ڈاکٹر ناصر خان
وی پی این (ورچوئل پرائیوٹ نیٹ ورک) ایک ایسا ٹول ہے جو انٹرنیٹ پر صارفین کی پرائیویسی اور سیکیورٹی کو بڑھاتا ہے۔ اس کے ذریعے صارفین اپنی آن لائن سرگرمیوں کو محفوظ اور خفیہ رکھ سکتے ہیں، اور ویب سائٹس تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں جنہیں بعض اوقات حکومت یا دیگر ادارے محدود کرتے ہیں۔ تاہم، جب حکومت کسی ملک میں وی پی این کو بند کرنے کا فیصلہ کرتی ہے، تو اس کے پیچھے عوامی مفاد اور قومی سیکیورٹی کے خدشات ہوتے ہیں۔
وی پی این کے بند ہونے سے لوگوں کو یہ محسوس ہو سکتا ہے کہ ان کی آزادی سلب ہو گئی ہے اور وہ اپنی مرضی کی ویب سائٹس تک رسائی حاصل نہیں کر پا رہے ہیں۔ لیکن حقیقت میں، حکومتیں یہ اقدام عوامی تحفظ اور نظم و ضبط کے لئے اٹھاتی ہیں۔ ہر ریاست کا یہ حق ہوتا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو ایسی ویب سائٹس سے بچائے جو ان کی ذہنی، جسمانی یا معاشی فلاح و بہبود کے لئے نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔ اس طرح، حکومتیں عوامی مفاد میں یہ فیصلہ کرتی ہیں کہ کون سی ویب سائٹس تک رسائی دینی ہے اور کون سی ویب سائٹس کو بلاک کرنا ہے۔
وی پی این کو بند کرنے کے پیچھے ایک بڑی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بعض ویب سائٹس پر موجود مواد قومی یا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہو، یا وہ ایسی معلومات فراہم کرتے ہوں جو قومی سلامتی کے لئے خطرہ بن سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر، دہشت گردی کی تشہیر کرنے والی ویب سائٹس، منفی سیاسی مواد پھیلانے والی ویب سائٹس، یا وہ ویب سائٹس جو سماجی اور ثقافتی مسائل پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں، ان تک رسائی کو روکنا ریاست کی ذمہ داری ہے تاکہ معاشرتی امن قائم رکھا جا سکے۔
حکومتیں عام طور پر یہ فیصلہ کرتی ہیں کہ عوامی سطح پر کون سی معلومات کی فراہمی مفید ہوگی اور کون سی معلومات نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔ اس طرح کے فیصلے ملک کی ترقی، استحکام اور معیشت کی فلاح کے لئے اہم ہوتے ہیں۔ وی پی این کے ذریعے ایسی ویب سائٹس تک رسائی حاصل کرنا جو قومی قوانین یا معاشرتی اصولوں کے خلاف ہو، ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈال سکتا ہے۔
وی پی این کو بند کرنے کے بارے میں علماءکا فتویٰ بھی ایک اہم اور مفید اقدام ہو سکتا ہے، خاص طور پر اگر یہ قدم قومی مفاد اور عوام کی فلاح کے لئے اٹھایا جائے۔ علمائ کرام نے ہمیشہ دین اسلام کے اصولوں کے مطابق معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی معاملات پر رہنمائی فراہم کی ہے، اور ان کا موقف عام طور پر وہ ہوتا ہے جو اسلامی تعلیمات اور اخلاقیات کے مطابق ہو۔ اگر وی پی این کے ذریعے غیر اخلاقی، غیر قانونی یا غیر شرعی مواد تک رسائی حاصل کی جا رہی ہو، تو اس پر علماءکا فتویٰ ایک جائز اور ضروری اقدام ہو سکتا ہے۔
اسلامی تعلیمات میں جھوٹ، فریب، اور ایسے مواد کی تشہیر پر سختی سے ممانعت کی گئی ہے جو معاشرتی امن، اخلاقی قدروں اور قومی سیکیورٹی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ اگر وی پی این کے ذریعے لوگ ایسی ویب سائٹس تک رسائی حاصل کر رہے ہوں جو ان اصولوں کے خلاف ہوں، جیسے کہ فحاشی، عریانیت، یا دیگر نقصان دہ مواد، تو ایسے میں علماء کا فتویٰ حکومت کے اس اقدام کو درست قرار دے سکتا ہے۔ ان کا فتویٰ اس بات پر زور دے گا کہ وی پی این کے ذریعے ایسی غیر اسلامی سرگرمیوں کو روکنا اور معاشرتی سطح پر اسلامی اقدار کو فروغ دینا ضروری ہے۔
پاکستان میں لوگ اکثر پون ویب سائٹس تک رسائی حاصل کرتے ہیں، اور یہ رسائی صرف وی پی این کے ذریعے ممکن ہوتی ہے۔ وی پی این ایک ایسا ٹول ہے جو صارفین کی انٹرنیٹ سرگرمیوں کو خفیہ کرتا ہے اور ان کو ویب سائٹس تک رسائی دینے میں مدد فراہم کرتا ہے، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA) نے پون ویب سائٹس کو بند کر رکھا ہے کیونکہ یہ ویب سائٹس نہ صرف اخلاقی اور معاشرتی لحاظ سے نقصان دہ سمجھی جاتی ہیں، بلکہ ان کا بچوں، نوجوانوں اور کمزور ذہنوں پر منفی اثر پڑتا ہے۔ حکومتی سطح پر اس فیصلے کا مقصد پورن ویب سائٹس سے پیدا ہونے والے سماجی مسائل، جیسے کہ غیر اخلاقی رویے، ذہنی تناﺅ، اور جنسیت کے بارے میں غلط تصورات کی روک تھام کرنا ہے۔ اس کے علاوہ، یہ اقدام ملک کی ثقافتی اقدار اور اسلامی اصولوں کی حفاظت کے لیے بھی اٹھایا گیا ہے، کیونکہ پورن مواد نہ صرف مذہبی تعلیمات کے خلاف ہے، بلکہ یہ معاشرتی روابط اور صحت مند زندگی کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ حکومتی فیصلے کا فلسفیانہ پہلو یہ ہے کہ ریاست کا بنیادی فرض ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی اخلاقی اور ذہنی فلاح کو ترجیح دے اور انہیں ایسی چیزوں سے بچائے جو ان کی ترقی اور فلاح کے لیے نقصان دہ ہوں۔
لوگوں کا وی پی این کی بندش پر احتجاج اور رونا دھونا دراصل غیر منطقی ہے کیونکہ یہ مسئلہ معاشرتی اور اخلاقی فلاح سے جڑا ہوا ہے،ریاست کا بنیادی مقصد اپنے شہریوں کی حفاظت اور فلاح ہے، اور انٹرنیٹ تک غیر ضروری یا غیر اخلاقی رسائی کے حوالے سے فیصلے عوامی مفاد میں کیے جاتے ہیں۔ جب حکومت کسی ویب سائٹ کو بند کرتی ہے، تو اس کا مقصد اس کے اثرات کو کم کرنا ہوتا ہے جو معاشرتی و اخلاقی حدود سے تجاوز کرتے ہیں۔ اس کے برعکس، وی پی این کا استعمال ان حدود کو توڑنے کی کوشش ہے، جو کسی بھی جمہوری یا اخلاقی معاشرے کے اصولوں کے خلاف جا سکتی ہے۔ اس لیے لوگوں کا وی پی این کی بندش پر احتجاج کرنا اور رونا دھونا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ وہ اپنے ذاتی مفادات کو عوامی فلاح اور اجتماعی ذمہ داریوں پر ترجیح دے رہے ہیں، جو ایک غیر منطقی نقطہ نظر ہے۔
بہرحال، وی پی این کو بند کرنا ایک احسن اقدام ہے کیونکہ یہ فیصلہ نہ صرف فرد کی ذاتی آزادی کی بجائے عوامی مفاد کو ترجیح دیتا ہے، بلکہ معاشرتی اور اخلاقی ذمہ داریوں کو بھی مدنظر رکھتا ہے۔حکومت کا یہ اقدام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ معاشرہ ایسی مواد سے محفوظ رہ سکے جو اس کی ترقی اور فلاح کے لئے نقصان دہ ہو۔ اس طرح کے اقدامات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ریاست کا مقصد صرف فرد کی آزادی کو محدود کرنا نہیں بلکہ ایک مستحکم، محفوظ اور اخلاقی معاشرتی ڈھانچہ قائم کرنا ہے، جس میں ہر شہری کی فلاح اور مجموعی بہتری کو مقدم رکھا جاتا ہے۔ اس لیے وی پی این کی بندش ایک تدبر سے بھرپور فیصلہ ہے جو ریاست کی اخلاقی ذمہ داریوں اور عوامی مفاد کی عکاسی کرتا ہے.