میں ان لوگوں میں شامل ہوں جنہیں زیڈ اے سلہری کے مضامین اور کالم پڑھ کر اور اخبارات و جرائد میں ان کی تصاویر دیکھ کر احساس تفاخر ہوتا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس امر کے مواقع بھی عطا کئے کہ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم کے سپاہی، قومی اور ملی صحافت کے درخشندہ ستارے، دنیا کی ایک بڑی اسلامی مملکت میں مسلم قومیت کے عظیم علمبردار کے ساتھ بیٹھنے اور ان کے رفقائ میں شامل ہونے کا اعزاز نصیب ہوا۔ یقین جانیں د±ور سے ان کی شخصیت کا جو سحر قائم ہوا تھا قریب ہونے سے اس میں اضافہ ہی ہوا اور اس اعتبار سے فخر کا احساس بھی فزوں تر ہوتا چلا گیا خاص طور پر اس وقت جب اپریل 94ءمیں وہ تیسری بار سی پی این ای کے صدر منتخب ہوئے اور یہ عاجز سیکرٹری جنرل چناگیا۔ جب یہ انتخاب ہوا تو میں اندر سے بہت ڈرا اور سہما ہوا تھا۔ کہاں دنیائے صحافت کی اتنی بڑی شخصیت کہاں یہ حقیر پ±ر تقصیر، مجھے سلیری صاحب کے ساتھ کام کرنا بہت ہی مشکل اور دشوار دکھائی دیتا تھا لیکن ان کے ساتھ، ان کی قیادت اور رہنمائی میں کام کرنے کا تجربہ بہت ہی خوشگوار اور بیش قیمت ثابت ہوا۔ انہوں نے ایک بزرگ کی شفقت مرحمت فرمائی اور ایک رہنما و قائد کے اعلیٰ ظرف کا مظاہرہ کیا اور ایک ایک قدم پر حوصلہ افزائی کی اور ہمت بڑھائی۔
جس طرح یہ بحث چلتی رہی ہے کہ ہم دین اور سیاست کی تفریق کے قائل نہیں ہیں اسی طرح سلہری صاحب کی تقریریں اور گفتگو سن کر اندازہ ہوتا تھا کہ وہ صحافت اور سیاست کی کسی تفریق کے قائل نہیں تھے، وہ دونوں کو لازم و ملزوم سمجھتے تھے اور جس طرح کچھ لوگ کہتے ہیں کہ فلاں صاحب مسلمان پہلے ہیں اور پاکستانی بعد میں اور کچھ حضرات اس سے مختلف تاثر کا اظہار کرتے ہیں تو سلیری صاحب کے متعلق یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ وہ اپنی شخصیت میں سب سے پہلے صحافی تھے اور اس کے باقی تمام اوصاف یا شناختیں اس کے بعد ہی آتی ہوں گی۔ سلہری صاحب کے نزدیک سیاست کے میدان میں ہر واقعہ اور ہر تبدیلی پر گہری نظر رکھنا ایک صحافی کا اولین فریضہ ہے اور واقعات کے اس نشیب و فراز کو درست سمت میں رکھنے کے لئے قلم کی قوت کا استعمال صحافی کی دوسری بنیادی ذمہ داری ہے۔ سلہری صاحب نے یہ فرائض اور ذمہ داری بڑی جرات و بہادری سے ادا کیں، انہیں اس کی بھاری قیمت بھی ادا کرنا پڑی ان کے اپنے ملکیتی اخبارات ”ٹائمز آف کراچی“ اور ”ایوننگ ٹائمز“ جاری نہ رہ سکے۔ ”پاکستان ٹائمز“ میں ان کا آنا جانا رہا۔ ”نوائے وقت“ عام طور پر ان کی پناہ گاہ رہا اور اس مورچے میں بیٹھ کر انہوں نے بڑی زبردست تیراندازی کی۔ سلہری صاحب کا اس بات پر ایمان کی حد تک یقین تھا کہ پاکستان جن مقاصد کے لئے معرض وجود میں آیا ہے اس کی تکمیل کے لئے مختلف ادوار کے حکمرانوں میں "Political Will" سیاسی قوت فیصلہ یا سیاسی قوت ارادی کی کمی رہی۔ وہ جہاں کہیں اور جب کبھی اس فقدان کو محسوس کرتے بڑی بہادری سے اس کا اظہار کرتے اور کوئی مصلحت ان کے عزم کی راہ میں رکاوٹ نہ بنتی۔ آزادیصحافت کی جدو جہد میں انہوں نے ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان کا خیال تھا کہ حکمران صحافیوں کو آزادی کبھی طشتری میں سجا کر پیش نہیں کریں گے بلکہ صحافیوں کو اپنے زور بازو سے آزادی حاصل کرنا اور چھیننا پڑے گی۔ اس مقصد کے لئے وہ اخبار نویسوں بالخصوص ایڈیٹروں میں اتحاد کو اس جدوجہد اور اس منزل کی شرطِ اول اور پہلا زینہ تصور کرتے تھے۔ ایک موقع پر جب وہ سی پی این ای میں سرگرم نہیں تھے اور یہ جماعت دو حصوں میں بٹ چکی تھی۔ انہوں نے سی پی این ای میں فعال کچھ ایڈیٹروں سے دریافت کیاکہ آپ کے اتحاد میں اصل رکاوٹ کیا ہے۔ جب انہیں بتایا گیا کہ ایک بزرگ ایڈیٹر متحدہ سی پی این ای کو نیا نام دینے کے خواہاں ہیں تو سلہری صاحب نے بلاتامل کہا کہ اتحاد کے لئے یہ بہت معمولی قیمت ہے۔ نئے نام سے جماعت کی تشکیل پر سرِ تسلیم فوراً خم کر دیں۔ 1994-95ءمیں سی پی این ای کے ان کے دور صدارت کے ایک دلچسپ واقعہ کا بھی ذکر کرتا چلوں۔ میں نے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے ایک بیان جاری کردیا جس میں اخبارات پر جنرل سیلز ٹیکس نافذ کرنے کا فیصلہ واپس لینے کے حکومتی فیصلہ کا خیر مقدم کیا گیا تھا، سلہری صاحب کو اس بیان کے جاری ہونے پر اعتراض تھاکیونکہ ان کے خیال میں پالیسی امور پر بیان جاری کرنا صدر کی ذمہ داری ہے سیکرٹری جنرل کی نہیں اور اگر صدر موجود نہ ہو یا اس سے رابطہ نہ ہوسکتا ہو تو کسی ناگزیر صورت میں سیکرٹری جنرل ایسا کرسکتا ہے مگر جب صدر شہر میں موجود ہے اور سیکرٹری جنرل اس سے رسمی مشورہ اور منظوری کی ضرورت بھی نہ سمجھے تو اس صورت میں سیکرٹری جنرل کے اس اقدام کا نوٹس لینا ضروری ہے۔ مجیب الرحمن شامی نے جب مجھ سے سلہری صاحب کی اس شکایت یا گلہ کا ذکر کیا تو ان کی ناراضی اور خفگی کی بھی تصویر مجھے دکھائی۔ جب میں نے سلہری صاحب کی خدمت میں حاضر ہوکر افسوس اور معذرت کا اظہار کیا تو انہوں نے میری معذرت کو اس قدر کشادہ دلی سے قبول کرلیا کہ انہوں نے اس موضوع پر کوئی ایک لفظ بھی نہ کہا۔ یہ تھی سلہری صاحب کی بڑائی اور عظمت۔
اب پیش کرتا ہوں سلہری صاحب کے ان تقریروں میں سے چند اقتباسات جو انہوں نے صدر سی پی این ای کی حیثیت سے مختلف مواقع پر کیں۔ ان اقتباسات سے آزادی صحافت کے بارے میں ان کا اعلیٰ و ارفع تصور بہت واضح انداز میں سامنے آتا ہے۔ 25پریل 1994ءکو سی پی این ای کا صدر منتخب ہونے کے موقع پر اپنے خطاب میں انہوں نے کہا، ”سی پی این ای صحافت کی آزادی کے اس تصور کو فروغ دے گی جو ملک کی تعمیر میں مددگار ثابت ہو، ہم ایسی آزادی کے خواہاں ہیں جس کا مقصد تنقید برائے تنقید نہیں بلکہ عوام کو درپیش مسائل حل کرنا ہے۔ پاکستان کے مدیران اخبارات و جرائد ہر بات کو ملک کے مفاد کے نقطہ نگاہ سے دیکھیں گے اور اپنے قلم سے وطن عزیز کو مضبوط و مستحکم کرنے کا فرض انجام دیں گے۔ مجھے اس بات کا دکھ ہے کہ ملک کے حالات دگرگوں ہوتے جارہے ہیں۔ ان حالات میں فوج کے بعد قومی پریس ہی ملک کو متحداور مستحکم رکھنے میں اپنا مثبت کردار ادا کرسکتا ہے“۔
27 اپریل 1995ءکو جب انہیں چوتھی بار سی پی این ای کا صدر منتخب کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں جب بیشتر قومی ادارے عضوِ معطل بن کر رہ گئے ہیں پریس کے کردار نے بڑی اہمیت اختیار کرلی ہے اور پاکستان کے اخبارات کو اپنی ان گراں بہا ذمہ داریوں کا بخوبی احساس ہے جو ملک اور قوم کی طرف سے ان پر عائد ہوتی ہیں۔ ہمارے قومی پریس نے اپنے فریضہ کو ہمیشہ پیش نظر رکھا ہے اور وہ آئندہ بھی تمام مشکلات اور پابندیوں کے باوجود اپنا یہ فرض ادا کرتا رہے گا۔ ہم آزادی صحافت کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے اور اس راہ میں بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے اور اپنا مقدس فرض جرا¿ت کے ساتھ ادا کریں گے۔
(جاری)
زیڈ اے سلہری
Nov 19, 2023