباد میں میٹنگ کرکے ضلع کے مسائل بالعموم اور اپنے حلقوں کے معاملات بالخصوص زیرِ بحث لایا کرتے تھے. تمام لوگ مکمل تیاری کے ساتھ میٹنگ میں شرکت کرتے. کئیوں پر یہ میٹنگ بھاری بھی گزرتی اور دوسرے ہی دن معطلی یا تبادلے کے احکامات ان کے ہاتھ میں ہوتے مگر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کو سراہا بھی جاتا. آخری میٹنگ میں خلاف معمول ان کو قومی معاملات پر بہت جذباتی پایا گیا. سب کو دلجمعی اور ایمانداری سے اپنے سرکاری فرائض سر انجام دینے کی تلقین کرتے ہوئے کہنے لگے، "جن عہدوں کی وجہ سے ہم سب کو بے پایاں عزت ملی ہے وہ پاکستان کی ہی مرہون منت ہیں. اللہ کرے کہ میرے خدشات غلط ہوں مگر میں آنے والے وقتوں میں پاکستان کو انتہائی مشکل اور نازک حالات میں گھرا ہوا دیکھ رہا ہوں" پھر نمناک آنکھوں اور قدرے بھرائی ہوئی آواز کے ساتھ گویا ہوئے، " اگر پاکستان ہے تو ہم ہیں، پاکستان نہیں ہے تو ہم کچھ بھی نہیں ہیں".
نواز شریف کو عدالتی فیصلے کے ذریعے نااہل قرار دینے کے بعد جب شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم بنا دیا گیا تو چوہدری صاحب نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا. شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوران لندن میں نواز شریف سے ہونے والی ملاقات میں دو دفعہ چوہدری نثار علی خان کے ساتھ گلے شکوے ختم کرکے پرانے اور گہرے روابط بحال کرنے کی درخواست کی مگر نواز شریف نے دونوں مرتبہ خاموشی اختیار کی اور لب کشائی سے مکمل اجتناب برتا…پاکستان میں مروجہ سیاسی رِیت و رواج اور سماجی چلن کے برعکس وہ میاں برادران سے روٹھ جایا کرتے تھے. میاں برادران ان کی نازبرداریاں اٹھانے کے لئے ہمہ وقت گوش بَرآواز رہتے. مریم نواز کو نواز شریف کی جانشینی سونپنے کے لئے دئیے جانے والے اشاروں و کنایوں کی بازگشت پر ردعمل ظاہر کرنے کی پاداش میں منانے کا یہ سلسلہ رک گیا. چوہدری صاحب اگر اناپرستی اور خودداری میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے تو میاں صاحب بھی مریم نواز کی ذات سے بڑھ کر کسی اور کو اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں ہیں. مسلم لیگ سے دوریاں نہ سمٹنے کے باعث چوہدری صاحب نے آزادانہ حیثیت میں الیکشن لڑنے کا اعلان تو کر رکھا ہے، تاہم انہوں نے ابھی مسلم لیگ کو باقاعدہ خیر باد بھی نہیں کہا ہے. سیاست میں کوئی چیز بھی حرفِ آخر نہیں ہوتی. ہو سکتا ہے کہ شہباز شریف دونوں کے بیچ پرانی محبت کی دبی ہوئی کوئی چنگاری دوبارہ سلگانے اور شعلہ بنانے میں کامیاب ہو جائیں.