فاطمہ ردا غوری
ریاستہائے متحدہ امریکہ اپنے سینتالیسویں صدر کا اعلان کر چکی ہے ڈیمو کریٹک امیدوار کملا ہیرس اور ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان جاری انتخاب کے سلسلے کے بعد ٹرمپ کی جیت کا علان کر دیا گیا جسکے بعد ٹرمپ عہدہ سنبھال چکے اور کملا ہیرس نے کمال ظرف کے ساتھ بنا کسی متشدد رویے یا بیان کے اپنی ہار تسلیم کی جو کہ ایک ایسا عمل تھا جسے سکھانے کے لئے پاکستان میں باقاعدہ سیشنز منعقد کئے جانے چاہئیں ۔
خیر ڈونلڈ ٹرمپ کو ہماری جانب سے تاخیر کے ساتھ ہی سہی جیت مبارک !
بھلے ہی ان کو مبارکباد دینے والوں کی لسٹ میں ہمارے ازلے دشمن بھارت کے وزیراعظم اور ٹرمپ کے جگری دوست نریندر مودی سر فہرست رہے جبکہ ہمارے یہاں کوئی اپنے پرانے ٹویٹس ڈیلیٹ کر کے مبارکباد دیتا رہا ، کوئی پرانے ٹویٹس ہائی لائٹ کر کے دیتا رہا ، کوئی افسردگی چھپاتا رہا ، کوئی خود ساختہ مفادات اور امیدیں چھپاتا دکھائی دیا لیکن مبارکباد دیتے سب ہی دکھائی دیے ۔۔ سو ہم نے بھی سوچا آخر اس دوڑ میں ہم کیوں پیچھے رہیں کہ زمانے کے ساتھ نہ چلنے والے اکثر روند دیے جاتے ہیں !!!
پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں ہمیشہ نشیب و فراز آتے رہے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی امریکی صدارتی انتخاب کو اہمیت دی جاتی ہے اس مرتبہ بھی ان انتخابات پر پاکستان کی نظریں لگی رہیں خاص طور پر پی ٹی آئی (پاکستان تحریک احتجاج)کی ان انتخابات میں گہری دلچسپی رہی جسکے سبب سے ہم سب آگاہ ہیں ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کے دوران جب پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی لطیف کھوسہ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ سمجھتے ہیںکہ ڈونلڈ ٹرمپ جیت کے بعد عمران خان کی رہائی میں کردار ادا کر سکتے ہیں تو لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ انہیں سو فیصد یقین ہے بلکہ کوئی شک و شبہ ہی نہیں کہ ہاں ایسا ہی ہو گا کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان میں بھی یہی چاہیں گے کہ جمہور کی آوازسنی جائے “
حالانکہ اس سچائی سے کون آگاہ نہیں ڈونلڈ ٹرمپ عمومی طور پر کبھی بھی جمہوری اصولوں کے لئے کھڑے نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے ہمیشہ دنیا بھر میں آمرانہ طرز حکومت اپنانے والے حکمرانوں کی جانب ہمیشہ جھکاﺅ کا اظہار کیا ہے
تازہ ترین صورتحال کے مطابق امریکہ میں موجود پاکستانی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عہدہ سنبھالنے سے لے کر اب تک ڈونلڈ ٹرمپ نے ایسا کوئی عندیہ نہیں دیا کہ وہ عمران خان کی رہائی کے متعلق کچھ بھی سوچ رہے ہیںتجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر اپنے دور حکومت میں عمران خان کی ٹرمپ کے ساتھ اچھی ،خوشگوار ملاقات اور روابط رہے ہیں تو اس کا مطلب کسی بھی قسم کا مفاد یا کوئی معنی خیز مدد ہر گز نہیں لیا جا سکتا ۔۔۔جس شخص کاپاکستان کے ہمیشگی دشمن بھارت کے وزیراعظم کے ساتھ ایک شاندار تعلق ہو جو کہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا وہ بیک وقت پاکستان کے لئے بھی اچھے جذبات رکھ سکتا ہے ان دونوں باتوں میں کوئی توازن دکھائی نہیں دیتا ۔۔
لیکن حیرت ان پر ہے جو اس جیت پر بھنگڑے ڈالتے خوشیاں مناتے پھر رہے ہیں گویا بیگانی شادی میں عبداللہ ایوانہ والی صورت حال ہی ہے سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر پاکستان کی اہم شخصیات کو ٹرمپ میں جس قدر دلچسپی ہے اور ٹرمپ جس طرح ان سب کو حواس باختہ کئے ہوئے ہے کیا یہ سب سمیت ملک پاکستان کے ٹرمپ کے لئے اسی قدر اہمیت کے حامل ہیں ؟؟چلئے گزشتہ کچھ عرصے کے دوران ٹرمپ کو پاکستان میں حاصل ہونے والی غیر معمولی مقبولیت پر نگاہ دوڑا لیتے ہیں ایک موقع پر بلاول بھٹو نے کہا کہ ” عمران خان جب بھی ڈونلڈ ٹرمپ کو دیکھتے ہیں تو ایک چھوٹے بچے کی طرح خوش ہو جاتے ہیں کہ وہ ٹرمپ کے سامنے بیٹھے ہیں وہ ٹرمپ سے اس قدر متاثر ہیں کہ منی ٹرمپ بننے کی کوششوں میں نظر آتے ہیں
دوسری جانب جب عمران خان کی بطور وزیراعظم حکومت کا خاتمہ ہوا تو اس موقع پر مریم نواز کا کہنا تھا کہ یونائٹیڈا سٹیٹس آف امریکہ میں غنڈہ گردی کا کلچر ٹرمپ نے متعارف کروایا کیونکہ وہ جب ہارا تو اس نے جاتے جاتے اپنے ملک پر حملہ کیا اور عمران خان جو کہ دوسرا ٹرمپ ہے وہ بھی جاتے جاتے ملک کو نقصان پہنچا رہا ہے اسی موقع پر مولانا فضل الرحمان نے ٹرمپ کے جانے پر عمران خان کے بارے میں ڈھکے چھپے انداز میں کہا تھا کہ ”ایک ٹرمپ تو چلا گیا ہے اب ہمیں پاکستان میں دوسرے ٹرمپ کا سامناہے “
اسی طرح رانا ثناءاللہ نے بھی حامد میر صاحب کے پروگرام میں ایک موقع پر فرمایا تھا کہ عمران خان دوسروں کا مذاق اڑانے، جھوٹ بولنے ، ہٹ دھرمی دکھانے جیسی خصوصیات کی وجہ سے ٹرمپ میں اپنی جھلک دیکھتے ہیں “
مزے کی بات یہ کہ ایک موقع پر عمران خان نے نواز شریف کو ٹرمپ کے ساتھ مماثل قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف کو بھی تھوڑا بہت ٹرمپ کہا جا سکتا ہے کیونکہ یہ بھی بزنس کرتے ہیں وہ بھی بزنس کرتا ہے اسکے علاوہ یہ بھی اپنی حکومت کے دوران اپنے خاندان کو آگے لے کر آئے جبکہ ٹرمپ بھی امریکہ کی تارخ کا پہلا صدر رہا جو اپنے دور حکومت میں اپنے خاندان کے افراد کو اوپر لے کر آیا ۔۔۔
تم ٹرمپ ہو ،اس میں تھوڑا تھوڑا ٹرمپ ہے تم میں ٹرمپ کی ذیادہ جھلک ہے ۔۔آخر یہ ہو کیا رہا ہے ؟ ٹرمپ کیاکوئی گالی ہے جو ایک دوسرے کو دی جا رہی ہے یا کوئی لقب ہے جو کہ فخر کی علامت ہے ؟ خدا کے لئے اپنے مقام کو پہچانیں اگر ٹرمپ امریکہ کا صدر ہے تو آ پ بھی پاکستان کے راہنما ہیں کرتا دھرتا ہیں آپ سب کو یہ گفتگو زیب نہیں دیتی اگر پاکستانی راہنماﺅں کی یہ تمام ویڈیوز کسی نے ٹرمپ کو دکھا دیں تو وہ بچارا تو تمسخر و حیرت کی ملی جلی کیفیات سے لوٹ پوٹ ہو جائے گا ۔۔
ہمارے یہاں توکہیں کوئی ٹرمپ پارٹ ٹو بن رہا ہے کوئی ٹرمپ کی جیت پر شاداں و فرحاں ہے کوئی ٹرمپ کے جیتنے پر اپنے لیڈر کی رہائی چاہتا ہے کوئی پاکستان کی ترقی کو ٹرمپ سے منسلک کئے بیٹھا ہے خدا کے لئے بس کریں آپ جب تک خود اپنے لئے کچھ نہیں کریں گے تو کوئی اور آپ کے لئے بالکل بھی کچھ نہیں کر پائے گا گئے وقتوں میں جب کسی شخصیت کا ایسے بارہا تذکرہ کیا جاتا تھا یا اس سے بلاوجہ امیدیں جوڑ لی جاتی تھیں تو بڑے بزرگ کہا کرتے تھے کہ ”فلاں تیرا ماما لگدا ایہہ“
موجودہ صورتحال میں پاکستان کے ہر اہم معاملے میں ٹرمپ کی جانب لگی نگاہیں دیکھ کر،اور اس کے متعلق یہ تمام متذکرہ بالا باتیں سن سن کر آجکل ایسے ہی محسوس ہو رہا ہے کہ شاید ٹرمپ واقعی ہم پاکستانیوں کے لئے ماموں کی حیثیت رکھتا ہے جو ہمارے لئے ہمارے تمام مسائل کا حل بہت جلد گج وج کے پلیٹ میں پیش کرنے والا ہے بالکل ویسے ہی جیسے کبھی ”نانکی چھک “ آیا کرتی تھی !!!
ویسے ایک اڑتی اڑتی سے خبر آئی ہے کہ بھائی پھیرو کے علاقے میں دو گروپوں کے درمیان تصادم میں چند افراد کو شدید ذخمی کر دیا گیا ہے زخمی کرنے والے ملزمان اپنے فعل پر کسی طور شرمندہ نہیں اور حولات میں ڈھٹائی کے ساتھ بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انہیں جیل میں بند کر کے اچھا نہیں کیا گیا انکے روابط بہت اوپر تک ہیں کہتے ہیںجب ان سے ”اوپر “ روابط کی تفصیل پوچھی گئی تو انہوں نے اپنی فیس بک کی فرینڈز لسٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ کا نام دکھا کر تھرتھلی ہی مچا دی ۔۔۔
الامان الحفیظ ۔۔۔۔