کیا صدر ٹرمپ اپنے کیے ہوئے وعدے ایفا کر سکیں گے؟

 گلوبل ویلج                
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
دنیا تیزی سے تبدیلی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر کا انتخاب جیتنے کے بعد دنیا یقینی طور پر تبدیل ہو جائے گی۔حالات جس طرح تباہی کی طرف جا رہے تھے وہ بہت بڑی تبدیلی کے متقاضی تھے جو امریکی صدر کی تبدیلی ہی سے بہتر ہو سکتے تھے۔ٹرمپ کی جیت کی راہ میں ہر رکاوٹ کھڑی کی گئی، امریکی اسٹیبلشمنٹ ان کے خلاف تھی۔اس کے باوجود بھی ٹرمپ کا جیت جانا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔یہ سارا کچھ اس عالمی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کردکھایا جو کہیں نظر نہیں آتی۔نظر نہ آنے والی اسٹیبلشمنٹ نے جو کچھ کیا اس پر آگے چل کر بات کرتے ہیں پہلے تھوڑی سی بات کر لیں۔عالمی اسٹیبلشمنٹ کس کو کہا جاتا ہے۔مختلف طبقہ ہائے فکر کے نکتہ نظر مطابق ”عالمی اسٹیبلشمنٹ“ سے مراد وہ طاقتور اور بااثر ادارے، تنظیمیں یا گروہ ہیں جو دنیا بھر میں سیاست، معیشت، یا ثقافت کے اہم فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس میں حکومتی ادارے، عالمی تنظیمیں جیسے اقوام متحدہ، عالمی بینک، اور عالمی تجارت کی تنظیم (WTO) شامل ہو سکتی ہیں، جن کا مقصد عالمی سطح پر امن، تجارت، اور ترقی کے لیے اصول و ضوابط بنانا اور نافذ کرنا ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ ”عالمی اسٹیبلشمنٹ“ کا لفظ بعض اوقات ان افراد یا گروپوں کو بھی ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے جو عالمی سطح پر طاقتور ہیں، جیسے کہ بڑے کاروباری شخصیات، سیاسی رہنما، اور عالمی میڈیا کے اثرورسوخ رکھنے والے افراد۔کچھ لوگ اس اصطلاح کو تنقید کے طور پر استعمال کرتے ہیں، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ اپنے مفادات کے لیے دنیا کے ممالک کی خودمختاری کو نقصان پہنچاتی ہے یا ترقی پذیر ممالک کے عوام کے حقوق کو نظر انداز کرتی ہے۔یہ رائے بعض حلقوں میں پائی جاتی ہے کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ میں امریکہ کا غالب اثر و رسوخ ہے، اور اس کی وجہ امریکی اقتصادی، فوجی اور سیاسی طاقت ہے۔ امریکہ کی عالمی پالیسی، بالخصوص 20ویں اور 21ویں صدی میں، نے دنیا کے متعدد خطوں میں حکومتوں کی تشکیل، تبدیلی یا بغاوتوں کی حمایت کی ہے۔
ایسی رائے رکھنے والوں کے مطابق امریکہ اور اس کے اتحادی عالمی اداروں جیسے اقوام متحدہ، عالمی بینک، اور آئی ایم ایف کے ذریعے عالمی معیشت اور سیاست پر کنٹرول رکھتے ہیں۔ ان اداروں کے ذریعے امریکہ نے کئی ممالک کی داخلی سیاست میں مداخلت کی ہے، کبھی کسی حکومت کی حمایت کی ہے، تو کبھی اس کے مخالف طاقتوں کی حمایت کر کے حکومتوں کو گرا دیا ہے۔ اس قسم کی مداخلتیں اکثر بین الاقوامی تعلقات میں تنازعات کا باعث بنتی ہیں۔
مثال کے طور پر:-1 کولڈ وار کے دوران: امریکہ نے کئی ممالک میں اپنی مرضی کی حکومتیں قائم کرنے کے لیے خفیہ آپریشنز (جیسے CIA کی مداخلت) چلائیں۔-2 عراق اور افغانستان کی جنگیں: 2001 میں افغانستان پر امریکی حملہ اور 2003 میں عراق میں صدام حسین کی حکومت کا خاتمہ ان مداخلتوں کی واضح مثالیں ہیں۔اس تنقید کا محور یہ ہے کہ امریکہ عالمی اسٹیبلشمنٹ کو اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے استعمال کرتا ہے، اور یہ عالمی سطح پر طاقت کا توازن بگاڑنے کا سبب بنتا ہے۔تاہم، اس رائے کے مخالفین یہ دلیل دیتے ہیں کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ صرف ایک ملک کے زیر اثر نہیں ہے، اور عالمی سطح پر طاقت کے مختلف مراکز موجود ہیں۔ مختلف ممالک اور عالمی ادارے اپنی پوزیشنز کو مضبوط کرنے کے لیے آپس میں تعلقات رکھتے ہیں، اور امریکہ کے اثر و رسوخ کے باوجود کئی دیگر عالمی طاقتیں جیسے چین، روس، اور یورپی یونین بھی عالمی فیصلوں میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
وہ عالمی اسٹیبلشمنٹ جس کی طاقت کا محور امریکہ اور امریکہ ہی اسٹیبلشمنٹ کا دماغ ہوا کرتا تھا۔ امریکی انتخابات میں وہ اسٹیبلشمنٹ چاروں شانے چت نظرآئی۔ دنیا میں حکومتیں گرانے بنانے حتیٰ کہ کئی لیڈروں کو پھانسیوں کے پھندے تک پہنچانے کی طاقت رکھنے والی یہ اسٹیبلشمنٹ جو بائیڈن کے اقتدار کو بچانے میں بے بس اور لاچار نظر آئی۔اگر اس کا میدان صاف ہوتا تو اپنی مرضی کے نتائج حاصل کیے جا سکتے تھے لیکن جنہوں نے جو بائیڈن کو گھر بھجوانے اور ٹرمپ کو آگے لانے کا منصوبہ بنایا تھا انہوں نے گیم اس انداز سے کھیلی کہ ٹرمپ نہ صرف ہاﺅس آف کامنز میں کامیاب ٹھہرے بلکہ سینٹ میں بھی ان کی اکثریت ہو گئی۔ گورنروں کی اکثریت کا انتخاب بھی ریپبلکن پارٹی ہی سے ہوا۔ امریکی سپریم کورٹ میں بھی ریپبلکن ججوں کی اکثریت بن چکی ہے۔ٹرمپ کو طاقتور ترین امریکی صدر بنا کر سامنے لایا گیا ہے۔
ٹرمپ نے اسرائیل کی مینجمنٹ کو کہہ دیا ہے کہ اب باز آ جاﺅ ،جو ہو چکا ہے اس پر بھی اگر عرب مان جائیں تو تمہارے خلاف کوئی کارروائی نہ کریں اس کو بھی تم غنیمت جانو۔میں نے اب تمہاری طرف کھڑا نہیں ہونا۔ میں تمہاری طرف کھڑا ہو بھی گیا تو امریکہ پھر وہیں کھڑا ہوگا جہاں وہ پہلے کھڑا تھا میں اس کو بدلنے کے لیے آیا ہوں۔ یہ سب ٹرمپ نے اپنی کیبنٹ کو بلا کر کہا ہے۔ ٹرمپ نے اسی لیے سی آئی اے کا نیا ہیڈ لگا دیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کو پینٹا گون کی تمام پچھلی تقرریاں اور اپوائنٹمنٹ پر اعتبار نہیں ہے اس لیے اس کو ساتھ لے کر نہیں چلنا چاہتا۔دوسری طرف اسرائیل ابھی تک اپنے مقرر ہدف حاصل نہیں کر سکا۔ اور لبنان میں اسے پہلے کی طرف جیسے 2004-05میں اسے بڑا جھٹکا لگا تھا، وہی جھٹکا اسے اب لگا ہے ،ایک قدم بھی وہ لبنان کے اندر زمینی فوج ابھی تک نہیں اتار سکا۔دوسری طرف یورپ سے میری ذاتی اطلاع ہے کہ یوکرین اب اس پر بات راضی ہے کہ جن جن علاقوں پر روس نے قبضہ کیا ہے بس اس تک ہی محدود رہے، آگے جنگ بند کرے۔تم جس طرف ملک کو لے کر جا رہے ہو تم تو مر جاﺅ گے اپنے ساتھ ڈھائی کروڑ عوام کو لے کر نہ جاﺅ۔اس کے ڈیفنس منسٹر کو بتا دیا ہے۔ یورپ یہ چاہتا تھا کہ رشیا اور یوکرین لگے رہیں تاکہ ہم اپنے اہداف پورے کر سکیں اور روس کو کمزور کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم تو یورپ کو تھکانے کے چکر میں تھے ان کا سارا اسلحہ ضائع کرائیں ورنہ ہمارے لیے یوکرین پر قبضہ کرنے کے لیے چھ گھنٹے کافی ہیں۔
ٹرمپ جو وعدے کرکے آیا ہے کہ جنگیں بند کرائے گا وہ واقعی بند ہو جائیں گی۔ وہ بڑا زبردست ہیلتھ پلان لے کر آیا ہے۔ابھی تک وہاں ہیلتھ پلان نہیں ہے، اوبامہ نے شروع کیا تھا لیکن وہ نہیں چل سکا۔امریکہ کو پھر سے انڈسٹری کی طرف لے کر آرہا ہے۔ انڈسٹری کی طرف لانے کے لیے بزنس مینوں کی ضرورت ہے جو کہ ریپبلکن کے حمایتی ہیں، کوئی بزنس مین ڈیموکریٹس کا حمایتی نہیں ہے۔ امریکہ اور دنیا بھر کے سارے صنعت کار وہ ٹرمپ کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ چائنا نے بھی گرین لائٹ دے دی ہے کہ اگر ٹرمپ جنگیں بند کرائے تو امریکہ کے ساتھ ہمارا کوئی پھڈا نہیں ہے۔ انہوں نے ٹیرف لگایا تھا امریکہ پر 60پرسنٹ کا، انہوں نے کہا کہ ہم یہ ٹیرف بھی ختم کرنے کو تیار ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ ٹرمپ اپنے وعدے پر عمل کرے۔ لگتا ہے کہ ٹرمپ کو جیتانے کے لیے عالمی طاقتوں نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔وہ طاقتیں کون سی ہو سکتی ہیں۔ وہی جس کا ہم نے ذکر کیا نہ نظر آنے والی عالمی اسٹیبلشمنٹ ہی ہو سکتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن