قصہ امریکی ریاست ویسٹ ورجینیا کی سپریم کورٹ کے مواخذے کا…!!

الٹ پھیر…شاہد لطیف
kshahidlateef@gmail.com
   یہ نگارش 17 فروری 2022 کوشائع ہوئی جو ہمارے آج کے حالات پر صادرآتی ہے…گیت نگار مسرور انور صاحب سے میں نے کچھ چیزیں سیکھیں جو آج میرے کام آتی ہیں۔ان میں ایک باقاعدگی سے ڈائری لکھنا بھی ہے۔2018 کی ڈائری کی ورق گردانی کرتے ہوئے ایک چونکا دینے والی خبر نکلی جو اِس کالم کا سبب بنی۔یہ دلچسپ خبر ایک پوری کی پوری سپریم کورٹ کے مواخذے کی ہے۔ہمارے نظام کی سب سے بڑی خرابی مواخذے کا نہ ہونا ہے۔سربراہانِ مملکت کو تو سرے سے مواخذے سے استثناءحاصل ہے۔ اگرچہ کہنے کو تو سرکاری طور پر ہمارے ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے لیکن عملاً نہ تو یہ جمہوری ہے نہ ہی اسلامی ! ہر ایک سطح پر دیکھنے میں آتا ہے کہ قانون کا نفاذ محض کمزور اور غریب پر ہے ، طاقتور اس سے بالا ہے توکیا پھر جمہوریت پر فاتحہ پڑھ لینا چاہیے ! جمہوریت اور دینِ اسلام میں بڑے سے بڑے سرکاری افسر یا جج کو مواخذے سے کسی بھی قسم کا استثناءحاصل نہیں ہوتا۔اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔کیا کبھی آپ نے سنا کہ کسی ریاست کی پوری کی پوری سپریم کورٹ مواخذے کے لئے پیش ہو گئی ! جی ہاں۔ایسا واقعہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ریاست ویسٹ ورجینیامیں پیش آیا۔یہاں کی ہاﺅس جیوڈیشری کمیٹی نے ریاست کی پوری کی پوری سپریم کورٹ کے مواخذے کا فیصلہ کر لیا۔ان میں چیف جسٹس مارگریٹ ورک مین، جسٹس رابن ڈیوِس، جسٹس بیتھ واکر اور جسٹس ایلن لَوری شامل تھے۔ پانچویں جسٹس مینیس کیچم تفتیش شروع ہونے سے پہلے ہی مستعفی ہو گئے۔ان جسٹس خواتین و حضرات پر بد انتظامی، بد عنوانی، نا اہل ہونا، اپنا کام صحیح نہ کرنا اور کچھ بڑے جرائم کے الزامات لگائے گئے۔ مذکورہ جیوڈیشری کمیٹی نے بتلایا کہ 04 ملین ڈالر جسٹس خواتین و حضرات نے اپنے دفاتر کی '' غیر ضروری شاہانہ '' سجاوٹ، گاڑیوں اور کریڈٹ کارڈوں پر خرچ کیے۔ اس سے پہلے کہ بات کو آگے بڑھاﺅں یہ بتانا ضروری ہے کہ پاکستان کی طرح ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ایک ہی سپریم کورٹ نہیں ہے بلکہ ہر ایک ریاست کی اپنی الگ الگ سپریم کورٹ ہوتی ہے۔میں نے ریاست ویسٹ ورجینیا میں ایک لمبا عرصہ گزارا ہے۔ وہاں کے قانون سے بھی واسطہ رہا۔خاکسار اپنے کالموں میں کئی مرتبہ لکھ چکا ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں قانون کا '' نفاذ '' نظر آتا ہے۔ خاص و عا م کے لئے قانون یکساں ہیں۔خواہ کوئی کتنا بڑا سراکاری عہدہ دار کیوں نہ ہو کسی کو استثناءحاصل ہے نہ کوئی قانون سے بالا تر ! وہاں اعلی حکام اکثر شاپنگ سینٹروں ، میلوں ٹھیلوں اور عوامی جگہوں پر نظر آتے ہیں۔یہ شاپنگ کرنے نہیں بلکہ عوام کا حال معلوم کرنے آتے ہیں۔ خود میری اپنی ریاست کے گورنر سے عوامی جگہوں پر دو مرتبہ ملاقات ہوئی تھی۔ پوری کی پوری سپریم کورٹ کے مواخذے کی کہانی کا آغاز نومبر 2017 میںمقامی ٹیلی وڑن کی اس خبر سے ہوا جس میں بتلایا گیا تھا کہ عوام کے پیسوں سے جسٹس ایلن لَوری نے اپنے ذاتی چیمبر میں 32,000 ڈالر کا صوفہ سیٹ اور اس کے لئے 1,700 ڈالر کے عالی شان کشن خریدے۔ اس پر ضابطے کی کارروائی شروع ہوئی اور فروری 2018 میںجسٹس لَوری کو مواخذے کا سامنا کر نا پڑا۔ انہیں 22 ا لزامات کے تحت 8 0 جون کو بغیر تنخواہ کے معطل کر دیا گیا۔ ریاست کے گورنر کے کہنے پر بھی یہ مستعفی نہیں ہوئے۔ ان پر 16 فراڈ کے ، 2 0 دھوکہ دہی کے الزامات، 01 گواہیوں کی چھیڑ چھاڑ اور 03 وفاقی تفتیشی اداروں سے جھوٹ بولنے کے الزام شامل ہیں۔ ایف بی آئی نے انہیں 20 جون کو گرفتار بھی کیا تھا لیکن بعد میں ضمانت پر چھوڑ دیا۔ان پر یہ الزام بھی لگے کہ سرکاری گاڑی ذاتی استعمال میں لائے اور اس کا پٹرول بھی کلیم کیا۔پھر کورٹ ہاﺅس سے فرنیچر بھی اپنے گھر لے جا کر استعمال کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ موصوف جسٹس بننے سے پہلے ویسٹ ورجینیا کی سیاسی کرپشن کے بارے میں ایک کتاب کے مصنف رہ چکے ہیں۔ میں جب کبھی ایسی خبر پڑھتا ہوں تو بے اختیار میرے ذہن میں اپنے ملکی حالات کا نقشہ گھوم جاتا ہے۔ ہمارے طریقہ ئ سیاست و طرزِ حکومت پر کئی محاورے چسپاں ہوتے ہیں۔مثلاََ آدھا تیتر آدھا بٹیر یا کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی بھی بھول گیا یا دوسروں کو نصیحت اور خود ملا فضیحت اور سب سے بڑا محاورہ جو ہمارے حکمرانوں پر صادر آتا ہے وہ ہے '' بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی '' ہمارے عوام یہ بھی جانتے ہیں کہ عموماً انتخابات کی اشتہاری مہم پر سیاستدان جو رقم خرچ کرتے ہیں کامیاب ہونے کے بعد کیا وہ اسے بھول جائیں گے ؟ یہاں بہتی گنگا میں ہاتھ کیوں دھوئے جاتے ہیں ؟ اس کی صرف ایک وجہ ہے کہ ان کے سر پر مواخذے کی تلوار نہیں لٹکتی۔ انہیں معلوم ہے کہ ان کے '' عہدوں '' کو قانون کچھ نہیں کہے گا۔کبھی کوئی '' استثناء'' کام آ جاتا ہے تو کہیں یہ کسی قانونی سقم سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔وہ ممالک جہاں جمہوریت رائج ہے وہاں مکمل قانون کا نفاذ ہے جس سے کسی گورنر، صدر یا چیف جسٹس کو کوئی استثناءحاصل نہیں۔ اسی قانون کی تلوار کا خوف انہیں چھوٹی موٹی کوتاہیوں سے آگے بڑھنے نہیں دیتا اور اگر یہ چھوٹی موٹی کوتاہیاں کبھی بے نقاب ہو جائیں تو انہیں معطل کرنے اور مواخذہ کرنے کے لئے کافی ہو جاتی ہیں۔ ایسے میں بے اختیار میرے دل سے دعا نکلتی ہے کہ کاش ہمارے ملک میں بھی اسی طرح قانون کا راج ہو جہاں بڑے بڑے عہدیدار چھوٹے چھوٹے ہاتھ مارتے ہوئے بھی ڈریں کجا یہ کہ ہمارے چھوٹے چھوٹے عہدیدار بڑے بڑے ہاتھ مارتے ہوئے بھی نہیں ڈرتے۔ہم ہر موجودہ اور آنے والی حکومت سے بھی یہی امید رکھتے ہیں کہ وہ قانون کا '' نفاذ '' کرے گی۔ مکمل قانون کا نفاذ !

ای پیپر دی نیشن